"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
نہ تو مرد كے ليے اور نہ ہى عورت كيے ليے مخلوط جگہوں پر كام كرنا جائز ہے، اختلاط كے نتيجہ ميں بہت سارى خرابياں پيدا ہوتى ہيں، اور يہ شيطان كے ليے مسلمان شخص كو فحاشى و عريانى ميں ڈالنے كى سب سے بڑى راہ ہے، اسى ليے شريعت مطہرہ نے مسلمان كے ليے وہ سب راستے بند كر ديے ہيں جو حرام كے مرتكب ہونے كا باعث بنتے ہيں.
اختلاط كى حرمت اور اس كے دلائل ہم سوال نمبر ( 1200 ) كے جواب ميں بيان كر چكے ہيں، اور وہاں ہم نے ملازمت كرنے والى عورتوں كے مشاہدات و واقعات بھى بيان كيے ہيں كہ كس طرح ان كے ساتھ زبردستى ہوتى ہے، اور انہيں كس طرح تنگ كيا جاتا ہے، جو اس بات كو يقينى بناتا اور اس كى تاكيد كرتا ہے كہ شريعت مطہرہ نے جو اختلاط كو حرام كيا ہے جو كہ عورت كى عفت و عصمت اور حياء كا محافظ و ضامن ہے، اور يہى چيز مرد كى حفاظت كرتى ہے كہ وہ اپنى نگاہوں كو كسى غير محرم عورت پر نہ ڈالے، اور اس كى جان كى بھى حفاظت كرتا ہے كہ وہ كہيں ذليل ترين اور ہلاكت والے كاموں ميں نہ گر پڑے.
اور عورت كے ليے اپنے جيسى عورتوں ميں كام كاج اور ملازمت كرنے ميں كوئى مانع نہيں، يا پھر وہ اكيلى ہو اور گاہكوں كے پاس جائے يا ان سے ٹيلى فون پر رابطہ كر كے كمپنى كى تيار كردہ اشياء ان پر پيش كرے ليكن اس ميں بھى شرط يہ ہے كہ وہ فون پر بات چيت كرتے وقت كلام ميں نرمى اور اسلامى آداب كا خيال ركھے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اے نبى كى بيويو تم عام عورتوں كى طرح نہيں ہو، اگر تم پرہيز گارى اختيار كرو تو نرم بات نہ كرو، كيونكہ جس كے دل ميں روگ ہے وہ طمع كرنے لگےگا، اور تم قاعدے كے مطابق اچھى بات كرو الاحزاب ( 32 ).
آپ سوال نمبر ( 27304 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں، كيونكہ اس ميں ملازمت كے وقت عورتوں كا دوسروں كو مخاطب ہونے كا حكم بيان كيا گيا ہے.
اور سوال نمبر ( 20140 ) كے جواب كا مطالعہ كرنا نہ بھوليں كيونكہ اس ميں مردوں كے آفس ميں عورت كا آفس سيكرٹرى كى ملازمت كرنے كا حكم بيا كيا گيا ہے.
واللہ اعلم .