"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
سودى لين دين كرنا كبيرہ گناہوں ميں سے ہے، اور اللہ تعالى نے اس لين دين پر بہت سخت اور شديد قسم كى وعيد بيان كر ركھى ہے.
اسى بارہ ميں اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد ہے:
اے ايمان والو! اللہ تعالى سے ڈرو اور جو سود باقى رہ گيا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم سچے اور پكے مومن ہو، اور اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو تم اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كے ساتھ لڑنے كے ليے تيار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ كرلو تو اصل مال تمہارا ہى ہے، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے البقرۃ ( 278 - 279 ).
اورارشاد بارى تعالى ہے:
وہ لوگ جو سود خور ہيں وہ كھڑے نہ ہونگے مگر اس طرح جس طرح ايك شيطان كے چھونے سے خبطى بنايا ہوا شخص كھڑا ہوتا ہے، يہ اس ليے كہ وہ يہ كہا كرتے تھے كہ تجارت بھى تو سود كى طرح ہى ہے، حالانكہ اللہ تعالى نے تجارت كو حلال اور سود كو حرام كيا ہے، جو شخص اپنے پاس اللہ تعالى كى آئى ہوئى نصيحت سن كر رك گيا اس كے ليے وہ ہے جو گزر چكا، اور اس كا معاملہ اللہ تعالى كى طرف ہے، اور جو كوئى پھر دوبارہ ( حرام كى طرف ) لوٹا وہ جہنمى ہے، ايسے ہميشہ ہى اس ميں رہيں گے البقرۃ ( 275 ).
اور حديث سے ثابت ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود خور اور سود كھلانے والے پر لعنت فرمائى ہے" صحيح بخارىحديث نمبر ( 5962 ).
سود خور وہ ہے جو سود لے اور سود دينے والے كو سود كھلانے والا كہتے ہيں، اس معاملہ ميں جس كے متعلق سوال كيا گيا ہے، آدمى اور بنك دونوں سود كھانے اور كھلانے والے ہيں اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" آدمى ايك درہم سود كا كھائے اور اسے علم ہو ( كہ يہ سود كا ہے ) تو يہ اللہ تعالى كے ہاں 36 چھتيس زنا كرنے سے زيادہ سخت ہے"
اسے احمد اور طبرانى نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3375 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور ايك حديث ميں فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:
" سود كے بہتر 72 باب اور قسميں ہيں ان ميں سے سب سے كم تر آدمى كا اپنى سگى ماں كے ساتھ زنا كرنا ہے"
اسے امام طبرانى رحمہ اللہ نے طبرانى الاوسط ميں روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3537 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور پھر علماء كرام كا اس پر اجماع اور اتفاق ہے كہ جو قرض بھى نفع لائے وہ حرام ہے، ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( ہر وہ قرض جس ميں زيادہ لينے كى شرط ركھى جائے وہ بغير كسى اختلاف كے حرام ہے، ابن منذر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
سب كا اس پر اجماع ہے كہ قرض دينے والا جب قرض حاصل كرنے والے كےسامنے زيادہ يا ہديہ كى شرط ركھے اور اس شرط پر اسے قرض ديا تو يہ زيادہ لينا سود ہے )
اور ابى بن كعب، ابن عباس ، اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے روايت كيا گيا ہے كہ وہ نفع لانے والے قرض سے منع كيا كرتے تھے.
ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ المقدسى ( 6 / 436 ).
دوم:
اور آپ كا ادائيگى تك كرايہ دار رہنا اور ادائيگى كے بعد مالك بننا يہ بھى حرام ہے، ايسا كرايہ جو ملكيت پر ختم ہو كى حرمت كا بيان سوال نمبر ( 14304 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے، لہذا اس كا مطالعہ ضرور كريں.
مختصر يہ كہ يہ معاملہ اور لين دين حرام ہے، اور يہ اوپر نيچے كئى ايك اندھيرے ہيں، اور كسى بھى مسلمان شخص كے ليے سود كے معاملہ ميں شديد قسم كى وعيد اور سزا ثابت ہو جانے كے بعد سودى لين دين كرنے ميں سستى اور كاہلى كا مظاہرہ كرنا جائز نہيں، كيونكہ اس كى قطعى حرمت ثابت ہے، بلكہ مسلمان پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ حلال تلاش كرے، كيونكہ ہر وہ جسم جو حرام پر پلا اور اس سے پرورش پائى ہو اس كےليے آگ زيادہ بہتر اور اولى ہے، اور پھر جس نے بھى اللہ تعالى كے ليے كوئى چيز ترك كى اللہ تعالى اسے اس كا نعم البدل اور اس سے بہتر عطا فرماتا ہے.
مستقل فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
رہائش كے ليے سادہ سا مكان بنانے كےليے بنك سے سودى قرض حاصل كرنے ميں اسلامى حكم كيا ہے؟
كميٹى كا جواب تھا:
بنك وغيرہ سے سود پر قرض حاصل كرنا حرام ہے، چاہے وہ قرض گھر وغيرہ كى تعمير كے ليے ہو يا پھر كھانے پينے اور اخراجات اور لباس يا علاج معالجہ كے ليے ہو، يا پھر تجارت اور كمائى كے ليےيا كسى اور مقصد كے ليے حاصل كيا جائےسب برابر ہے.
اس كى دليل سود سے منع كرنے والى آيات كا عموم ہے، اور جن احاديث ميں اس كى حرمت بيان ہوئى ہے اس كا عموم بھى اسى پر دلالت كرتا ہے.
اور اسى طرح بنك وغيرہ ميں سود پر مال ركھنا بھى جائز نہيں.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتوں كا نزول فرمائے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميہ والافتاء ( 13 / 385 ).
واللہ اعلم .