"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كيا رمضان المبارك ميں بيوى سے نكاح كرنا جائز ہے ؟
الحمد للہ.
ظاہر يہى ہوتا ہے كہ سائل كا نكاح سے مراد جماع ہے.
اور رمضان المبارك ميں بيوى سے جماع كى دو حالتيں ہيں: يا تو رات كے وقت ہو، يا پھر دن كے وقت.
رات كے وقت جماع كرنا مباح اور جائز ہے ( اور رات غروب شمس سے ليكر طلوع فجر تك ہوتى ہے ).
اسلام كے ابتدائى ايام ميں رمضان المبارك كى راتوں كو جماع سونے سے پہلے پہلے مباح اور جائز تھا، اور جب سو جائے تو اس پر جماع كرنا حرام تھا چاہے وہ طلوع فجر سے قبل بيدا ہو جائے، پھر اللہ تعالى نے اس حكم ميں تخفيف كر كے مطلقا رمضان كى راتوں ميں جماع مباح كر ديا، اس كى دليل فرمان بارى تعالى ہے:
روزے كى راتوں ميں اپنى بيويوں سے ہم بسترى كرنا تمہالے ليے حلال كيا گيا ہے، وہ تمہارا لباس ہيں اور تم ان كے لباس ہو، اللہ تعالى كو تمہارى پوشيدہ خيانتوں كا علم ہے، اللہ تعالى نے تمہارى توبہ قبول كر كے تم سے در گزر فرما ليا، اب تمہيں ان سے مباشرت كرنے، اور اللہ تعالى كى لكھى ہوئى چيز تلاش كرنے كى اجازت ہے، تم كھاتے پيتے رہو حتى كہ صبح كا سفيد دھاگہ رات كے سياہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے پھر رات تك روزہ پورا كرو البقرۃ ( 187 ).
سعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" روزے فرض ہونے كے ابتدائى ايام ميں مسلمانوں پر رات سونے كے بعد كھانا پينا اور جماع كرنا حرام تھا، تو بعض لوگوں مشقت پيدا ہوگئى تو اللہ تعالى نے ان سے تخفيف كر دى، اور ان كے ليے سارى رات كھانا پينا اور جماع كرنا مباح كر ديا، چاہے وہ سويا ہو يا نہ سويا ہو، كيونكہ جو كچھ انہيں حكم ديا گيا تھا اس ميں بعض كو چھوڑ كر خيانت كے مرتكب ہوتے تھے.
( فتاب ) تو اللہ تعالى نے ( عليكم ) تمہارى توبہ قبول كى، اور تمہارے ليے معاملہ ميں وسعت پيدا كردى ـ اور اگر وسعت پيدا نہ كرتا ـ تو تمہارے ليے گناہ كا موجب بنتى، ( و عفا عنكم ) اور جو كچھ ہو چكا وہ تم سے معاف كر ديا ( فالآن ) تو اب اس رخصت اور اللہ تعالى كى طرف سے وسعت كے بعد ( باشروھن ) ان كو چھو كر اور بوسہ وغيرہ لے كر مباشرت كرو.
( وابتغوا ما كتب اللہ لكم ) يعنى اپنى بيويوں سے مباشرت كے وقت اللہ تعالى كے تقرب كى نيت ركھو، اور وطئى اور جماع كا سب سے بڑا اور عظيم مقصد اولاد كا حصول اور اپنى اور بيوى كى عفت كا حصول ہے، اور نكاح كا مقصد يہى ہے. اھـ
ديكھيں: تفسير السعدى ( 87 ).
اور الجصاص رحمہ اللہ نے " احكام القرآن " ميں كہا ہے:
لہذا جماع اور كھانا پينا رمضان كى راتوں ميں رات شروع ہونے سے ليكر طلوع فجر تك مباح كر ديا" اھـ
ديكھيں: احكام القرآن ( 1 / 265).
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے براء رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہى كہ:
" جب رمضان المبارك كے روزے فرض ہوئے تو لوگ سارا رمضان بيويوں كے قريب نہيں جاتے تھے،اور اور كچھ مرد آپنے ساتھ خيانت كے مرتكب ہوتے، تو اللہ تعالى نے يہ آيت نازل فرما دى:
اللہ تعالى كو تمہارى پوشيدہ خيانتوں كا علم ہے، اللہ تعالى نے تمہارى توبہ قبول كر كے تم سے در گزر فرما ليا.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4508 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
قولہ: ( جب رمضان كے روزے فرض ہوئے تو لوگ بيويوں كے قريب نہيں جاتے تھے ).
حديث كا ظاہرى سياق يہ ہے كہ سارے دن اور رات ميں جماع ممنوع تھا ليكن سونے سے قبل كھانے پينے كى اجازت تھى، ليكن اس معنى ميں وارد ہونے والى دوسرى احاديث اس كے عدم فرق پر دلالت كرتى ہيں، تو ان كا قول: " وہ بيويوں كے قريب نہيں جاتے تھے " كو سب اخبار اور روايات ميں جمع كرنے پر محمول كيا جائے گا. اھـ اختصار كے ساتھ.
اور ( تختانون انفسكم ) كا معنى يہ ہے كہ: تم اس وقت ميں بيوى سے جماع كرتے اور كھاتے پيتے ہو جس ميں تم پر حرام كيا گيا ہے، اسے امام طبرى رحمہ اللہ نے مجاھد رحمہ اللہ سے ذكر كيا ہے: ( تختانون انفسكم ) وہ كہتے ہيں: تم اپنے نفسوں پر ظلم كرتے تھے. اھـ
ماخوذ از: عون المعبود.
اور جس پر روزہ فرض ہے اس كے ليے رمضان ميں دن كے وقت جماع كى حرمت پر علماء كرام كا اجماع ہے كہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے.
ابن قدامہ " المغنى " ميں لكھتے ہيں:
" ہمارے علم كے مطابق تو اہل علم كا اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ جو شخص فرج ميں جماع كرے اور اس كا انزال ہو يا نہ ہو يا فرج كے بغير جماع كرے اور انزال ہو جائے تو اگر اس نے جان بوجھ كر اور عمدا كيا ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اس پر صحيح احاديث دلالت كرتى ہيں" اھـ
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 4 / 372 ).
بلكہ جماع تو روزہ توڑنے والى اشياء ميں سب سے بڑى ہے اور اس ميں كفارہ واجب ہوتا ہے.
بخارى اور مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ كے پاس آكر كہنے لگا: ميں تو ہلاك ہو گيا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دريافت فرمايا: كس چيز نے تجھے ہلاك كر ديا؟
تو اس نے جواب ديا: ميں نے رمضان ميں روزے كى حالت ميں بيوى سے جماع كر ليا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے دريافت كيا كہ كيا اس كے پاس آزاد كرنے كے ليے غلام ہے؟
تو اس نے جواب نفى ميں ديا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيا دو ماہ كے مسلسل روزے ركھ سكتے ہو؟ تو اس نے جواب نفى ميں ديا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيا ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلا سكتے ہو؟ تو اس نے جواب نفى ميں ديا، پھر وہ شخص بيٹھ گيا، كچھ دير بعد رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايك انصارى شخص كھجوروں كا ٹوكرا لايا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: يہ لے جاؤ اور صدقہ كردو، تو وہ شخص كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا اپنے سے بھى زيادہ فقير شخص پر، اللہ كى قسم جس نے آپ كو حق دے كر مبعوث فرمايا ہے ان دو ميدانوں كے درميان ہمارے گھر والوں سے زيادہ فقير اور ضرورتمند كوئى نہيں ہے ، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسكرانے لگے اور فرمايا: جاؤ جا كر اپنے اہل و عيال كو كھلا دو"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2600 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1111 )
اور رمضان المبارك ميں دن كے وقت روزے كى حالت ميں جماع كرنے سے كيا مرتب ہوتا ہے اس كو جاننے كے ليے آپ سوال نمبر ( 49614 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .