الحمد للہ.
خواتین و حضرات ایک جگہ جمع ہوں، ایک ہی جگہ گھل مل کر رہیں، ایک دوسرے سے ملیں، اور ایک دوسرے کو دیکھیں، یہ سب کام شریعت کے مطابق حرام ہیں، اس لئے کہ یہ فتنے کا باعث ہے، جس سے شہوت بھڑکتی ہے، اور انسان کیلئے زنا، و فحاشی کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔
کتاب و سنت میں اختلاط کے حرام ہونے کے بارے میں بہت سے دلائل موجود ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
سب سے پہلے فرمانِ باری تعالی ہے:
وإذا سألتموهن متاعاً فاسألوهن من وراء حجاب ذلكم أطهر لقلوبكم وقلوبهن
ترجمہ: اور جب تمہیں ازواج نبی سے کوئی چیز مانگنا ہو تو پردہ کے پیچھے رہ کر مانگو۔ یہ بات تمہارے دلوں کے لئے بھی پاکیزہ تر ہے اور ان کے دلوں کے لئے بھی۔ الأحزاب 53
ابن کثیر رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"جیسے اللہ تعالی نے تمہیں عورتوں کے پاس علیحدگی میں جانے سے منع کیا ہے، اسی طرح تم انکی طرف بالکل دیکھوبھی نہ ،اور اگر کسی کو کوئی چیز لینے دینے کی ضرورت ہوتو تب بھی انکی طرف نہ دیکھے، بلکہ پردے کی اوٹ میں رہتے ہوئے ان سے اپنی ضرروت کی چیز مانگے"
جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خواتین و حضرات کے اختلاط کا اللہ کے ہاں محبوب ترین مقام یعنی مساجد میں بھی خیال رکھا ، اور مرد وزن کی صفیں جدا جدا کیں، پھر سلام پھیرنے کے بعد خواتین کے چلے جانے تک مردوں کو ٹھہرنےکا حکم دیا ، اورخواتین کے مسجد میں داخلے کا دروازہ ہی علیحدہ مختص کردیا، ان سب باتوں کے دلائل درج ذیل ہیں:ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے ، تو آپ کے سلام پھیرنے کے بعد عورتیں چلی جاتیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھنے سے پہلے تھوڑی دیر ٹھہرتے تھے، ابن شہاب کہتے ہیں: میں یہ سمجھتا ہوں -واللہ اعلم- کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے ٹھہرتے تھے کہ لوگوں کے جانے سے پہلے عورتیں چلی جائیں۔ بخاری (793)
اور اسی روایت کو ابو داود نے کتاب الصلاۃ میں 786 نمبر حدیث کے تحت ذکر کیا اور اسکے لئے عنوان قائم کیا: "باب ہے، نمازکے بعد خواتین کے مردوں سے پہلے جانے کے بیان میں"
اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر یہ دروازہ ہم خواتین کیلئے مختص کردیں؟) نافع کہتے ہیں اس کے بعد فوت ہونے تک ابن عمر اس دروازے سے داخل نہیں ہوئے۔
ابو داود حدیث نمبر: (484) کتاب الصلاۃ، باب-خواتین کیلئے دروازہ مختص کرنےکے-بارے میں سختی کے متعلق۔
ایک حدیث میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مردوں کی بہترین صف پہلی صف ہے، اور بُری صف آخری صف ہے، اور خواتین کی بہترین صف آخری ہے، اور بری صف پہلی صف ہے) مسلم حدیث نمبر: 664
مذکورہ بالا حدیث شریعت کی اختلاط کی ممانعت کیلئے بہت بڑی دلیل ہے، کہ جتنا مرد خواتین کی صفوں سے دور ہوگا اتنا ہی افضل ہوگا، اور جتنی ہی عورت مردوں کی صفوں سے دور ہوگی اتنی ہی افضل ہوگی۔
اگر یہ سب اقدامات مسجد میں اٹھائے جا رہے ہیں جو کہ عبادت کیلئے پاک صاف جگہ ہے، اور اس جگہ پر مرد وخواتین شہوت سے کوسوں دور ہوتے ہیں، تو اسکے علاوہ جگہوں میں یہ اقدامات اٹھانا اس سے بھی ضروری ہوگا۔
چنانچہ ابو اسید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ مسجد سے نکل رہے تھے کہ مرد وخواتین کا راستے میں اختلاط ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو فرمایا: (پیچھے رہو، تمہارے لئے راستے کے درمیان میں چلنا جائز نہیں ہے، تم راستے کے کنارے پر چلو) چنانچہ اس کے بعد خواتین دیوار کے ساتھ لگ کر چلنے لگیں، حتی کہ دیوار کیساتھ چلنے کی وجہ سے انکے کپڑےاٹکنے لگے۔
ابو داود، کتاب الادب، باب ہے: خواتین کے مردوں کے ساتھ راستے میں چلنے کے بارے میں۔
اور ہم جانتے ہیں کہ اس وقت بازاروں، ہسپتالوں، جامعات وغیرہ اکثر جگہوں پر مرد و خواتین کا اختلاط عام ہے، لیکن ہم اس بارے میں کہیں گے کہ:
1- اسے ہم نے اپنی مرضی سے اختیار نہیں کیا، اور نہ اس پر راضی ہیں، اور خاص طور پر دینی دروس، اور اسلامی اداروں کی مجلسِ ادارہ میں اسے پسند بھی نہیں کرتےہیں۔
2- مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے اختلاط سے بچنے کیلئے وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں، جیسے کہ مردوں اور خواتین کیلئے علیحدہ جگہ ، دونوں کیلئے الگ دروازے، آواز پہچانے کیلئے جدید آلات، اور تعلیمِ نسواں کیلئے خواتین معلمات کا بندوبست، وغیرہ۔
3- اپنی وسعت اور طاقت کے مطابق اللہ سے ڈرتے ہیں، اور نظریں جھکا کر، اپنے نفس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔
درج ذیل میں ایک تحقیق جو کچھ مسلم سماجی کارکنوں نے اختلاط کے بارے کی تھی اسکا کچھ حصہ آپ کیلئے پیش کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں:
جب ہم نے یہ سوال رکھا: "آپ کے علم کیمطابق شریعت میں اختلاط کا کیا حکم ہے؟"
تو اسکا نتیجہ مندرجہ ذیل تھا:
جواب دینے والے 76 فیصد لوگوں نے کہا: "جائز نہیں ہے"
اور 12 فیصد لوگوں نے کہا: "جائز ہے" لیکن اخلاقی و دینی ۔۔۔ضوابط کو مد نظر رکھنا ہوگا۔
اور باقی 12 فیصد لوگوں نے "لاعلمی" کا اظہار کیا۔
آپ کیا اختیار کریں گے؟!
اگر آپکو اختلاط اور غیر اختلاط والی جگہ پر کام مل رہا ہے، تو آپ کس کو اختیار کریں گے؟!
اس سوال کا جواب فیصد کے اعتبار سے کچھ اس طرح تھا:
67 فیصد نے غیر اختلاط کو پسند کیا۔
9 فیصد لوگوں نے اختلاط والی جگہ پسند کی۔
15 فیصد لوگوں نے کسی بھی جگہ کام کرنے کو ترجیح دی، انکے متعلقہ ادارے میں کام ہو؛ چاہے اختلاط ہو یا نہ ہوا س سے کوئی سروکار نہیں۔
شرمناک واقعات:
اختلاط کی وجہ سے آپکو کبھی شرمندہ ہونا پڑا ہو؟
تحقیق میں حصہ لینے والوں کی طرف سے مندرجہ ذیل شرمناک واقعات بیان کئے گئے:
- میں ملازمت کے دنوں میں اپنے دیپارٹمنٹ میں داخل ہوا تو میری ایک پردہ نشیں ساتھی نے اپنی سہیلیوں کےدرمیان حجاب کھولا ہوا تھا، اور اچانک میرے داخل ہونے کی وجہ سے مجھے کافی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
- میرے لیے یونیورسٹی کی لیبارٹری میں تجربہ کرنا ضروری تھا، لیکن میں اپنی باری کے دن غیر حاضر تھا، جسکی وجہ سے مجھے اگلے دن جانا پڑا، اور اس دن لیبارٹری کے اندر میں اکیلا ہی مرد تھا ، اور باقی سب طالبات، استانی ، اور لیبارٹری انچارج سب خواتین تھیں، مجھے اس سے بہت کوفت ہوئی، جسکی وجہ سے مجھے اپنی حرکات و سکنات کو محدود کرنا پڑا، مجھے مسلسل اجنبی، نسوانی ، اورگھورتی ہوئی آنکھوں کا سامنا تھا ۔
- میں الماری میں سے خواتین کا مخصوص پیڈ نکال رہی تھی، کہ پیچھے میرا ایک ساتھی اپنی الماری سے کچھ ضروری اشیاء نکالنے کیلئے کھڑا تھا، جب اس نے مجھے منہمک حالت میں دیکھا تو مجھے شرمندگی سے بچانے کیلئے جلدی سے کمرے سے باہر چلا گیا۔
- میرے ساتھ ایک دفعہ یونیورسٹی کی ایک طالبہ کا مجمع بھرے برآمدے کے موڑ پر ٹکراؤ ہوگیا، یہ طالبہ لیکچر میں شرکت کیلئے تیزی سے چلتی جارہی تھی، اور ٹکراؤ کی بنا پر وہ اپنا توازن کھو بیٹھی، اور میرے بازو کے ساتھ اس طرح لپٹ گئی جیسے کہ میں نے اسے اپنی باہوں میں لے رکھا ہو، اب آپ ہی خیال کریں کہ مجھے اور اس طالبہ کو کتنا شرمندہ ہونا پڑا ہوگا جہاں اوباش قسم کے لڑکوں کا مجمع لگا ہوا ہو۔
- یونیورسٹی میں میری ایک ساتھی اسٹیج کی سیڑھیوں پر گر گئی اور اسکے کپڑے بڑے ہی شرمناک انداز سے کھل گئے، وہ سیڑھیوں پر الٹی گرنے کی وجہ سے اپنے آپ کو سنبھال بھی نہ پائی، پھر اسے قریب ہی کھڑے کسی لڑکے نے اسکی ستر پوشی کی اور اٹھنے میں مدد کی۔
- میں ایک کمپنی میں کام کرتی ہوں، ایک بار اپنے انچارج کے پاس کچھ کاغذات دینے کیلئے گئی، اور پھر بعد میں اس نے مجھے کمرے سے نکلتے ہوئے دوبارہ آواز لگائی، میں اسکی طرف متوجہ ہوئی تو وہ سر نیچے کئے ہوئے تھا، میں نے کچھ انتظار کیا کہ کوئی اور فائل یا کچھ اور دستاویزات لانے کا مطالبہ کریگا، مجھے اسکا تردد عجیب سا لگا، اس نے اپنے آپ کو مصروف ظاہر کرنے کیلئے اپنے میز کی بائیں طرف منہ موڑ لیا، اور اسی دوران اس نے مجھ سے بات کی، مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ مجھے متنبہ کرنے کیلئے یہ بات کریگا کہ میرے کپڑے حیض کے خون سے بھرے ہوئے ہیں،مجھے اتنی کوفت ہوئی اور میرے دل سے دعا نکلی کہ کاش اس وقت سے پہلے مجھے زمین نگل لیتی۔
اختلاط کے ڈسے ہوئے۔۔۔ سچے واقعات
امید کی کرنیں ختم ہوچکی ہیں؟
ام محمد ایک سمجھدار خاتون ہیں جنکی عمر چالیس سال سے زیادہ ہوچکی ہے، وہ آپ بیتی بیان کرتی ہیں:
میں نے اپنے خاوند کے ساتھ سفید پوشی کی زندگی گزاری، ہمارےدرمیان قابلِ قدر کوئی ہم آہنگی نہیں تھی، اور نہ ہی میرا خاوند کسی طاقتور شخصیت کا مالک تھا جو مجھے بطورِ بیوی خوش رکھ سکے، لیکن اسکی عادتوں نے مجھے چشم پوشی کرنے والا بنا ڈالا، کہ میں ہی اپنے خاندان کے بارے میں اکثر فیصلے اور ذمہ داریوں کو نبھاتی۔
میرا خاوند اپنے دوست جو کہ کاروبار میں شریک تھا اسکا کافی ذکر کرتا تھا، اور اپنے دوست کے ساتھ اپنے آفس میں کافی دیر تک رہتا ، یہ دفتر کئی سالوں سے ہمارے گھر ہی کے ایک حصہ میں بنا ہوا تھا۔ پھر حالات کچھ ایسے ہوئے کہ یہ شخص اور اسکی اہلیہ ہمارے گھر آئی، اور پھر میرے خاوند کی دوستی کے باعث دونوں گھرانوں میں آنا جانا شروع ہوگیا، اور اس حد تک بڑھ گیا کہ کتنی بار آتے جاتے، اور کتنے گھنٹے ملاقات جاری رہتی اس کے بارے میں کوئی پتہ نہیں، بلکہ بسا اوقات وہ اکیلا ہی آجاتا، اور میں اور میرا خاوند گھنٹوں تک بیٹھے رہتے، میرا خاوند اس پر حد سے زیادہ اعتماد کرتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے اسے قریب سے دیکھ لیا تھا، وہ کتنا ہی باکمال، قابلِ احترام تھا، اور میں اسکی طرف بڑی شدت کے ساتھ مائل ہونے لگی، اور ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ وہ بھی اپنی شخصیت میرے سامنے واضح کرنا چاہتا ہے۔
اسکے بعد معاملات کچھ عجیب انداز میں تبدیل ہونے لگے، مجھے ایسے لگنے لگا کہ یہی وہ شخص ہے جسکو میں چاہتی ہوں، اور اپنی زندگی میں اسی کے بارے میں سہانے خواب دیکھے تھے۔۔۔ یہ سوچ اب میرے ذہن میں کیوں آرہی ہے، اتنے سال گزرنے کے بعد۔۔؟ وہ شخص ہر بار میری نگاہوں میں بلند ہوتا جا رہا تھا، اور دوسری طرف میرا خاوند نگاہوں سے گرتا جا رہا تھا، ایسے لگتا تھا کہ مجھے اس شخص کی خوبیوں کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے، تا کہ میں اپنے خاوند کے عیب تلاش کرسکوں۔
کچھ دیر کیلئے معاملہ میرے اور اس محترم شخص کے درمیان دن رات مشغول رکھنے والے خیالوں تک ہی رہا، پھر نہ میں صبر کرسکی اور نہ وہ آخر کار ہم نے اپنے دلوں میں موجود۔۔۔۔۔ کا اظہار کر ہی دیا۔۔ اور اُسی دن سے ۔۔ میری زندگی ختم ہونے کے باوجود ، میرے نزدیک میرا خاوند وہی کمزور اور حقیر انسان بن گیا، جس میں کوئی مثبت خوبی نہیں، میں اس سے نفرت کرنے لگی، مجھے نہیں معلوم کہ اپنے خاوند کے بارے میں اتنا بغض کہا ں سے آگیا۔
میں آپنے آپ سے پوچھتی: کہ کس طرح میں نے اتنے سالوں تک اکیلے اس بوجھ کو اپنی پیٹھ پر اُٹھائے رکھا؟! تو مجھے جواب ملتا: "زندگی کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے" معاملات اس حد تک بگڑ گئے کہ میں نے طلاق کا مطالبہ کردیا، اور پھر واقعی اس نے مجھے میری خواہش پر طلاق بھی دے ڈالی، اور اسکے بعد وہ انتہائی گرا ہوا شخص بن گیا۔
اس سے کڑوی بات یہ ہے کہ طلاق کے بعد مجھ سے گھرانہ ، بچے، اور خاوند سب چھین جانے کے بعد اُس آدمی کے بھی گھریلو معاملات بگڑ گئے، اس لئے کہ نسوانی فطرت کے باعث اسکی بیوی بھی دال میں کالا بھانپ چکی تھی، جس نے اسکی زندگی کو جہنم بنا دیا تھا، اسے غیرت نے اس حد تک سنگ دل بنا دیا کہ ایک بار آدھی رات کے بعد دو بجے میرے گھر پر آ دھمکی، چیخ و پکار اور آہ وبکا کے ساتھ مجھ پر مختلف الزامات ۔۔کی بارش کردی، کیونکہ اسکا گھرانہ بھی برباد ہونے کے راستے میں تھا۔۔
میں اعتراف کرتی ہوں کہ یہ کار گزاری اُنہی مجلسوں کی ہےجس میں ہم سب اکٹھے بیٹھتے تھے اُنہی کی وجہ سے ہمارے درمیان غیر مناسب وقت اور غیر مناسب عمر میں تعارف ہوا۔
میرا گھرانہ برباد ہوگیا، اور بچا اُسکا بھی نہیں، میں نے ہر چیز کو کھو دیا، اور اب میں جانتی ہوں کہ ہم اس طرح پھنس چکے ہیں کہ میرے اور اُس کے حالات کسی بھی مثبت قدم اُٹھانے کی اجازت نہیں دیتے، میں اسوقت اتنی منحوس ہوچکی ہوں کہ کبھی ماضی میں ایسا وقت مجھ پر کبھی نہیں گزرا، اور اب میں خیالی خوشیوں ، اور گمشدہ امید کی تلاش میں ہوں۔
ایک کے بدلے ایک
ام احمد ہمیں بتلاتی ہوئی کہتی ہے:
میرے خاوند کے کچھ شادی شدہ دوست تھے، ہم بڑے ہی مضبوط تعلقات کی بنا پر ہفتے میں ایک بار کسی کے گھر میں رات کو گپ شپ کیلئے جمع ہونے کے عادی بن چکے تھے۔
میں اپنے آپ میں اس فضا سے غیر مطمئن تھی، کہ یہاں پر رات کا کھانا، مٹھائیاں، میوہ جات، جوس، لطیفوں اور مذاق کی وجہ سے لگائے جانے والے اونچے اور بلند قہقہے، اکثر اوقات ادب کی حدود سے بھی تجاوز کر جاتے تھے۔
دوستی کے نام پر تکلف نامی کوئی چیز باقی نہیں رہی تھی، تا کہ وقتاً فوقتاً دبے ہوئے انداز میں لگائے جانے والے قہقہے سنے جاسکیں، کسی کی بیوی اور کسی کے خاوند کے درمیان خفیہ باتیں ہوں، بہت ہی کھلا مذاق بغیر کسی شرم ساری کےہوتا تھا، اور اس میں بڑے ہی جنسی، اور خواتین کے مخصوص اعضاء جیسے حساس موضوعات کو محورِ گفتگو بنایا جاتا، بلکہ یہ ایک عام سی چیز تھی ، اور سب لوگوں کیلئے قابلِ توجہ بھی۔
ان سب معاملات میں اگرچہ میں بھی ان کے ساتھ تھی لیکن میرا ضمیرمجھے جھنجھوڑتا رہتا تھا، یہاں تک کہ وہ دن بھی آگیا جس نے اس گندی فضا کے بھیانک نتائج بھی سامنے رکھ دئے۔
ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، تو فون پر انہی دوستوں میں سے ایک کی آواز تھی، میں نے اسے خوش آمدید کہا، اور ساتھ ہی میں نے مزید بات کرنے سے معذرت کر لی کہ میرا خاوند گھر نہیں ہے، لیکن اس نے مجھے جواب دیا کہ اُسے اِس بات کا علم ہے، اور اُس نے میرےلئے (!)ہی کال کی ہے، مجھے اُسکی اِس بات پر شدید غصہ آیاکہ وہ میرے ساتھ غلط کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، میں نے اسے خوب سخت منہ کی سنائی ، لیکن اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا: میرے ساتھ اتنے غیرت مند لہجے میں بات مت کرو، یہ انداز صرف اپنے خاوند کے ساتھ اپنایا کرو، اب ذرا دھیان رکھنا وہ کیا گُل کھلاتا ہے۔۔۔ اُسکی اِس بات نے مجھے اندر سے توڑ کر رکھ دیا، لیکن میں نے اپنے آپکو سنبھالا دیا، اور اپنے آپ کو سمجھایا کہ یہ شخص صرف میرے گھر کو برباد کرنا چاہتا ہے، لیکن اسکے باوجود وہ میرے ذہن میں خاوند کے متعلق شکوک پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
پھر کچھ ہی عرصے کے بعد بہت بڑی قیامت کھڑی ہوگئی، مجھے پتہ چلا کہ میرا خاوند کسی اور خاتون کے ساتھ غلط تعلق قائم کئے ہوئے ہے، اس وقت یہ معاملہ میرے لئے زندگی اور موت کا معاملہ تھا۔۔۔ میں نے اپنے خاوند کے سامنے یہ کہتے ہوئے انکشاف کیا: تم اکیلئے ہی غلط تعلقات قائم نہیں کرسکتے مجھے بھی اِسی طرح کی فرمائش کی گئی تھی، اور میں نے اسکے دوست کا سارا قصہ سنا دیا، سُن کے اُسے بہت زیادہ صدمہ لگا۔ میں نے اُسے کہا: اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے اس عورت کے ساتھ غلط تعلق کو قبول کر لوں تو مذکورہ فرمائش اس کے بدلے میں تم بھی قبول کرو۔ میں نے اسےزناٹے دار تھپڑ رسید کردیا، اور اس وقت میں خود تھر تھرا گئی تھی، اُسے پتہ تھا کہ میں اسکا حقیقی مطلب مراد نہیں لے رہی، لیکن اسے ہماری زندگی میں آنے والی مصیبت کا اندازہ ضرور ہوگیا تھا، جسکا سبب وہی گندی فضا تھی جس میں ہم رہ رہے تھے۔
میں نے اپنے خاوند کو خوب کوسا، یہاں تک کہ اس نے اُس بازاری عورت کو چھوڑ دیا ، اور بعد میں اپنی غلطی کا میرے سامنے اعتراف بھی کیا۔
واقعی اس نے بازاری عورت کو چھوڑ دیا تھا، وہ اپنے بچوں اور گھرانے میں لوٹ آیا لیکن میرے خاوند کیلئے دوبارہ میرے دل میں پہلے والا مقام و مرتبہ کون دے گا؟؟ کون اسکا احترام ،ہیبت، اور میرے سانسوں میں اسکی قدر واپس لوٹائےگا؟؟ ماضی کی گندی محفلوں سے لگنے والا ایک بہت بڑا زخم میرے دل میں باقی رہ گیا جس کی وجہ سے میں ندامت ، پشیمانی اور اندرونی جلن کا شکار رہتی، جو کہ اس بات کا گواہ بھی ہے کہ جنہیں لوگ "خوشنما رتجگا" کہتے ہیں حالانکہ وہ "بد نما رتجگا"ہیں، اور اللہ رب العزت سے رحمت کی طلب باقی رہی۔
ذہانت بھی فتنہ ہے
عبدالفتاح اپنا قصہ بیان کرتا ہےکہ :
میں ایک بہت بڑی کمپنی کے ایک ڈیپارٹمنٹ کابطور ہیڈ کام کرتا ہوں، کافی عرصہ سے میں اپنی ایک ساتھی سے بہت متاثر تھا، اسکی خوبصورتی کی بنا پر نہیں ، بلکہ ذہانت، مہارت اور کام کے ساتھ دل لگی کی وجہ سے، پھر اسکے ساتھ ساتھ وہ بہت ہی قابل احترام شخصیت کی مالک تھی، پاکباز بھی، کام کے علاوہ کہیں نہیں جھانکتی تھی، پھر تاثر ، تعلقات میں تبدیل ہوتا چلا گیا، میں شادی شدہ شخص ہوں ، اللہ سے ڈرتا ہوں ، اور فرائض کی ادائیگی میں بالکل کمی نہیں آنے دیتا۔
میں نے اس کے سامنے اپنے جذبات کھول دئے، لیکن مجھے مثبت جواب نہ ملا، وہ بھی شادی شدہ اور بال بچے دار تھی، وہ کسی بھی سبب کے تحت اور دوستی، ساتھی، پسندگی۔۔۔ کسی بھی نام سے تعلقات قائم کرنے کیلئے تیار نہیں تھی، بسا اوقات شیطانی وساوس اور خیالات آتے ہیں، کہ کاش اسکا خاوند اسے طلاق دے دے، تا کہ میں اُسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں۔
میں نے اس پر کام کے ذریعے بوجھ ڈالنا شروع کردیا، اپنے افسروں کے سامنے اسکے مقام کو بگاڑنا شروع کردیا، ہو سکتا ہے کہ یہ میری انتقامی کاروائی بھی ہو، لیکن پھر بھی وہ اِسے کشادہ دلی سے قبول کرتی، کسی قسم کا غصہ، تبصرہ، یا تیور نہ چڑھاتی، وہ بس کام ، کام اور کام ہی کرتی جاتی، حقیقت تو یہ تھی کہ اسکا کام ہی اسکی مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھا، اور اسے اچھی طرح اس بات کا اندازہ بھی تھا۔
جس قدر وہ مجھ سے دور ہونے کی کوشش کرتی اسی طرح میرے دل میں بھی اسکی محبت بڑھتی جاتی تھی۔
یہ میں ہی تھا جو عورتوں فتنے میں آسانی سے نہ آنے کا دعوی کرتا تھا، دلیل یہ دیتا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، اور ملازمت کے تقاضوں کے مطابق حدود سے تجاوز نہیں کرتا، لیکن اس نے مجھے اپنے چنگل میں پھنسا لیا۔۔۔ اس کا کیا حل ہوگا۔۔۔ مجھے نہیں معلوم۔۔ ۔
(ن ع ع) انیس سالہ ایک لڑکی ہمیں اپنی ہڈ بیتی بیان کرتی ہے:
میں اس وقت چھوٹی سی بچی تھی، رات کے وقت ہمارے گھر میں جمع ہونے والے دوستوں کو دیکھتی تھی، مجھے یاد ہے کہ میں ایک شخص کی تمام حرکات و سکنات اور اسکے چال چلن کو خوب غور سے دیکھتی ، اور وہ شخص میرا باپ تھا، اسکی آنکھیں وہاں موجود خواتین کو تاڑتی رہتی تھیں، اُسکی نظریں کبھی اُنکی رانوں پر تو کبھی انکے سینے پر پڑتی تھیں، وہ کبھی کس کی آنکھوں پر غزلیں جڑ دیتا، تو کبھی کسی کے بالوں پر ، اور کبھی کسی کی کمر پر۔ میری ماں بیچاری ان دعوتوں کیلئے جبراً تیاری میں لگی رہتی، میری ماں بہت ہی سادہ سی خاتون تھی۔
ان مہمان خواتین میں ایک خاتون میرے والد کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں لگی رہتی تھی، کبھی اسکے قریب آکر بیٹھ جاتی، توکبھی مٹک مٹک کر حرکتیں کرتی، میں اُسے بڑے اہتمام کے ساتھ دیکھتی تھی، جبکہ میری والدہ باورچی خانہ میں اپنے مہمانوں کیلئے کھانے کی تیاری میں مشغول رہتی۔
پھر اچانک ہی رات کی یہ مجلسیں ختم ہو گئیں، میں نے اپنی صغر سنی کے باوجود کچھ سمجھنے کی کوشش کی کہ ہوا کیا ہے؟لیکن مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
مجھے اچھی طرح یا د ہے کہ اسوقت میری والدہ مکمل طور پر دل شکستہ ہوچکی تھیں، اور اسکے بعد ہمارے گھر میں میرے والد کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتی تھیں، میں کچھ بڑی عمر کے لوگوں کو اپنے ارد گرد ایک دوسرے کے کانوں میں کھسر پھسر کرتے ہوئے (خیانت ، بیڈ روم، اُس نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا، بازاری خاتون، بڑی شرمناک حالت میں،۔۔۔۔)کہتے ہوئے سنتی تھی جو صرف سمجھدار افراد ہی سمجھ سکتے تھے۔
میں جب بڑی ہوئی تو سب کچھ سمجھ گئی، اور مجھے تمام مردوں سے نفرت ہوگئی، یہ سب خیانت کرتے ہیں، میری ماں اندر سے ٹوٹی ہوئی ہے، جو بھی ہمارے پاس آتا ہےوہ میری والدہ پر تہمت لگاتا ہے کہ یہ مَردوں کو اُچک لیتی ہے، اور عنقریب ہی میرے والد کو بھی کہیں گِرا دے گی، جبکہ میرا باپ وہ،،، ابھی بھی اپنا پسندیدہ مشغلہ اپنائے ہوئے ہے، اور وہ ہے خواتین کے ساتھ خر مستیاں لیکن گھر سے باہر، میری عمر اسوقت انیس سال ہے، میں بہت سے نوجوان چھوکروں کو جانتی ہوں، مجھے اِن سے انتقام لیتے ہوئے بڑا ہی مزا آتا ہے، کہ وہ بالکل میرے باپ جیسا رویہ اپناتے ہوئے نظر آتے ہیں، میں انہیں دھوکہ دے کر پھنساتی ہوں، لیکن انہیں اپنا ایک بال بھی چھونے نہیں دیتی، وہ میری چونچلی حرکتوں کی وجہ سے شاپنگ مال، مارکیٹوں میں میرے پیچھے پیچھے رہتے ہیں، میرا فون کبھی بھی خاموش نہیں ہوتا، اور بسا اوقات مجھے خواتین اور میری ماں کی طرف سے انتقام لیتے ہوئے بہت ہی فخر محسوس ہوتا ہے، اور اکثر اوقات مجھے اتنی مایوسی ہوتی ہے کہ میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔ میری زندگی میں ایک بہت ہی بڑا سیاہ بادل چھایا ہوا ہے جو کہ میرا والد ہے۔
سر سے پانی گزرنے سے پہلے
(ص ن ع) اپنا تجربہ بیان کرتی ہے:
میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ کبھی مجھے اپنی ملازمت کے دوران مردوں سے بھی واسطہ پڑے گا، لیکن ایسا حقیقت میں ہوگیا۔۔ میں ابتدا میں نقاب استعمال کرتے ہوئے مردوں سے پردہ کیا کرتی تھی۔
لیکن مجھے کچھ بہنوں نے مشورہ دیا کہ :یہ لباس میرے جسم کو مزید نمایاں کردیتا ہے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ آپ نقاب نہ کیا کریں ، اور ویسے بھی آپ کی آنکھیں کچھ منفرد بھی ہیں۔
تو میں نے بھی انکی بات مانتے ہوئے کہ بہتر یہ ہے کہ نقاب اتار دوں تو میں نے اپنے چہرے کا پردہ اتار دیا۔۔ لیکن اختلاط کے ساتھ کچھ دن گزرنے کے بعد مجھے اوپرا پن محسوس ہوا جسکی وجہ یہ تھی کہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گپ شپ، ہنسی مذاق میں حصہ نہیں لیتی تھی ، اور سب لوگ یہی کہتے تھے کہ (انکی نظر میں اس وحشی) عورت سے بچ کر رہو۔
یہ بات ایسے شخص نے بیان کی جس نے بالکل واضح لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ میں مغرور اور تکبر کرنے والی شخصیت سے کوئی تعامل نہیں کرنا چاہتا، جبکہ میں ایسی بالکل نہیں تھی، میں اسکے برعکس تھی، اس کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اپنے آپ پر ظلم کیوں کروں؟ اور اپنے ساتھیوں کیلئے ناپسندیدہ انداز کیوں اختیار کروں، تو میں بھی انکے ساتھ گپ شپ، اور ہنسی مذاق میں شرکت کرنے لگی۔
اس کے بعد سب کو پتہ چل گیا کہ میں بھی گفتگو کرنے میں بڑی مہارت رکھتی ہوں، اور مجھے دوسروں کو قائل اور انہیں متاثر کرنے کا ڈھنگ بھی آتا ہے، اسی طرح میرے بات کرنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جو پر اعتماد اور مزید برآں کچھ ساتھیوں کیلئے دلکش بھی ہوتا تھا، ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ میں نے اپنے انچارج کے چہرے پر بھی میرے انداز کی وجہ سے اثرات دیکھنے کو ملے، وہ میرے انداز گفتگو، جسمانی اشاروں، سے بڑا محظوظ ہوتا، بلکہ جان بوجھ کر ایسے موضوعات کو چھیڑ دیتا تھا جس میں بھی اپنی رائے پیش کروں، مجھے اسکی نظریں کچھ عجیب سی دیکھائی دیتیں، اور میں اس بات کا بھی انکار نہیں کرتی کہ اس آدمی کا تھوڑا بہت خیال میرے دل میں بھی اتر چکا تھا، اگرچہ مجھے اس بات پر تعجب بھی ہوتا تھا کہ کتنی آسانی سے ایک آدمی دیندار خاتون کے جال میں پھنس جاتا ہے، اور اگر عورت خود ہی بے پردہ ہو، اور جسم فروشی اُسکا کام ہوتو پھر کیا حال ہوگا!؟
یہ سچ ہے کہ میں نے اسکے بارے میں کبھی غیر شرعی طریقے سے نہیں سوچا تھا، لیکن پھر بھی وہ شخص غیر معمولی مدت تک میرے دماغ میں چھایا رہا، اور پھر میرے ضمیر نے یہ گوارا نہیں کیا کہ میں اس اجنبی کیلئے تفریح کا باعث بنوں چاہے معنوی تفریح ہی کیوں نہ ہو، اس کیلئے میں نے وہ تمام راستے بند کردئیے جس کی بنا پر مجھے اسکے ساتھ علیحدہ بیٹھنا پڑے، میں اِس ساری آپ بیتی کے بعد کچھ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہوں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1- کچھ بھی ہو، اور جیسا بھی ماحول ہو خواتین و حضرات کے درمیان آپس میں میلان پایا جاتا ہے، اس کا مرد یا عورت جتنا مرضی انکار کرے لیکن یہ حقیقت ہے، بسا اوقات یہ میلان جائز انداز سے شروع ہوکر ناجائز تک پہنچا دیتا ہے۔
2- انسان اپنی حفاظت کیلئے جتنے مرضی حفاظتی حصار قائم کر لے لیکن پھر بھی وہ شیطانی چالوں سے پر امن نہیں رہ سکتا۔
3- اگر کوئی اپنے آپ کے بارے میں ضمانت دے اور جنس مخالف کے ساتھ عقلی اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئےاس کے ساتھ تعامل کرے تو پھر بھی فریق ثانی کے احساسات، جذبات کی ضمانت نہیں دے سکتا۔
4- آخری بات یہ ہے کہ، اختلاط کسی بھی شکل میں اچھا نہیں ، اسکی وجہ سے کبھی بھی توقع کئے جانے والے فوائد حاصل نہیں ہوتے، بلکہ اسکی وجہ سے فکرِ سلیم کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
اگر معاملہ ایسے ہی تو کیا کریں؟
اختلاط سے متعلقہ تمام امور کا جائزہ لینےکے بعد ہم پوچھتے ہیں کہ اب کیا کریں؟
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس بات کا اعتراف کریں کہ اختلاط کو جتنا مرضی خوبصورت بنا کر پیش کریں، یا اسے معمولی سمجھیں ، اسکے بھیانک نتائج ہمیں ضرور حاصل ہونگے، انہی نتائج کی وجہ سے ہمارا عائلی نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔
فطرتِ سلیم اس بات کو یکسر مسترد کرتی ہے کہ اختلاط سماجی تعلقات کیلئے صحت مند فضا ہے، اسی فطرتِ سلیم ہی کی وجہ سے مذکورہ بالا تحقیق میں شرکت کرنے والے 76 فیصد لوگوں نے غیر مختلط جگہ میں کام کو ترجیح دی تھی، اور 76 فیصد لوگوں نے یہ بھی کہا تھا کہ شرعی طور پر اختلاط جائز نہیں ہے۔
یہاں پر قابلِ توجہ بات یہ نہیں کہ ہمارے معاشرےمیں موجود اتنی بڑی تعداد صاف ذہن کی مالک ہے، بلکہ جس بات نے ہمیں سوچنے پر مجبور کیا وہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اختلاط کو جائز قرار دیا جن کی نسبت 12 فیصد تھی ، انہوں نے کہا تھا کہ بغیر کسی استثناء کے اختلاط جائز ہے بس دین، عرفِ عام، عادات، اخلاقیات، ضمیر، پاکیزگی، اور پاکدامنی۔۔۔ وغیرہ جیسی بلند اخلاقی اقدار کی حامل صفات کے دائرے میں رہتے ہوئےجائز ہے، جسکی وجہ سے اِن لوگوں کے ہاں اختلاط کی حد بندی کی جاسکتی ہے۔
ہم اِنہی لوگوں سے پوچھتے ہیں، اپنے معاشرے میں ، بازاروں میں، ملازمت کی جگہوں پر ، عائلی اور سماجی ملاقاتوں میں جس اختلاط کو ہم دیکھ رہے ہیں، کیا مذکورہ بالا صفات ان پر صادق آتی ہیں؟ یا ان جگہوں میں لباس، گفتگو، اور تعامل میں حدیں توڑنے کا مقابلہ کیا جاتا ہے؟! ہمیں ان جگہوں پر بے پردگی، بے حیائی، گمراہ کن مناظر، غیر اخلاقی تعلقات، جہاں اخلاق اور نہ ہی ضمیر، ایسے لگتا ہے کہ زبانِ حال چیخ چیخ کر پکار رہی ہے: "اس اختلاط کو وہ لوگ بھی جائز قرار نہیں دیتے جو صحت مند فضا میں اختلاط کو جائز قراردیتے ہیں"
ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ اختلاط ہی برائیوں کیلئے بنیادی اکائی ہے،جو کہ معاشرے میں موجود بلند اخلاقی اقدار کی مالک فطرتوں کیلئے ذرخیز زمین کی طرح ہے، جس کے آس پاس ، اور در و دیوار میں نشو ونما پاتا ہے، پھر اتنا پھلتا اور پھولتا ہے کہ اسکی جڑیں مضبو ط ہوجاتی ہیں، اور انتہائی خفیہ اور پوشیدہ انداز میں تمام فتنوں کا خاموش سرغنہ بن جاتا ہے، اور کسی کو احساس تک نہیں ہوتا، اسی کے سائے میں دل و دماغ برباد ہوتے ہیں، شہوت کو شہہ ملتی ہے، ازدواجی خیانت پروان چڑھتی ہے، جس سے گھرانے تباہ ہوجاتے ہیں۔
ہم اللہ تعالی سے سلامتی، عافیت، اور اصلاح احوال مانگتے ہیں، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد پر درود نازل فرمائے .