"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
سوال نمبر ( 1190 ) اور ( 8196 ) كے جوابات ميں داڑھى مونڈنے كى حرمت، اور داڑھى مونڈنے كى معاونت كرنے كى حرمت بيان كى جا چكى ہے، چاہے وہ معاونت شيو كرنے كى دوكان كھول ہو يا اس كے بغير.
اور پھر والدين كى اطاعت و فرمانبردارى اور ان سے صلہ رحمى كرنا واجب ہے، ليكن جب اللہ تعالى كى نافرمانى ہو تو پھر مخلوق كى اطاعت نہيں ہو سكتى، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ كى معصيت و نافرمانى ميں كوئى اطاعت نہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6830 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1840 ).
اس بنا پر داڑھى كى شيوكرنے كے ليے دوكان كھولنى جائز نہيں، آپ كے ليے ممكن ہے كہ آپ صرف سر كے بال مونڈيں يا چھوٹے كريں، اور مونچھيں كاٹيں، ليكن لوگوں كى داڑھى كو ہاتھ بھى نہ لگائيں، تو اس طرح دونوں كام ہو سكتے ہيں آپ دوكان بھى كھول ليں گے اور حرام كام سے اجتناب بھى ہو جائيگا.
اور آپ كے والد كو يہ جان لينا چاہيے كہ حصول رزق شريعت كے مطابق ہونا چاہيے، اور سبحانہ وتعالى حلال مال ميں بركت عطا كرتا ہے چاہے وہ تھوڑا ہى ہو، اور حرام مال چاہے جتنا بھى زيادہ ہو اس ميں بركت نہيں ہوتى بلكہ وہ ختم ہو جاتا ہے، اور پھر آپ شرعى طور پر اس معصيت و نافرمانى كے ارتكاب كے ليے مجبور نہيں، اور جس معاملہ ميں اللہ كى نافرمانى ہوتى ہو اس ميں آپ پر اپنے والد كى اطاعت و فرمانبردارى كرنا جائز اور ضرورى نہيں ہے.
تو آپ اللہ سبحانہ وتعالى سے مدد و نصرت مانگيں اور اپنے والد كى بات كو تسليم نہ كريں، بلكہ آپ كوئى اور حلال كام تلاش كر ليں، يا پھر اپنى اس دوكان پر ہى رہيں، ليكن داڑھى كى شيو نہ كريں، ان شاء اللہ اللہ تعالى آپ كے ليے نكلنے كى كوئى راہ بنا ديگا، اور آپ كو روزى بھى وہاں سے دےگا جہاں سے آپ كو وہم و گمان بھى نہيں ہے.
جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى پر بھروسہ اور توكل كرتا ہے اللہ تعالى اسے كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنا كام پورا كرنے والا ہے، اللہ تعالى نے ہر چيز كا اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 ).
اور آپ خير القرون جو كہ صحابہ كرام كا دور تھا ان كے افعال كى پيروى كريں، كيونكہ وہ اپنى دنيا كو اپنے دين پر مقدم نہيں كرتے تھے، اور نہ ہى دنياوى نفع كو اخروى فائدہ پر ترجيح ديتے تھے، اس ليے كہ وہ وحى كى سماعت كرتے كہ وہ انہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم مخالفت سے منع كرتى تو وہ اسے ترك كرنے ميں جلدى كرتے، اور وہ اپنے نفسوں كے ليے ايك ثقيل حكم بھى سنتے تو وہ اس پر عمل پيرا كرنے ميں جلدى كيا كرتے تھے، اور پھر مدينہ كے لوگ تو كاشت كار تھے، اور ان كے كچھ معاہدہ جات ميں انہيں فائدہ تھا ليكن جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے اس ميں سے كچھ كى ممانعت آئى تو ان ميں سے ايك كہنے لگا:
" ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسے كام سے روكا جس ميں ہمارا فائدہ تھا، ليكن ہمارے ليے اللہ تعالى اور اس كے رسول كى اطاعت و فرمانبردارى زيادہ فائدہ مند ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2214 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1548 ).
اور جب شراب كى حرمت نازل ہوئى تو صحابہ كرام نے شراب نوشى سے اجتناب كرنے ميں تردد اور پس و پيش سے كام نہيں ليا، حالانكہ گلاس ان كے ہاتھ ميں تھا، ليكن جيسے ہى حرمت كا حكم سنا تو انہوں نے شراب كے مٹكے توڑنے ميں ذرا برابر بھى تاخير نہ كى.
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ميں ابو طلحہ انصارى اور ابو عبيدہ جراح، اور ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہم كو كھجور كى شراب پلا رہا تھا، تو ايك آنے والا شخص آيا اور كہنے لگا، بلا شبہ شراب حرام كر دى گئى ہے، تو ابو طلحہ رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:
انس رضى اللہ تعالى عنہ اٹھو اور اس مٹكے كو توڑ دو، انس رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں: ميں نے اس برتن كے نيچے پيندے ميں ٹھوكر مارى اور توڑ ديا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6826 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1980 ).
اس طرح بات اور حكم كو تسليم كرنے ميں يہ پاكباز لوگ بعد ميں آنے والوں سے سبقت لے گئے، تو مسلمان شخص پر واجب ہے كہ وہ شريعت كے مخالف كام كو ترك كرنے ميں تردد اور پس و پيش سے كام نہ لے، اور اسے يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اس كے ايمان كا تقاضہ بھى يہى ہے جسے اس نے اپنے ليے پسند كيا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
كسى بھى مومن مرد اور مومن عورت كو اللہ اور اس كے رسول كے فيصلہ كے بعد اپنے كسى امر كا كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى نافرمانى كريگا وہ صريحا گمراہى ميں جا پڑے گا الاحزاب ( 36 ).
واللہ اعلم .