الحمد للہ.
اللہ كى شريعت ميں دينى تقريبات اور تہوار اور دوسرے خوشى كے مواقع منانے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ ان تقريبات اور تہواروں ميں كوئى برائى نہ ہو مثلا مرد و عورت كا اختلاط اور بےپردگى، اور گانا بجانا.
يہ تقريبات عبادت نہيں جن كے بجا لانے سے اللہ كا قرب حاصل ہوتا ہے، بلكہ يہ خوشى و فرحت كے اظہار كے ليے اجتماع ہے، اور عادات ميں اصل اباحت پائى جاتى ہے، ليكن عبادات ميں اصل ممانعت و حرمت ہے.
شريعت ميں وہ تقريبات اور تہوار جو ممنوع ہيں ـ ان كے علاوہ جن ميں برائى پائى جاتى ہو ـ وہ تہوار اور تقريبات بھى شامل ہيں جن ميں كفار كى مشابہت پائى جاتى ہو مثلا سالگرہ منانا، اور مدر ڈے وغيرہ منانا، اور اس كى ممانعت اس وقت اور بھى شدت اختيار كر جاتى ہے جس يہ تقريب اور تہوار شرعى عيد كى طرح منائى جائے؛ اور يہ چيز اس وقت واقعتا ان تقريبات اور تہواروں ميں پائى جاتى ہے اس طرح سالگر كو " عيد ميلاد " كا نام ديا جانے لگا ہے، اور مدر ڈے كو " عيد الام " كا نام ديا جا رہا ہے.
يہ ايسى تقريبات اور تہوار ہيں جن ميں اہل كفر سے مشابہت پائى جاتى ہے، حالانكہ ہميں ان كفار كى مشابہت اختيار كرنے سے اجتناب كرنے كا حكم ديا گيا ہے كہ جو كفار كے ساتھ مخصوص ہے اس ميں مشابہت اختيار نہ كى جائے، اور جب اس ميں شركت كرنے والا اور اسے منانے والا اس سے اللہ كا قرب حاصل كرنے كى كوشش كرے يہ مشابہت اور بھى شديد ممانعت اختيار كر جاتى ہے، اور پھر اس حالت ميں معصيت اور بدعت دونوں جمع ہو جائيگى.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
بچوں كى سالگرہ منانے كا حكم كيا ہے، ہمارے ہاں كہا جاتا ہے كہ سالگرہ منانے كى بجائے اس دن روزہ ركھنا اچھا ہے، اس ميں صحيح كيا ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" عيد ميلاد اور سالگرہ يا اس كى وجہ سے روزہ ركھنا دونوں ہى بدعت ہيں جس كى كوئى اصل نہيں، بلكہ مسلمان كو چاہيے كہ اللہ نے اس پر جو فرائض ركھے ہيں ان كى بجا آورى كر كے اور نفلى عبادات سرانجام دے كر اللہ كا قرب حاصل كرے اور اسے ہر حالت ميں اللہ كا شكر اور اس كى تعريف كرنى چاہيے، اور سال و شب و روز صحت و تندرستى ميں بسر ہونے پر رب كى جتنى تعريف و شكر كرے كم ہے، اللہ نے اس كے مال و دولت اور اولاد كو امن ميں ركھا " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ صالح الفوزان.
الشيخ بكر ابو زيد.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 2 / 260 - 261 ).
اور آپ نے جو ذكر كيا ہے كہ كرسمس كا تہوار كسى دين كى طرف منسوب نہيں ہوتا، آپ كى يہ بات صحيح نہيں، بلكہ نصارى كے ہاں يہ ايك دينى تہوار اور عيد ہے جس ميں مسيح عليہ السلام كا جشن عيد ميلاد مناتے ہيں.
جب ہم اپنے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا جشن عيد ميلاد النبى منانے سے منع كرتے ہيں اور اسے بدعتى تہوار ميں شامل كرتے ہيں تو پھر ايسا شخص جو عيسائيوں كے تہوار ميں نصارى كى موافقت كرے اس كو كيسے صحيح كہہ سكتے ہيں.
آپ كرسمس كے متعلق مزيد تفصيل جاننے كے ليے سوال نمبر ( 1130 ) اور ( 947 ) اور ( 85108 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
اور عيد ميلاد منانے كے حكم كے متعلق شيخ عبد العزيز بن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہما اللہ كا فتوى ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 1027 ) اور ( 26804 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
اور مدر ڈے " عيد الام " نامى تہوار كے متعلق شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا فتوى ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 59905 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اور ہمارى اس ويب سائٹ پر مدر ڈے كے متعلق ايك تفصيلى نوٹ اور اس كى تاريخ حيثيت بيان كى گئى ہے اور اس كے حكم كے متعلق اہل علم كے فتاوى جات بھى نقل كيے گئے ہيں آپ اس كا مطالعہ كرنے كے ليے درج ذيل لنك پر كلك كريں:
" ln=ara&article_id=92 /index.php?pg=article& "
اور بدعتى تہوار كے متعلق عمومى نوٹ اور كلام آپ سوال نمبر ( 10070 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.
اور شادى بياہ اور دوسرى تقريبات كے مواقع پر كى جانے والى برائيوں كے متعلق اہل علم كے فتاوى جات ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 60442 ) اور ( 10791 ) اور ( 9290 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .