"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں حاملہ تھى اور سات ماہ كى بچى رحم ميں ہى فوت ہوگئى، كيا اس كا عقيقہ كرنا ہمارے ذمہ ہے كيونكہ ہم نے اس كا عقيقہ نہيں كيا، اور كيا اس كا نام ركھنا بھى ضرورى تھا كيونكہ ہم نے اس كا نام نہيں ركھا ؟
ميرے خاوند نے اسے غسل ديا اور كفن پہنا كر نماز جنازہ ادا كر كے دفن كر ديا، كيا ايسا كرنا صحيح تھا ؟
ميرے خاوند نے مجھے طلاق دے دى ہے، اگر عقيقہ كرنا واجب ہے تو كيا ميں بچى كا عقيقہ كر سكتى ہوں ؟
الحمد للہ.
اول:
سوال كرنے والى بہن آپ كو علم ہونا چاہيے كہ قضاء و قدر پر صبر كرنا صالحين اور نيك لوگوں كے مقام سے ہے، اور اللہ تعالى كى تقدير پر راضى ہونا مقرب لوگوں كے مراتب ميں شامل ہوتا ہے، اور آزمائش كے وقت سب سے بہتر اور اچھى كلام يہ ہے كہ وہ يہ الفاظ ادا كرے:
، انا للہ و انا اليہ راجعون.
اللہ سحانہ وتعالى كى تعريف اور شكر ہے، يقينا ہم سب اللہ كے ليے ہيں اور اسى كى طرف لوٹ كر جانے والے ہيں.
اور ہم سب سے اچھى اور بہتر چيز جس كى آپ كو خوشخبرى دينا چاہتے ہيں يہ وہى ہے جو حديث سے ثابت ہے:
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب كسى بندے كا بيٹا فوت ہو جائے تو اللہ تعالى فرشتوں سے فرماتا ہے، تم نے ميرے بندے كے لخت جگر كى روح قبض كر لى ؟ تو وہ جواب ديتے ہيں جى ہاں.
تو اللہ تعالى فرماتا ہے: تم نے اس كے دل كے ٹكڑے اور پھل كى روح قبض كر لى ؟ تو فرشتے جواب ديتے ہيں: جى ہاں.
تو اللہ تعالى فرماتا ہے: ميرے بندے نے كيا كہا:
تو فرشتے جواب ديتے ہيں: اس نے تيرى حمد و تعريف بيان كى اور انا للہ و انا اليہ راجعون، كہا.
تو اللہ تعالى فرماتا ہے: ميرے بندے كے ليے جنت ميں ايك تعمير كر دو، اور اس كا نام بيت الحمد ركھو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1021 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ايك بچے كى موت آگ سے حجاب ہے، اور اسى طرح ساقط ہونے والا حمل بھى، واللہ اعلم "
ديكھيں: المجموع للنووى ( 5 / 287 ) اور حاشيۃ ابن عابدين ( 2 / 228 ).
اور معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے، اگر ماں صبر كرتے ہوئے ثواب كى اميد ركھے تو ساقط ہونے والا بچہ اپنى ماں كو ناف سے كھينچ كر جنت كى طرف لے جائيگا "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1609 ) امام نووى نے " الخلاصہ ( 2 / 1066 ) اور بوصيرى نے اسے ضعيف كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
" السرر " اس آنت كو كہتے ہيں جو ناف كے اوپر سے كاٹى جاتى ہے "
ديكھيں: النھايۃ ( 3 / 99 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 5226 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
اہل علم كا اجماع ہے كہ جب بچہ اپنى زندگى سے معروف ہو جائے اور آواز نكالے تو اسے غسل بھى ديا جائيگا، اور كفن بھى پہنايا جائيگا اور اس كى نماز جنازہ بھى ادا ہوگى.
اس پر اجماع ابن منذر اور ابن قدامہ نے اور الكاسانى نے بھى نقل كيا ہے.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 328 ) بدائع الصنائع ( 1 / 302 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اس كا كفن بالغ كے كفن كى طرح تين كپڑے ہونگے "
ديكھيں: المجموع للنووى ( 5 / 210 ).
ليكن جو بچہ چيخ نہ مارے اس كے متعلق سوال نمبر ( 13198 ) اور ( 13985 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ: اس ميں معتبر چيز بچے ميں روح ڈالى جانى ہوگى، جو كہ چار ماہ كا حمل ہونے كے بعد ڈالى جاتى ہے اس ليے اگر اس ميں روح ڈال دى گئى ہو تو اسے غسل بھى ديا جائيگا اور اسے كفن بھى پہنايا جائيگا اور اس كى نماز جنازہ بھى ادا كى جائيگى، اور اگر روح نہ ڈالى گئى ہو تو نہ غسل ديا جائيگا، اور نہ ہى اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 328 ) اور الانصاف ( 2 / 504 ).
سوم:
اگر چار ماہ كا حمل ساقط ہو جائے تو اس كے عقيقہ كى مشروعيت كے متعلق علماء كا اختلاف ہے، سوال نمبر ( 12475 ) اور ( 50106 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ: ( مستقل فتوى كميٹى اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا اختيار يہى ہے كہ اس كا عقيقہ كرنا مشروع اور مستحب ہے، اور ان جوابات ميں يہ بھى بيان ہوا ہے كہ اس كا نام بھى ركھا جائيگا.
چہارم:
عقيقہ كرنے كا مامور وہ شخص ہے جس كے ذمہ مولود كا نان و نفقہ ہے اور وہ والد ہے اگر موجود ہو، اور اگر والد نہ ہو تو اس كے علاوہ كسى اور كے ليے عقيقہ كرنے ميں كوئى مانع نہيں مثلا والدہ بھى كر سكتى ہے.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" شافعى حضرات كا مسلك يہ ہے كہ: عقيقہ كرنے كا مطالبہ اس اصل سے كيا جائيگا جس كے ذمہ مولود كا نان و نفقہ اور اخراجات ہيں، اور عقيقہ اپنے مال سے كرےگا، بچے كے مال سے نہيں، اور نہ ہى وہ شخص عقيقہ كر سكتا ہے جس كے ذمہ مولود كا نان و نفقہ اور اخراجات نہيں ہيں، ليكن اگر وہ اجازت دے تو عقيقہ كر سكتا ہے.
اور حنابلہ حضرات نے صراحت كى ہے كہ والد كے علاوہ كوئى اور عقيقہ نہيں كر سكتا، ليكن اگر والد فوت ہو چكا ہو يا كسى اور مانع كى بنا پر، تو اس صورت ميں اگر والد كے علاوہ كوئى اور شخص عقيقہ كرے تو مكروہ نہيں، ليكن وہ عقيقہ نہيں ہوگا، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حسن اور حسين رضى اللہ تعالى عنہما كى طرف سے عقيقہ كيا، كيونكہ وہ مومنوں كے ليے ان كے نفسوں سے بھى زيادہ اولى ہيں " انتہى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 30 / 279 ).
اس ليے اگر والد زندہ اور طاقت ركھتا ہو تو اسے اپنے بيٹے كا عقيقہ كرنے كى نصيحت كى جائيگى، اور اگر وہ عقيقہ نہ كرے، يا پھر والدہ كو عقيقہ كرنے كى اجازت دے تو اس كے ليے عقيقہ كرنا مشروع ہے.
حاصل يہ ہوا كہ:
آپ كے خاوند نے بچى كو غسل ديا اور اسے كفن پہنايا اور اس كى نماز جنازہ ادا كى يہ صحيح اور مشروع تھا، ليكن تم پر اس كا نام ركھنا اور اس كا عقيقہ كرنا باقى ہے.
واللہ اعلم .