"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں نوجوان ہوں اور ميرے پاس كافى مال بھى ہے، دوران ملازمت مجھے ايك سركارى محكمہ كے اخراجات پر حج كرنے كا موقع ملا كيا ميرا يہ حج جائز ہے يا نہيں ؟ يہ علم ميں رہے كہ ميرا يہ پہلا حج تھا ؟
الحمد للہ.
انسان كے ليے كسى دوسرے كے خرچ پر حج كرنا جائز ہے، چاہے حج فرضى ہو يا نفلى، اور اسى طرح دوران حج ملازمت اور تجارت اور كمائى كرنا بھى جائز ہے.
امام طبرى رحمہ اللہ نے اپنى سند كے ساتھ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ انہوں درج ذيل فرمان بارى تعالى كے بارہ ميں فرمايا:
تم پر كوئى گناہ نہيں كہ تم اپنے رب كا فضل تلاش كرو البقرۃ ( 199 ).
ابن عباس رضى اللہ عنہما نے فرمايا:
" تم پر احرام سے قبل اور اور بعد ميں خريد و فروخت كرنے ميں كوئى حرج نہيں "
اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
حكمران كے خرچ پر حج كرنے والے كے حج كا حكم كيا ہے ؟
دوسرے معنى ميں يہ كہ: اگر حكمران اپنى رعايا كو كچھ مال دے اور كہے كہ اس سے اس برس حج كرو تو كيا ان كے ليےاس مال كے ساتھ حج كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
اور اگر وہ حج كر ليں تو كيا ان كا فرضى حج ادا ہو جائيگا، دليل كے ساتھ ذكر كريں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" ان كے ليے يہ جائز ہے، اور عمومى دلائل كى بنا پر ان كا حج صحيح ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدئمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 36 ).
مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 36841 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ آپ كے اور ہمارے اعمال قبول فرمائے.
واللہ اعلم .