اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كرائے والي چيز كا كرايہ ختم ہونےپر ملكيت كےحقوق حاصل ہونے كا حكم

14304

تاریخ اشاعت : 11-03-2005

مشاہدات : 7990

سوال

اس وقت بہت سے بنك اور كمپنياں ہيں جو گاڑي كرائے پر ديتےہيں مثلا ايك سال كرائے پر جس كا ماہانہ كرايہ معلوم ہوتا ہے اور كرائے كي مدت ختم ہونےپر يہ گاڑي كرائے پر لينے والي كي ملكيت ہوجائےگي، اور اگر كرائے كي مدت پوري نہ كرے تو وہ گاڑي كمپني يا بنك كي ملكيت ميں واپس چلي جائےگي اور كرائےپر حاصل كرنےوالے كو قسطيں واپس لينے كا كوئي حق نہيں اس فعل كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ معاملہ كرايہ ختم ہونےپر ملكيت كےنام سے جانا جاتاہے، اور اس ميں معاصر علماء كرام كا اختلاف ہے، اور اس كےحكم ميں سعودي عرب كےكبار علماء كرام كميٹي كا بيان جاري ہوا ہےجسے ہم ذيل ميں درج كرتےہيں:

" كرايہ ختم ہونےپر ملكيت بننےوالي چيز كے موضوع ميں كبار علماء كرام كميٹي نے غور خوض كيا اور بحث وتمحيث كےبعد مجلس كےاكثر اركان نے اس معاملہ كو شرعا ناجائز قرار ديا اس كےاسباب مندرجہ ذيل ہيں:

اول: اس ميں ايك ہي چيز پر دو عقد اور معاہدے جمع ہيں اور ان ميں سے كسي ايك پر نہيں ٹھرتا اور يہ دونوں عقد حكم ميں بھي ايك دوسرے سے مختلف اور منافي ہيں.

بيع فروخت كردہ چيز كوبعينہ اس كےمنافع سميت گاہك كي طرف منتقل كرنا واجب كرتي ہے، تواس وقت فروخت كردہ چيز پر كرائے كا معاھدہ كرنا صحيح نہيں اس ليے كہ يہ گاہك كي ملكيت ہے، اور اجارہ يعني كرائے پر دينا كسي چيز كا نفع كرائے پر لينے والے كي طرف منتقل كرنا واجب كرتا ہے.

اور فروخت كردہ چيز كا خريدار بعينہ اور اس كےمنافع كا ضامن ہے لھذا اس كا بعينہ تلف ہوجانا يا نفع ختم ہونا خريدار كونقصان ہے ان دونوں ميں سے بائع يعني فروخت كنندہ كي طرف كچھ بھي واپس نہيں جاتا، اور كرائے پر حاصل كردہ چيز بعينہ مالك يعني كرائے پر دينے والا اس كا ضامن ہے لھذا اس كا بعينہ تلف ہوجانا يا اس كا نفع ختم ہونا كرائے پر دينےوالے كےذمہ ميں يعني نقصان مالك كا ہوگا الا يہ كہ كرائےپر حاصل كرنےوالے كي جانب سے كوئي زيادتي اور كوتاہي سرزد ہوئي ہو.

دوم: كرايہ معاہدہ ميں بيان كي گئي قيمت كےحساب سے سالانہ يا ماہانہ اقساط ميں مقرر كيا جاتا ہےكہ وہ قيمت اس ميں پوري ہو جسے بائع اس وجہ سے اجرت شمار كرتا ہے كہ وہ اپنےحق كومحفوظ كرسكے اس طرح خريدار كے ليے وہ چيز بيچني ممكن نہيں رہتي.

اس كي مثال يہ ہےكہ: اگر وہ چيزپچاس ہزار ريال كي ہے اور رواج كے مطابق اس كي اجرت ماہانہ ہے تواس كي اجرت دوہزار مقرر كي گئي جو كہ حقيقتا قيمت ميں ايك قسط ہے حتي كہ مقرر كردہ قيمت پوري ہوجائے، مثلا اگر وہ آخري قسط دينے سے عاجز ہو تو بعينہ وہ چيز واپس لے لي جائےگي اس ليے كہ وہ اجرت پر لي گئي شمار ہوتي ہے اور اس كي اجرت ميں جورقم حاصل كي گئي ہے واپس نہيں كي جائيگي اس ليے كہ اس نے اس كا نفع حاصل كيا ہے.

اس ميں جو ظلم وستم ہےوہ كوئي مخفي نہيں كہ آخري قسط پوري كرنے كے ليے وہ قرض لينے پر مجبور ہوجاتےہيں .

سوم: يہ اور اس طرح كےدوسرے معاہدوں نے قرضوں كےمتعلق فقراء كو تساہل كي طرف دھكيل ديا ہے حتي كہ بہت سے حقوق مشغول اور ضائع ہو چكے ہيں، اور بعض اوقات تو قرض دينے والے فقراء كےذمہ اپنے حقوق ضائع ہو جانے كےباعث افلاس تك پہنچ جاتےہيں.

مجلس كي رائےيہ ہے كہ دونوں فريق صحيح طريقہ اختيار كريں وہ يہ ہے كہ: وہ چيز فروخت كرديں اور اس كي قيمت پر اسے رہن ركھ ليں اور اس كے ليے اپنےپاس وہ معاہدہ كي كاپي يا گاڑي كےكاغذات وغيرہ ركھ ليں .

اللہ تعالي ہي توفيق بخشنےوالا ہے، اور ہمارے نبي محمد صلي اللہ عليہ وسلم اور ان كي آل اور صحابہ كرام پر اپني رحمتيں نازل فرمائے.

اس بيان پر كبار علماء كميٹي كےمندرجہ ذيل علماء كرام كےدستخط ہيں :

الشيخ عبدالعزيز بن عبداللہ آل الشيخ

الشيخ صالح اللحيدان

ڈاكٹر صالح الفوزان

الشيخ محمد بن صالح العثيمين

الشيخ بكر بن عبداللہ ابو زيد

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب