اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

مکہ مکرمہ میں مسجدحرام کی تاريخی معلومات

11-05-2003

سوال 3748

مجھ سے مسجدحرام کی تاريخ کے بارہ میں ایک مقالہ مطلوب ہے ، اس سلسلہ میں میں آپ سے تعاون چاہتا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


مسجدحرام جزیرہ عرب کے ایک شہر مکہ مکرمہ میں واقع ہے جوکہ سطح سمندرسے 330 میٹرکی بلندی پرواقع ہے ، مسجدحرام کی تعمیری تاریخ عھد ابراھیم خلیل اوراسماعیل علیہ السلام سے تعلق رکھتی ہے ، اوراسی شہرمیں ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ پیداہوۓ اوریہی شہرمھبط وحی بھی ہے جہاں پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم پروحی کی ابتدا ہو‏ئ ۔

یہی وہ شہر ہے جس سے اسلامی نور پھیلا اوریہاں پرہی مسجد حرام واقع ہے جوکہ لوگوں کی عبادت کے لیے بنائ گئ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اللہ تعالی کا پہلا گھر جولوگوں کے لیے مقرر کیا گيا وہ ہی ہے جومکہ مکرمہ میں ہے جوتمام دنیا کے لیے برکت وھدایت والا ہے آل عمران ( 96 ) ۔

اورصحیح مسلم میں ابوذررضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث مروی ہے کہ :

ابوذررضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوپوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائ گئ ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسجدحرام ۔

میں نے کہا کہ اس کے بعد کون سی ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسجداقصی ۔

میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنی مدت کا فرق ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چالیس برس ۔

کعبہ جوکہ مشرق ومغرب میں سب مسلمانوں کا قبلہ ہے مسجدحرام کے تقریباوسط میں پایا جاتا ہے جس کی بلندی تقریبا پندرہ میٹر ہے اوروہ ایک چوکور حجرہ کی شکل میں بنایا گيا ہے جسے ابراھیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم سے بنایا ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورجبکہ ہم ابراہیم علیہ السلام کوکعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کردی اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کوشریک نہ کرنا اورمیرے گھر کوطواف قیام رکوع کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا الحج ( 26 ) ۔

اوربوانا کا معنی اس کی طرف راہنمائ کی اوراس کی تعمیر کی اجازت دی ۔ تفسیرابن کثیر ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

ابراہیم اوراسماعیل علیہ السلام علیہم السلام کعبہ کی دیواریں اٹھاتے جاتے اورکہتے جا رہے تھے البقرۃ ( 127 ) ۔

وھب بن منبہ رحمہ اللہ تعالی کا کنہا ہے : کعبہ کوابراھیم علیہ السلام نے تعمیر کیا پھر ان کےبعد عمالقہ نے اورپھر جرھم اوران کے بعد قصی بن کلاب نے بنایا ، اورپھرقریش کی تعیر تومعروف ہی ہے ۔

قریش کعبہ کی تعمیر وادی کے پتھروں سے کرنے کے لیے ان پتھروں کو اپنے کندھوں پراٹھا کرلاتے اوربیت اللہ کی بلندی بیس ہاتھ رکھی ، کعبہ کی تعمیر اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم پروحی کے نزول کا درمیانی وقفہ پانچ برس اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ سے نکل کرمدینہ جانے اورکعبہ کی تعمیر کی درمیانی مدت پندرہ برس تھی ، اس کا ذکر عبدالرزاق نے عن معمر عن عبداللہ بن ‏عثمان عن ابی الطفیل سے کیا ہے ۔

اورعن معمر عن زھری رحمہم اللہ تعالی سے بیان کیا ہے کہ :

جب وہ اس کی بنیادیں اٹھا کر حجر اسود تک پہنچے تو قریشی قبا‏ئل کا حجر اسود میں اختلاف پیدا ہوگیا کہ اسے کون اٹھا کراس کی جگہ پررکھے گا حتی کہ لڑائ تک جاپہنچے تووہ کہنے لگے کہ چلو ہم اپنا منصف اسے بنائيں جوسب سے پہلے اس طرف سے داخل ہو تو ان کا اس پر اتفاق ہوگیا ۔

تووہ آنے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جوکہ اس وقت نوجوان تھے اورانہوں نے اپنے کندھوں پردھاری دارچادر ڈال رکھی تھی توقریش نے انہيں اپنا فیصل مان لیا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑامنگوا کرحجر اسود اس میں رکھا اورہرقبیلے کے سردارکوچادرکے کونے پکڑکراٹھانے کا حکم دیا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کواپنے ہاتھوں سے اٹھاکر اس کی جگہ پر نصب کردیا ۔ دیکھیں تارخ مکہ للازرقی ( 1 / 161 - 164 ) ۔

امام مسلم رحمہ اللہ تعالی لے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے حدیث بیان فرمائ ہے کہ :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم ( کعبہ کے ساتھ چھوٹی سی دیوار میں گھری ہو‏ئ جگہ ) کے بارہ میں سوال کیا کہ کیا یہ بیت اللہ کا ہی حصہ ہے ؟

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جی ہاں ، ‏عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا کہ اسے پھر بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کيا گيا ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا کہ تیر قوم کے پاس خرچہ کے لیے رقم کم پڑگئ تھی ۔

میں نے کہا کہ بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تیری قوم نے اسے اونچا اس لیے کیا تا کہ وہ جسے چاہیں بیت اللہ میں داخل کریں اورجسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں ۔

اوراگرتیری قوم نئ نئ مسلمان نہ ہوتی اوران کے دل اس بات کوتسلیم سے انکارنہ کرتے تومیں اسے ( حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکردیتا ۔

قبل ازاسلام کعبہ پرابرہہ حبشی نے ہاتھیوں کے ساتھ چڑھائ کردی ( یہی وہ سال ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوتی ہے ) اس کا سبب یہ تھا کہ ابرہہ نے ایک کنیسہ ( گرجا ) تعمیرکروایا تاکہ وہ عرب کواس طرف کھینچ سکے اوربیت اللہ کا حج کرنے کی بجاۓ وہ لوگ اس کا حج کیا کریں ، تو ایک ہاتھیوں کا لشکر عظیم لے کرچلا جب وہ مکہ کے قریب پہنچا تواللہ تعالی نے ابابیل پرندے جن کے منہ اورپنجوں میں تین تین چھوٹےچنے کے برابر کنکر تھے بھیجا وہ پتھر جسے لگتا وہ ہلاک ہو جاتا ۔

تواس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالی کے حکم سے تباہ وبرباد ہوگيا اللہ تعالی نے اس حادثہ کو کتاب عزيز قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے :

کیا تونے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کےرب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا ؟ کیا ان کی سازش ومکرکو بے کار نہیں کردیا ؟ اوران پرپرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیۓ ، جوانہیں مٹی اورپتھر کی کنکریاں ماررہے تھے ، پس انہیں کھاۓ ہوۓ بھوسے کی طرح کردیا الفیل ۔دیکھیں: السیرۃ النبویۃ لابن ھشام (1/ 44 )

اوربیت اللہ کے ارد گرد کو‏ئ چار دیورای نہیں تھی حتی کہ اس کی ضرورت محسوس کی گئ توپھربنائ گئيں ۔

یاقوت الحموی نے محجم البلدان میں لکھا ہے کہ :

کعبہ کے اردگرد چاردیواری سب سے پہلے عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے بنوا‏ئ یہ نہ تو دورنبوی صلی اللہ علیہ وسلم اورنہ ہی خلیفہ اول ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کے دورخلافت میں تھی ۔

اوریہ چاردیواری بنانے کا سبب یہ تھا کہ لوگوں نے مکانات بنا کر بیت اللہ کوتنگ کردیا اوراپنے گھروں کو اس کے بالکل قریب کردیاتو عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے :

بلاشبہ کعبہ اللہ تعالی کا گھر ہے اورپھرگھرکے لیے صحن کا ہونا ضروری ہے ، اور معاملہ یہ ہے کہ تم لوگ اس پرآۓ ہو اورتجاوزکیاہے نہ کہ اس نے توعمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے ان گھروں کوخرید کرمنھدم کرکے اسے بیت اللہ میں شامل کردیا ۔

اورمسجدکے پڑوسیوں میں سے کچھ ان لوگوں کے گھربھی منھدم کردیۓ جنہوں نے اپنے مکانات بیچنے سے انکار کردیا اوراسے کے بدلہ میں ان کی قیمت مقررکی جو کہ مالکان نے بعد میں لے لیے ۔

تواس طرح مسجد کے اردگرد قدسے چھوٹی دیوار بنا دی گئ جس پر چراغ رکھے جاتے تھے ، اس کے بعد عثمان رضي اللہ تعالی عنہ نے بھی کچھ اورگھر خریدے جس کی قیمت بھی بہت زیاد ادا کی ، اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ عثمان رضي اللہ تعالی عنہ ہے وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مسجد کی توسیع کرتے وقت ایک ستون والے مکان بناۓ ۔

اورابن زبیررضي اللہ تعالی عنہ نے مسجد نے مسجد کی توسیع نہیں بلکہ اس کی مرمت وغیرہ کروائ اوراس میں دروازے زیادہ کیے اورپتھرکے ستون بناۓ اوراس کی تزیین آرائش کی ۔

اور عبدالملک بن مروان نے مسجد کی چاردیواری اونچی کروائ اورسمندر کے راستے مصرسے ستون جدہ بھیجے اورجدہ سے اسے گاڑھی پررکھ کر مکہ مکرمہ پنچاۓ اورحجاج کوحکم دیا کہ وہ اسے وہاں لگاۓ ۔

جب ولید بن عبدالملک مسند پربیٹھا تواس نے کعبہ کے تزيین میں اضافہ کیا اورپرنالہ اورچھت میں کچھ تبدیلی کی ، اوراسی طرح منصوراوراس کے بیٹے مھدی نے بھی مسجد کی تزیین آرائش اورشکل میں اضافہ کیا ۔

اورمسجد حرام میں کچھ دینی آثاربھی ہیں ، جن میں مقام ابراھیم وہ پتھر ہے جس پرابراھیم علیہ السلام کھڑے ہوکربیت اللہ کی دیواریں تمعیرکرتے رہے ، اوراسی طرح مسجد میں زمزم کا کنواں بھی ہے جوایسا چشمہ ہے جسے اللہ تعالی نے اسماعیل علیہ السلام اوران کی والدہ ھاجر ہ کے لیے نکالاتھا ۔

اوراسی طرح یہ بھی نہیں بھولا جاسکتا کہ اس میں حجراسود اوررکن یمانی بھی ہے جوکہ جنت کے یاقوتوں میں سے دویاقوت ہیں جیسا کہ امام ترمذی اورامام احمد رحمہا اللہ تعالی نے حدیث بیان کی ہے :

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا :

بلاشبہ حجر اسود اورمقام ابراھیم جنت کے یاقوتوں میں سے یاقوت ہيں اللہ تعالی نے ان کے نوراورروشنی کوختم کردیا ہے اگراللہ تعالی اس روشنی کوختم نہ کرتا تومشرق ومغرب کا درمیانی حصہ روشن ہوجاتا ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 804 ) ۔

مسجد حرام کے ملحق میں صفااورمروہ پہاڑیا ں بھی ہیں ، اور صرف اکیلی مسجد حرام کی یہ خصوصیت ہے کہ زمین میں جس کا حج کیا جاتا ہے اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا :

صفا اورمروہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہیں اس لیے بیت اللہ کا حج وعمرہ کرنے والے پران کا طواف کرلینے میں بھی کوئ گناہ نہیں ، اپنی خوشی سے بھلائ کرنے والوں کا اللہ تعالی قدردان ہے اورانہیں خوب جاننے والا ہے البقرۃ ( 158) ۔

اورمسجدحرام کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اسے امن کا گہوارہ بنایا ہے اوراس میں ایک نماز ایک لاکھ کے برابر ہے ، فرمان باری تعالی ہے :

ہم نے بیت اللہ کولوگوں کے لیے ثواب اورامن وامان کی جگہ بنائ ، تم مقام ابراھیم کوجاۓ نماز مقرر کرلو ، ہم نے ابراھیم اوراسماعیل علیہما السلام سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھرکوطواف کرنے والوں اوررکوع وسجدہ کرنےوالوں کے لیے پاک صاف رکھو البقرۃ ( 125 ) ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں مقام ابراھیم ہے اس میں جو آجاۓ امن والا ہو جاتا ہے ، اللہ تعالی نے ان لوگوں پر جواس کی طرف راہ پاسکتے ہوں اس گھرکا حج فرض کردیا ہے ،اورجوکو‏ئ کفر کرے تو اللہ تعالی ( اس سے بلکہ ) تمام دنیا سے بے پرواہ ہے آل عمران ( 97 )

دیکھیں : آخبارمکہ للازرقی ۔ اوراخبارمکہ للفاکھی ۔

اوراللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا اورصحیح اورسیدھے راہ کی راہنمائ کرنے والا ہے ۔

واللہ اعلم .

مساجد کے احکام فضائل و مناقب
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔