"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
ہم اللہ تعالى كا شكر اور اس كى تعريف كرتے ہيں كہ اس نے آپ كو سچى اور خالص توبہ كرنے كى توفيق سے نوازا، اور اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو دين پر ثابت قدم ركھے، اور اس پر استقامت دے.
آپ نے جو سوال كيا ہے اس كے متعلق گزارش ہے كہ:
اللہ تعالى سے عہد اور وعدہ كرنا يہ نذر اور قسم كےالفاظ ميں شمار ہوتے ہيں.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور ان ميں سے كچھ ايسے بھى ہيں جو اللہ تعالى سے وعدہ كرتے ہيں كہ اگر اللہ تعالى انہيں اپنے فضل سے مال دے تو وہ صدقہ كرينگے اور نيك لوگوں ميں سے ہو جائينگے التوبۃ ( 75 ).
ابو بكر الجصاص رحمہ اللہ تعالى " احكام القرآن " ميں اس آيت كے بارہ ميں كہتے ہيں:
اس آيت ميں دليل ہے كہ: جس نے ايسى نذر مانى جو اطاعت اور اللہ تعالى كے قرب كى ہو تو اسے وہ نذر پورى كرنا ہو گى، كيونكہ اللہ تعالى سے كيا ہوا وعدہ اورعہد نذر اور واجب ہوتا ہے. اھـ
ديكھيں: احكام القرآن ( 3 / 208 ).
امام زہرى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جس كسى نے بھى اللہ تعالى سے كسى كام كا عہد كيا اور اسے توڑ ديا تو اسے اللہ تعالى كا مقرر كردہ قسم كا كفارہ ادا كرنا چاہيے.
اسے المدونۃ ميں نقل كيا گيا ہے، ديكھيں: المدونۃ ( 1 / 580 ).
اور صاحب المدونہ كا كہنا ہے:
( يہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما، اور عطاء بن ابى رباح، يحيى بن سعيد، كا قول ہے، ابن وہب نے سفيان ثورى سے وہ فراس سے اور وہ شعبى رحمہ اللہ تعالى جميعا سے بيان كرتے ان كا كہنا ہے: جب كوئى كہے كہ ميرا اللہ تعالى كے ساتھ عہد اور وعدہ ہے، تو يہ قسم ہے ) انتہى.
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ " الاختيارات " ميں كہتے ہيں:
جب كوئى شخص يہ كہے: ميں اللہ تعالى سے عہد اور وعدہ كرتا ہوں كہ اس برس حج كرونگا، تو يہ نذر اور عہد اور قسم ہے. اھـ
ديكھيں: الاختيارات ( 562 - 563 ).
اور جب نذر سے وہى چيز مقصود ہو جو قسم كا مقصد ہوتا ہے كہ اپنے آپ كا كسى دوسرے كو كسى معين چيز كے فعل يا عدم فعل پر ابھارنا مقصود ہو تو اس كا حكم قسم كا ہوتا ہے، اور اگر اسے پورا نہ كرے تو اس ميں قسم كا كفارہ واجب ہوتا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں كہتے ہيں:
وہ نذر جو قسم كى جگہ كسى فعل كے كرنے يا كسى فعل سے روكنے پر ابھارے، اور اس كا اس سے نذر مقصد نہ ہو، اور نہ ہى قرب حاصل كرنا، تو اس كا حكم قسم كا ہے. اھـ
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 13 / 622 ).
لہذا اس بنا پر آپ كے ذمہ قسم كا كفارہ ہے، اور اگر تو قسم ايك فعل پر تھى تو اس ميں ايك كفارہ لازم آتا ہے ـ سوال سے يہى ظاہر ہوتا ہے ـ اور اگر قسم كئى ايك افعال پر اٹھائى گئى ہو تو پھر ہر ايك فعل ميں ايك كفارہ لازم آتا ہے.
شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى " الاختيارات " ميں كہتے ہيں:
كفارہ ادا كرنے سے قبل اس نے قسم ميں تكرار كيا... تو صحيح يہى ہے كہ اگر وہ كسى فعل پر ہو تو اس ميں ايك كفارہ ہے، وگرنہ دو كفارے. اھـ
ديكھيں: الاختيارات ( 562 - 563 ).
قسم كا كفارہ يہ ہے كہ: ايك غلام آزاد كيا جائے، يا دس مسكينوں كو كھانا ديا جائے، يا انہيں لباس مہيا كيا جائے، اور جسے يہ نہ مليں وہ تين يوم كے روزے ركھے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اللہ تعالى تمہارى قسموں ميں لغو قسم پر تمہارا مؤاخذہ نہيں كرتا، ليكن اس پر مؤاخذہ فرماتا ہے كہ تم جن قسموں كو مضبوط كردو، اس كا كفارہ دس محتاجوں كو كھانا دينا ہے اوسط درجے كا جو اپنے گھروالوں كو كھلاتے ہو يا ان كو لباس دينا، يا ايك غلام يا لونڈى آزاد كرنا، ہے، اور جو كوئى نہ پائے تو وہ تين دن كے روزے ركھے، يہ تمہارى قسموں كا كفارہ ہے جب كہ تم قسم كھا لو، اور اپنى قسموں كا خيال ركھو! اسى طرح اللہ تعالى تمہارے واسطے اپنے احكام بيان فرماتا ہے تا كہ تم شكر كرو المآئدۃ ( 89 ).
آپ مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 9985 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم.