"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
آپ كا يہ كہنا كہ ميں بنك ملازم ہوں:
اگر تو يہ بنك سودى ہے تو آپ كے ليے اس كى ملازمت كرنا جائز نہيں، چاہے اس بنك كا كوئى بھى كام كرتے ہوں.
اسى ويب سائٹ پر ہم سودى بنكوں ميں ملازمت كے حكم كے متعلق كئى ايك فتاوى جات نقل كر چكے ہيں كہ بنك ملازمت كرنى حرام ہے، اور اس ميں كام كرنا جائز نہيں، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 21113 ) اور ( 26771 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
دوم:
كچھ احكام اور حقائق ايسے ہيں جن كا آپ كے ليے جاننا ضرورى ہے تا كہ آپ كو يہ پتہ چل سكے كہ آپ نے صحيح كيا كيا ہے اور غلط كيا ہے:
1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ ہى سب سے بہتر اور اچھا طريقہ ہے، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہر قسم كا لباس زيب تن كيا، اور آپ باہر سے آنے والے وفد كے ليے بن سنور كر خوبصورت لباس پہنا كرتے تھے، اور اسى طرح نماز جمعہ نماز عيد كے ليے بھى، اور اس كے ليے خوبصورتى اختيار كرنا جائز ہے.
اور جو شخص رغبت ركھے كہ اس كا لباس اچھا ہو تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے انكار نہيں كيا، اور بندوں پر اللہ كى نعمت كا اثر ظاہر كرنے كى رغب دلائى، ليكن اس ميں تواضع و انكسارى اور شرعى زہد پايا جائے، جو شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع كرنا چاہتا ہے تو اس كے ليے يہ مكمل راہنمائى ہے.
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے عطارد تميمى كو ايك ريشمى جبہ فروخت كرتے ہوئے ديكھا، اور وہ شخص بادشاہوں كے پاس جايا كرتا تھا اور ان سے تحفے حاصل كيا كرتا تھا، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ ميں عطار كو بازار ميں ايك ريشمى جبہ فروخت كرتے ہوئے ديكھا ہے، اگر آپ اسے خريد ليں اور جب عرب كے وفود آپ كے پاس آئيں تو زيب تن كيا كريں، اور جمعہ والے دن پہن ليا كريں ( اور ايك روايت ميں عيد والے دن كے الفاظ ہيں ) تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" دنيا ميں ريشم وہ پہنتا ہے جس كا آخرت ميں كوئى حصہ نہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 846 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2068 ).
حلۃ: دو كپڑوں كو كہتے ہيں.
سيراء: جس ميں ريشم كے خطوط ہوں.
لاخلاق: حصہ اور نصيب نہ ہو.
عبد اللہ بن سلام رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كوجمعہ كے روز منبر پر فرماتے ہوئے سنا:
" تم ميں سے اگر كوئى شخص جمعہ والے دن كے ليے اپنے كام كاج كے لباس كے علاوہ كوئى اور لباس خريد لے تو اس پر كوئى حرج نہيں "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1095 ) بوصيرى نے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابن ماجہ ميں صحيح قرار ديا ہے.
اس حديث سے شاہد يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے قول كہ آپ اس جبہ سے وفود اور جمعہ اور عيد كے روز خوبصورتى حاصل كريں سے انكار نہيں كيا، بلكہ اسے برقرار ركھا، بلكہ انكار اس كا كيا كہ يہ ريشم كا ہے اس ليے جائز نہيں.
اور امام بخارى رحمہ اللہ نے اس حديث پر " وفود كے ليے خوبصورتى اختيار كرنا " باب باندھا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس حديث كى باب سے مناسبت ميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا يہ قول ہے: " آپ اس سے وفود كے ليے خوبصورتى حاصل كيا كريں " اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے برقرار ركھا اور انكار نہيں كيا.
ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 501 ).
اور بدر الدين العينى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" باب سے مطابقت: يعنى امام بخارى نے جو باب باندھا ہے اس كى مناسبت اور مطابقت عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے قول سے سمجھ آتى ہے؛ كيونكہ وفود كے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خوبصورتى اختيار كرنا عادت تھى؛ اس ليے كہ اس ميں دين اسلام كى عزت و فخر اور دشمن كے ليے برابرى اور ان كے غصہ كا باعث ہے، ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہاں عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ليے جس وجہ سے انكار كيا وہ يہ تھى كہ وہ جبہ ريشمى تھا، اور آپ نے يہ فرمايا: كہ يہ وہ لوگ پہنتے ہيں جن كا آخرت ميں كوئى حصہ نہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وفد كے ليے مطلقا خوبصورتى اختيار كرنے سے انكار نہيں كيا، حتى كہ علماء كا كہنا ہے: اس حديث ميں يہ دليل پائى جاتى ہے كہ وفود سے ملاقات كرتے وقت بہترين اور اچھا لباس پہننے كى دليل پائى جاتى ہے.
ديكھيں: عمدۃ القاري ( 22 / 147 ).
2 - آپ كے ليے سستا لباس پہننا جائز ہے، ليكن آپ كو يہ حق نہيں كہ آپ پرانے اور بوسيدہ اور پھٹے ہوئے كپڑے پہنيں، آپ كے ليے پھٹا پرانا لباس پہننا كئى ايك وجوہات كى بنا پر ممنوع ہے:
ا - ہو سكتا ہے يہ لباس شہرت ہو.
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى لباس شہرت پہنا اللہ تعالى روز قيامت اسے اسى طرح كا لباس پہنائيگا"
اور ايك روايت ميں ہے:
" پھر اسے ميں آگ دہكائ جائيگا "
اور ايك روايت ميں ہے:
اسے ذلت كا لباس پہنايا جائيگا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4029 ) سنن ابن ماجہ ( 3606 ) اور ( 3607 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 2089 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
صرف مہنگا اور قيمتى لباس ہى لباس شہرت نہيں، جيسا كہ كچھ لوگ سمجھتے ہيں، بلكہ بعض اوقات بوسيدہ اور پھٹے پرانے كپڑے بھى لباس شہرت ميں شامل ہوتے ہيں، اور وہ اس وقت جب اس كے پاس بوسيدہ لباس سے بہتر لباس ہو.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور شہرت والا كپڑا مكروہ ہے، وہ يہ لباس ہے جو عادت سے خارج اور بڑھ كر ہو، اور عادت سے نچلى قسم كا ہو؛ كيونكہ سلف رحمہ اللہ بڑھا ہوا اور نچلا دونوں شہرت كو ناپسند كرتے تھے، اور حديث ميں ہے:
" جس نے بھى لباس شہرت پہنا اللہ تعالى اسے لباس ذلت پہنائيگا "
اور امور ميں سب سے بہتر ميانہ روى ہے "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 138 ).
اور شيخ الاسلام يہ بھى كہتے ہيں:
" اور وہ كپڑے جو شہرت كے ليے ہيں وہ لباس ہے جو جس سے لوگوں ميں بڑا بننے كا مقصد ہو، اور ان سے اوپر ہونے كا اظہار ہو، يا پھر تواضع اور زہد مقصد ہو "
ديكھيں: مختصر الفتاوى المصريۃ ( 2 / 50 ).
ب ـ يہ اللہ كى اس پر نعمت كا شكر ادا كرنے كے مخالف ہيں، اور اس لباس كا ظاہر كرنے ميں فقر و تنگ دستى كا دعوى اور اللہ تعالى سے شكوى پايا جاتا ہے !
ابو الاحوص اپنے والد مالك سے بيان كرتے ہيں ميں كہتے ہيں ميں نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں ايك شخص كے پاس جاتا ہوں تو وہ ميرى مہمان نوازى نہيں كرتا، اور ميرے پاس آتا ہے تو كيا ميں اسے اس كا بدلہ دوں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نہيں بلكہ تم اس كى مہمان نوازى كرو "
وہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ وسلم نے مجھے پراگندہ لباس ميں ديكھا تو فرمانے لگے:
" كيا آپ كے پاس مال ہے ؟
تو ميں نے عرض كيا اللہ تعالى نے مجھے ہر قسم كامال ديا ہے اونٹ بھى ہيں اور بكرياں بھى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" تو پھر اللہ كى نعمت كا تجھ پر اثر نظر آنا چاہيے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4063 ) مسند احمد حديث نمبر ( 17231 ) اور يہ الفاظ مسند احمد كے ہيں، شيخ ارناؤط اور علامہ البانى نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حديث كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" وہ اپنى حالت كے مطابق صاف ستھرا اور اچھا لباس زيب تن كرے؛ تا كہ محتاج اور ضرورتمند لوگ اسے پہچان سكيں اور اس سے سوال كر سكيں، اور اس كے ساتھ مقصد كا خيال ركھے، اور اسراف و فضول خرچى نہ كرے.
ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 260 ).
ج ـ دين كا التزام كرنے والوں پر طعن كرنے والوں كو آپ موقع فراہم كر رہے ہيں كہ وہ ان كے سلوك اور افعال ميں طعن كريں.
د ـ يہ فعل امت كے سلف كے طريقہ ميں سے نہيں، بلكہ وہ تو ضرورت كے ليے اپنا لباس قيمتى پہنتے تھے.
ھـ ـ اس ميں گمراہ قسم كے لوگ مثلا صوفى اور پھٹے ہوا لباس پہننے والے جو زہد كے نام پر اللہ كى حلال كردہ اشياء كو حرام كرتے ہيں كى مشابہت ہوتى ہے.
امام قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ابو الفرج بن الجوزى رحمہ اللہ كا قول ہے:
ميں چار وجوہات كى بنا پر قيمتى لباس پہننے كو ناپسند كرتا ہوں:
پہلى وجہ: يہ سلف كے لباس ميں سے نہيں، بلكہ وہ ضرورت كى بنا پر قيمتى لباس پہنا كرتے تھے.
دوسرى وجہ: اس سے فقر و فاقہ كا دعوى ہوتا ہے، حالانكہ انسان كو حكم ہے كہ اللہ تعالى كى نمعت كا اس پر اظہار ہونا چاہيے.
تيسرى وجہ:
اس سے نقلى زہد كا اظہار ہوتا ہے، حالانكہ ہميں اسے چھپانے كا حكم ديا گيا ہے.
چوتھى وجہ:
اس ميں شريعت سے باہر كام كرنے والوں سے مشابہت ہوتى ہے، اور جو كوئى بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كرتا ہے, وہ اسى ميں شامل ہوتا ہے.
اور طبرى كہتے ہيں:
" كاٹن كے لباس پر اونى لباس كو ترجيح دينے والا غلط ہے حالانكہ اس كے حلال ہونے كى بنا پر اسے استعمال كرنا ممكن ہے "
ديكھيں: تفسير القرطبى ( 7 / 197 ).
3 ـ اللہ تعالى كى حلال كردہ اشياء لباس و زينت ميں سے كوئى بھى چيز اپنے اوپر حرام كرنى جائز نہيں، چاہے وہ قيمتى اور بہت نفيس ہى كيوں نہ ہو، يا اس مطلقا ترك كرنا جائز نہيں، چاہے اس ميں آپ كا مقصد اللہ كا قرب حاصل كرنا ہى كيوں نہ ہو.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ آپ فرمائيے كہ اللہ تعالى كے پيدا كيے ہوئے اسباب زينت كو جنہيں اللہ نے اپنے بندوں كے ليے بنايا ہے اور كھانے پينے كى حلال چيزوں كو كس شخص نے حرام كيا ہے ؟
آپ كہہ ديجئے كہ يہ اشياء اس طور پر قيامت كے روز خالصتا اہل ايمان كے ليے ہونگى، دنيوى زندگى ميں مومنوں كے ليے بھى ہيں، ہم اسى طرح تمام آيات كو سمجھ داروں كے واسطے صاف صاف بيان كرتے ہيں }الاعراف ( 32 ).
قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ آيت جمعہ اور عيد اور وفود اور لوگوں اور بھائيوں سے ملاقات كے موقع پر نفيس اور قيمتى لباس پہننے پر دلالت كرتا ہے.
ابو العاليۃ كہتے ہيں:
جب مسلمان ايك دوسرے كے ہاں ملنے جاتے تو وہ خوبصورت و جمال اختيار كرتے "
ديكھيں: تفسير قرطبى ( 7 / 196 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ كہتے ہيں:
" اور جو شخص بھى اللہ تعالى كى مباح كردہ چيز ميں سے كسى بھى چيز كو بطور تقرب ترك كرتا ہے تو وہ غلطى پر اور گمراہ ہے "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 137 ).
اور ايك دوسرى جگہ پر كہتے ہيں:
" اور اسى طرح لباس ہے: چنانچہ جو كوئى بھى مالى بخل كرتا ہوا خوبصورت لباس زيب تن كرنا ترك كرے تو اسے اجر نہيں ملےگا اور جس نے مباح كو حرام كرتے ہوئے بطور عبادت ترك كرے تو وہ گنہگار ہے "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22/ 138 ).
4 - جب اللہ تعالى كى جانب سے مباح كردہ لباس اللہ كى نعمت كا اظہار كرنے كے ليے پہنيں تو آپ كو اس پر اجروثواب حاصل ہو گا چاہے آپ كا لباس انتہائى صاف اور اونچا ہو.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
جس نے بھى اللہ تعالى كى جانب سے مباح كردہ لباس پہنا اور كھانا كھايا تا كہ وہ اللہ كى نعمت كو ظاہر اور اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى ميں معاونت حاصل كر سكے تو اسے اس پر اجروثواب حاصل ہو گا "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22/ 137 ).
اور شيخ الاسلام كا يہ بھى كہنا ہے:
" اور جس نے اللہ تعالى كى نعمت كا اظہار اور اللہ تعالى كى اطاعت ميں معاونت حاصل كرنے كے ليے خوبصورت لباس پہنا تو وہ اس پر ماجور ہو گا، اور جس نے ايسا لباس بطور فخر اور غرور و تكبر پہنا تو وہ گنہگار ہوگا؛ كيونكہ اللہ تعالى ہر تكبر اور فخر كرنے والے كو پسند نہيں كرتا"
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 139 ).
اور امام ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
گندا لباس اور بدصورت لباس ايك موقع پر قابل مذمت ہے، اور ايك جگہ قابل تعريف ہے، اگر يہ شہرت و تكبر كے ليے ہو كو قابل مذمت ليكن اگر تواضع اور انكسارى كے ليے ہو تو قابل مذمت ہے، اسى طرح قيمتى لباس اگر تكبر اور غرور و فخر كے ليے ہو تو يہ قابل مذمت ہے، اور اگر خوبصورتى اور اللہ كى نعمت كے اظہار كے ليے ہو تو قابل تعريف ہے "
ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 146 ).
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" دلائل سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ: جو شخص اللہ تعالى كى نعمت كا اظہار اور نعمت كا شكر ادا كرنے اور اس جيسا لباس پہننے والے كو حقارت كى نظر سے نہ ديكھنے كے مقصد سے خوبصورت لباس پہناتو اسے مباح لباس پہننا كوئى نقصان اور ضرر نہيں ديگا، چاہے وہ انتہائى نفيس ہى كيوں نہ ہو.
صحيح مسلم ميں ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كے دل ميں ذرہ برابر بھى تكبر ہوا وہ جنت ميں داخل نہيں ہوگا.
تو ايك شخص نے عرض كيا: آدمى چاہتا ہے كہ اس كا لباس اور جوتا خوبصورت و صاف ہو .
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بلا شبہ اللہ تعالى خوبصورت ہے، اور خوبصورتى پسند فرماتا ہے، تكبر حق كو مٹانا اور لوگوں كو حقير جاننے كا نام ہے "
غمط: غين پر زبر اور ميم پر جزم جس كا معنى حقارت ہے.
ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 259 ـ 260 ).
5 - مسلمان شخص كے ليے قيمتى لباس خريدنا لازم نہيں، بلكہ بعض اوقات تو اس سے روكا جائيگا، يہ اس صورت ميں كہ اگر اس كے پاس وہ لباس خريدنے كے مال نہ ہو، يا پھر اس كا مقصد غرور و تكبر اور فخر ہو، اور اگر ايسا لباس دو شرطوں كى بنا پر نہ خريدے تو اسے ترك كرنے كا اجروثواب حاصل ہو گا:
پہلى شرط:
وہ تواضع كرتے ہوئے نہ خريدے نہ كہ بخل كرتے ہوئے.
دوسرى شرط:
وہ اس كى خريدارى مطلقا ترك مت كرے، بلكہ بعض اوقات مختلف مواقع اور تقريبات پر خريد ليا كرے، مثلا شادى بياہ وغيرہ موقع پر، يا جب اسے ہديہ ديا جائے تو لے ليا كرے، اہم يہ ہے كہ وہ اس كو پہننا مطلقا ترك مت كرے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جس نے اللہ كے ليے تواضع كرتے ہوئے عمدہ لباس ترك كرے نہ كہ بخل كى بنا پر، اور نہ ہى مطلقا ترك كرنے كا التزام كرتے ہوئے تو اللہ تعالى اس پر اسے اجروثواب عطا كريگا، اور اللہ تعالى عزت و تكريم كا لباس پہنائيگا"
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 138 ).
6 - معاملات و امور ميں مياہ روى اختيار كرنا اچھا اور بہتر ہے، تو پھر آپ اپنے آپ كو مہنگا اور بوسيدہ لباس پہننے ميں كيوہ محصور كر رہے ہيں ؟! اور آپ ان دونوں كا درميانى لباس زيب تن كرنے كے متعلق كہاں ہيں ؟.
ابو الفرج ابن الجوزى كہتے ہيں:
سلف رحمہ اللہ متوسط اور درميانہ قسم كا لباس پہنا كرتے تھے نا كہ مہنگا اور قيمتى لباس، اور نہ ہى بوسيد قسم كا، اور وہ اس ميں سے جمعہ اور عيدين اور بھائيوں سے ملاقات كے ليے بہتر اور اچھى قسم كا لباس اختيار كيا كرتے تھے، اور اچھا اور بہتر لباس اختيار كرنا ان كے ہاں كوئى قبيح بات نہ تھى "
ديكھيں: تفسير القرطبى ( 7 /197 ) اور الموسوعۃ الفقھيۃ ( 6 / 139 ).
اور حافظ ابن حجر رحمہ الہ كہتے ہيں:
" حق تو يہ ہے كہ مستقل طور پر اچھا اشياء استعمال كرنا غرور و تكبر اور اكڑ پيدا كرتا ہے، اور شبہات ميں پڑنے كى راہ ہموار پيدا كرتا ہے؛ كيونكہ جو بھى اس كا عادى ہو جائے تو بعض اوقات ايسى اشياء نہ ملنے كى صورت ميں وہ اس سے كم تر اشياء استعمال نہ كر سكنے كى بنا پر ممنوعہ كام ميں پڑ جائيگا، اسى طرح اس كو استعمال كرنا بعض اوقات ايسى چيز كو كرنے كى راہ ہموار كرتا ہے جس سے شريعت نے منع كيا ہے، اس كى صريح دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
{ آپ فرمائيے كہ اللہ تعالى كے پيدا كيے ہوئے اسباب زينت كو جنہيں اللہ نے اپنے بندوں كے ليے بنايا ہے اور كھانے پينے كى حلال چيزوں كو كس شخص نے حرام كيا ہے ؟
آپ كہہ ديجئے كہ يہ اشياء اس طور پر قيامت كے روز خالصتا اہل ايمان كے ليے ہونگى، دنيوى زندگى ميں مومنوں كے ليے بھى ہيں، ہم اسى طرح تمام آيات كو سمجھ داروں كے واسطے صاف صاف بيان كرتے ہيں }الاعراف ( 32 ).
اسى طرح عبادت ميں تشدد اور سختى اكتاہٹ پيدا كرتى ہے جو اس كى اصل كو كاٹ كر ركھ ديتى ہے، اور ـ مثلا ـ فرائض پر اقتصار كرنا اور نفل و نوافل كو ترك كرنے كى عادت بنا لينا عبادت كے معاملہ ميں سستى پيدا كرتا، اور امور ميں سب سے بہتر ميانہ روى ہے " انتہى.
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 106 ).
7 - ہر سستا لباس زيب تن كرنا زہد ميں شامل نہيں ہوتا، اہل علم كے زہد ميں ان كا قيمتى اور اچھا لباس معارض نہيں ہوتا، اور جو يہ نظريہ ركھتا ہے كہ ـ صرف ـ لباس ميں ہى زہد ہے تو وہ غلطى پر ہے، آپ ديكھتے ہيں كہ آدمى گھر ميں انواع و اقسام كے قالين استعمال كرتا ہے، اور گاڑياں اور كھانے پينے كى كئى انواع استعمال كرتا ہے، اور پھر وہ اپنا زہد صرف اپنے لباس اور جوتے ميں محصور كر ديتا ہے!
ليكن يہ امت كے عبادت گزار اور زاہد اور علماء كا طريقہ كار نہيں تھا.
قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ نے ايك ہزار درہم كا جبہ خريدا جس ميں وہ نماز ادا كيا كرتے تھے.
اور مالك بن دينار رحمہ اللہ نے ايك قيمتى عدنى لباس خريدا تھا اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ كا لباس ايك دينار كا خريدا جاتا تھا.
جو اس عمل سے بےرغبتى كرتا ہے وہ سلف كے اس طريقہ كو ترك كر كے كہاں جا رہا ہے، اور اس كے بدلے وہ كھدر اور كھردرا اور اون كا لباس پہنتا اور پھر كہتا ہے:
اور تقوى كا لباس بہتر اور اچھا ہے " بہت دورى ہے، كيا آپ ديكھتے ہيں كہ جن علماء كرام كا ہم نے اوپر ذكر كيا ہے انہوں نے تقوى كا لباس ترك كر ديا تھا، نہيں اللہ كى قسم ايسا نہيں! بلكہ وہ تو متقى اور اہل تقوى تھے، اور معرفت و عقل و دانش ركھنے والے تھے، اور ان كے علاوہ باقى دوسرے صرف دعوى كرنے والے ہيں، ليكن ان كے دل تقوى و پرہيزگارى سے خالى ہيں.
ديكھيں: تفسير القرطبى ( 7 / 196 ).
8- اور اگر آپ كہيں كہ يہ نفس كے ساتھ جہاد ہے! اور ہمارے سارے افعال اللہ تعالى كے ليے ہيں نہ كہ مخلوق كے ليے!
تو اس كا جواب يہ ہے:
قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر كوئى يہ كہے كہ: اچھا اور نيا لباس پہننا پہنا نفس كى خواہش ہے، اور ہميں نفس كے ساتھ جہاد كرنے كا حكم ديا گيا ہے، اور مخلوق كے ليے خوبصورتى اختيار كرنا ہے، حالانكہ ہميں حكم ہے كہ ہمارے سارے افعال اللہ كے ليے ہيں نہ كہ مخلوق كے ليے!
تو جواب يہ ہے:
نفس كى ہر خواہش قابل مذمت نہيں، اور نہ ہى لوگوں كے ليے ہر خوبصورتى اور جمال اختيار كرنا مكروہ ہے، بلكہ اس سے منع اس وقت كياجائيگا جب شريعت اس سے روكےگى، يا پھر دينى معاملہ ميں رياء كارى كى بنا پر ہو.
كيونكہ انسان خوبصورت نظر آنا چاہيے، اور يہ نفس كا حصہ ہے جس ميں اس كى ملامت نہيں كى جا سكتى، اسى ليے اپنے بال كنگھى كرنا اور آئينہ ديكھنا اور اپنى پگڑى سيدھى اور صحيح كرنا، اور كپڑے كى كھردرى سائڈ اندر اور اچھى اور ملائل سائڈ باہر كرنے ميں كوئى ايسى چيز نہيں جو مكروہ ہو، اور نہ ہى قابل مذمت ہے "
ديكھيں: تفسير القرطبى ( 7 / 197 ).
9 - غالب طور پر قيمتى لباس پہننا بدن كے ليے افضل اور بہتر اور زيادہ پائدار اور ديرپا ہوتا ہے، اور بالكل يہى معاملہ جوتے كا بھى ہے كيونكہ يہ پاؤں كے ليے زيادہ راحت اور ديرپا ہوتا ہے، چنانچہ مسلمان شخص كا اپنى راحت و آرام كى حرص ركھنا اور اس كے ليے زيادہ رقم صرف كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
10 - ميرے عزيز بھائى آپ اپنے دل كو ديكھيں اور امر و نواہى كے اعتبار سے اپنے حالات كو ٹٹوليں اور خيال كريں، اور اپنے پروردگار كا قرب حاصل كرنے كے ليے اسے اپنا ميزان مت بنائيں، بلكہ اپنا لباس اچھا اور نفيس بنائيں.
اسى ليے بكر بن عبد اللہ المزني رحمہ اللہ كہا كرتے تھے:
لباس بادشاہوں والا پہنو، اور اپنے دلوں كو خشيت الہى سے مارو
اور امام ابن كثير رحمہ اللہ تعالى نے على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ كہا كرتے تھے:
جب تم لباس پہنو تو اچھااور نيا لباس زيب تن كرو، كيونكہ يہ مردوں كى زينت ہے جس سے عزت و تكريم ہوتى ہے.
اور بطور خشوع لباس ميں تواضح چھوڑ دو كيونكہ اللہ تعالى تمہارى ظاہر اور پوشيدہ كو جانتا ہے.
آپ كا گندا اور بوسيدہ لباس تمہارے معبود و الہ كے ہاں قرب ميں كوئى اضافہ نہيں كرے گا جب آپ ايك مجرم بندے ہوں.
اور جب خشيت الہى اختيار كريں اور حرام سے اجتناب كريں تو آپ كا اچھا اور ستھرا لباس آپ كو كوئى ضرر و نقصان نہيں ديگا.
ابن كثير رحمہ اللہ اس پر تعليق يہ لگائى ہے:
يہ بالكل ايسے ہى ہے جس طرح حديث ميں آيا ہے كہ:
" بلا شبہ اللہ تعالى نہ تو تمہارى شكل و صورت كو ديكھتا ہے اور نہ ہى تمہارے كپڑوں كو، بلكہ وہ تو تمہارے دلوں اور اعمال كو ديكھتا ہے "
اسے مسلم نے روايت كيا ہے.
اور امام ثورى كہتے ہيں:
" دنيا ميں يہ زہد نہيں كہ عبا پہن لى جائے، اور نہ ہى سخت كھانے سے زہد حاصل ہوتا ہے، بلكہ زہد يہ ہے كہ دنيا كى اميديں كم ركھيں جائيں "
ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ ( 8 / 11 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ:
آدمى كو وہ لباس پہننا چاہيے اس كى حالت كے مناسب ہو.
فرمان بارى تعالى ہے:
صاحب وسعت اپنى وسعت كے مطابق خرچ كرے، اور جس پر اس كا رزق تنگ كر ديا جائے تو وہ اس ميں سے خرچ كرے جو اللہ تعالى نے اسے ديا ہے .
لہذا جو اپنے اوپر اللہ تعالى كى نعمت كا اظہار، اور اللہ تعالى كى مباح كردہ طيب اور پاكيزہ سے فائدہ حاصل كرنے كے ليے بغير كسى اسراف و فضول خرچى اور بغير تكبر كے اچھا لباس زيب تن كرے تو اس كے ليے يہ جائز ہے، يہ اس كى قدر اور ورع و تقوى ميں كچھ بھى كمى نہيں كريگ، بلكہ ان شاء اللہ حسن قصد كى بنا پر اسے اس كا اجروثواب حاصل ہو گا.
اور جس نے اللہ تعالى كے ليے تواضع و انكسارى كرتے ہوئے نفيس اور قيمتى لباس ترك كيا تو يہ اچھا امر ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ اس سے شہرت نہ بن جائے، يا پھر وہ اپنے يا كسى دوسرے پر طيب اور پاكيزہ اشياء ميں سے كوئى چيز حرام نہ كر دے، يا پھر وہ اس طريقہ پر نہ ہو كہ مستقل استعمال كرے، چاہے اس كى كوئى بھى حالت ہو.
شيخ الاسلام بن تيميہ رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
قيمتى كپڑوں مثلا ريشمى اور قيمتى لباس وغيرہ سے اجتناب كرنے ميں آيا اجر و ثواب حاصل ہو گا يا نہيں ؟
ہميں فتوى ديكر ماجور ہوں.
شيخ الاسلام كا جواب تھا:
" سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں.
جو اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے حرام كيا ہے مثلا ريشم تو اس كے ترك كرنے پر بالكل اسى طرح اجروثواب حاصل ہوتا ہے، جس طرح اس كو استعمال كرنے والے كو سزا ملتى ہے.....
ليكن مباح اشياء ميں سے زائد اشياء كے ترك كرنے پر اجروثواب حاصل ہوگا، اور يہ وہ ہيں دينى مصلحت كى بنا پر جن اشياء كى اسے ضرورت نہيں، جس طرح كہ مباح اشياء ميں اسراف بھى جائز نہيں ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور وہ لوگ جب خرچ كرتے ہيں نہ تو وہ اسراف كرتے ہيں اور نہ ہى بخل بلكہ وہ اس ميں ميانہ روى اختيار كرتے ہيں .
اور ايك مقام پر اللہ تعالى جہنميوں كے متعلق فرماتے ہيں:
بلا شبہ وہ اس سے پہلے فضول خرچى كرنے اور حد سے گزرنے والے تھے .
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اور آپ اپنا ہاتھ اپنى گردن كے ساتھ لگا كر بند نہ ركھيں، اور نہ ہى اسے بالكل كھول ديں كہ آپ ملامت اور حسرت كے ساتھ بيٹھ جائيں .
اور ايك جگہ ارشاد ربانى كچھ اس طرح ہے:
اور رشتہ داروں اور مسكينوں، اور مسافروں كو ان كا حق ديں اور فضول خرچى مت كريں كيونكہ فضول خرچى كرنے والے شيطان كے بھائى ہيں، اور شيطان اپنے پروردگار كا ناشكرا ہے .
مباحات ميں حد سے تجاوز كرنا اسراف كہلاتا ہے، اور يہ حرام كردہ ظلم و زيادتى ميں شامل ہوتا ہے، اور اس كا زائد ترك كرنا مباح ميں شامل ہوتا ہے.
ليكن مطلقا طور پر مباح امور سے رك جانا؛ مثلا گوشت، اور روٹى كھانے، يا پھر پانى پينے، يا روئى اور كاٹن كا لباس نہ پہننا، بلكہ صرف اونى لباس ہى زيب تن كرنا، اور نكاح و شادى نہ كرنا، اور اسے مستحب زہد ميں شمار كرنے والا شخص جاہل اور گمراہ ہے جو عيسائى زاہدوں كى جنس ميں شامل ہوگا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو اللہ تعالى كى حلال كردہ پاكيزہ اشياء حرام مت كرو، اور نہ ہى ظلم و زيادتى كرو، يقينا اللہ تعالى زيادتى كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا .
اور اللہ تعالى نے جو تمہيں پاكيزہ اور حلال رزق ديا ہے اس ميں سے كھاؤ، اور جس اللہ پر تم ايمان ركھتے اس كا تقوى اختيار كرو .
اس آيت كا سبب نزول يہ ہے كہ: صحابہ كرام كى ايك جماعت نے پاكيزہ اشياء مثلا گوشت وغيرہ نہ كھانے، اور نكاح نہ كرنے كا عزم كيا تو اللہ تعالى نے يہ آيت نازل فرمائى.
اور صحيح مسلم اور صحيح بخارى ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ان لوگوں كا كياحال ہے جن ميں ايك يہ كہتا ہے: ميں تو روزہ ہى ركھوں گا، اور كبھى افطار ہى نہيں كرونگا، اور دوسرا كہتا ہے: ميں قيام كرونگا اور نيند نہيں كرونگا، اور ايك كہتا ہے: ميں گوشت نہيں كھاؤنگا، ليكن ميں روزہ ركھتا بھى ہوں اور نہيں بھى ركھتا، اور قيام بھى كرتا ہوں، اور سوتا بھى ہوں عورتوں سے شادى بھى كى ہے، اور گوشت بھى كھاتاہوں، جس نے بھى ميرى سنت اور طريقہ سے اعراض اور بےرغبتى كى وہ مجھ ميں سے نہيں "
اور صحيح بخارى ميں ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو دھوپ ميں كھڑے ہوئے ديكھا تو فرمايا: يہ كيا ہے ؟
تو وہ كہنے لگے: يہ ابو اسرائيل ہے اس نے نذر مان ركھى ہے كہ وہ سايہ اختيار نہيں كريگا، اور نہ ہى كلام كريگا، اور روزہ ركھے گا.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اسے حكم دو كہ وہ سايہ اختيار كرے، اوركلام بھى كرے، اور بيٹھ جائے، اور اپنا روزہ مكمل كر لے "
اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو ہم نے جو تمہيں پاكيزہ رزق ديا ہے اس ميں سے كھاؤ اور اللہ تعالى كا شكر ادا كرو، اگر تم اس ہى كى عبادت كرتے ہو.
تو يہاں اللہ تعالى نے پاكيزہ اشياء كھانے اور شكر ادا كرنے كا حكم ديا ہے، اور طيب و پاكيزہ وہ ہے جس سے انسان فائدہ حاصل كرے، اور اللہ تعالى نے خبيث اور گندى چيز حرام كى ہے جو اسے نقصان اور ضرر ديتى ہيں، اور اسے اپنا شكر ادا كرنے كا حكم ديا جو اللہ كى اطاعت والے اعمال ہيں؛ اور جن امور كا حكم ديا ہے، ان پر عمل كرنے اور ممنوعہ كام كو ترك كرنے كا حكم ديا ... انتہى.
ماخوذ از: مجموع الفتاوى ( 22 / 133 - 134 ).
تنبيہ:
اوپر جو كچھ ہم نے كہا ہے اس طرح وہ جوتے كو بھى شامل ہے، اور يہ دونوں ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كى اس حديث ميں جمع كر كے ذكر كيے گئے ہيں كہ جب يہ بيان كيا گيا كہ:
" آدمى پسند كرتا ہے كہ اس كا لباس اور اس كا جوتا اچھا ہو "
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كو برقرار ركھا اور اس كا انكار نہيں كيا.
عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بغير كسى اسراف و فضول خرچى اور فخر و تكبر كے كھاؤ پيئو، اور لباس پہنو، اور صدقہ و خيرات كرو "
سنن سنائى حديث نمبر ( 2559 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3605 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن نسائى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:
" جو چاہو كھاؤ اور اور جو چاہو پہنو ليكن دو چيزوں كے بغير فضول خرچى و اسراف اور فخر و تكبر سے "
صحيح بخارى كتاب اللباس ( 5 / 2180 ).
واللہ اعلم .