سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ہجرت کا واقعہ

سوال

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہجرت کے واقعہ سے متعلق معلومات لینا چاہتا ہوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس وقت اہل مکہ کی جانب سے مسلمانوں پر تکالیف کا سلسلہ شدت اختیار کر گیا تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اقامتِ دین کے لیے زمین کے کسی اور خطے کی جانب ہجرت کرنے کا حکم دیا تا کہ وہاں جا کر مسلمان اپنی عبادات آزادی سے ادا کر سکیں۔

تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے مدینہ نبویہ کو ہجرت کی غرض سے منتخب فرمایا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ کی جانب ہجرت فرما رہے ہیں۔

جیسے کہ سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں مکہ سے ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں کہ جہاں پر کھجوریں ہیں، تو میرا ذہن یمامہ یا ھجر علاقے کی جانب گیا ، لیکن اس سے مراد مدینہ یعنی یثرب تھا۔۔۔) الحدیث
اس حدیث کو امام بخاری: (3352) اور مسلم : (4217) نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح صحیح بخاری: (3906) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: (۔۔۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں سے کہا: مجھے تمہاری ہجرت کی جگہ دکھائی گئی ہے جو کہ دو لاوے والی پتھریلی جگہوں کے درمیان کھجوروں کی سرزمین ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ کی جانب ہجرت فرمائی، اور مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کر کے جانے والے سب لوگ مدینہ آ گئے۔)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں:
" سیاہ رنگ کے پتھر والی جگہ کو "حَرَّہ" کہتے ہیں، اور اس حدیث میں مذکور خواب وہ نہیں ہے جو سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ذکر ہوا ہے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تردد تھا۔ ابن التین رحمہ اللہ کہتے ہیں: آغاز میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دارِ ہجرت کے لیے جو خوبیاں دکھائی گئیں تھیں وہ مدینہ سمیت کئی علاقوں میں پائی جاتی تھیں، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خاص ایسی علامت بتلائی گئی جو صرف مدینہ میں تھی تو اس طرح مدینہ ، بطور دارِ ہجرت متعین ہو گیا۔" ختم شد

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سب سے پہلے ہجرت کرنے والے صحابی:

اس بارے میں سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام میں سے سب سے پہلے ہمارے پاس سیدنا مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما آئے، انہوں نے آتے ہی قرآن کریم کی تعلیم دینا شروع کر دی، پھر سیدنا عمار ، بلال، اور سعد رضی اللہ عنہم آئے ، ان کے بعد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیس لوگوں کے قافلے میں آئے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کو کبھی اتنی خوشی نہیں ہوئی تھی جتنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد پر ہوئی حتی کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کی زبانوں پر بھی عام تھا کہ : دیکھو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ آ گئے ہیں۔۔۔۔"
صحیح بخاری: (4560)

درج ذیل حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے واقعہ ہجرت کو اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تمہاری ہجرت کی جگہ مجھے خواب میں دکھائی گئی ہے وہاں کھجور کے باغات ہیں اور دو پتھریلے میدانوں کے درمیان واقع ہے ، چنانچہ جنہیں ہجرت کرنا تھی انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور جو لوگ سرزمین حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ چلے آئے ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی مدینہ ہجرت کی تیار ی شروع کر دی لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ کچھ دنوں کے لئے توقف کرو ۔ مجھے توقع ہے کہ ہجرت کی اجازت مجھے بھی مل جائے گی ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میرے باپ آپ پر فدا ہوں ! کیا واقعی آپ کو بھی ہجرت کے لیے اجازت ملنے کی امید ہے ؟ ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: ہاں ۔ اس پر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقتِ سفر کے خیال سے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور چار مہینے تک دو اونٹنیوں کو جو ان کے پاس تھیں کیکر کے پتے کھلا کر تیار کرنے لگے ۔۔۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک دن ہم ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر بیٹھے ہو ئے تھے بھری دوپہر تھی کہ کسی نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سرپر رومال ڈالے تشریف لا رہے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول ہمارے یہاں اس وقت آنے کا نہیں تھا ۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے: حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں ! ایسے وقت میں آپ کسی خاص وجہ سے ہی تشریف لا رہے ہوں گے ، انہوں نے بیان کیا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت چاہی ، سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو اجازت دی تو آپ اندر داخل ہوئے پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا: اس وقت یہاں سے تھوڑی دیر کے لیے سب کو اٹھا دو ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یہاں اس وقت تو آپ کے اہل خانہ ہی ہیں ، میرا باپ آپ پر فدا ہو، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بعد فرمایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت دے دی گئی ہے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میرا باپ پر آپ فدا ہو، یا رسول اللہ ! کیا مجھے رفاقت سفر کا شرف حاصل ہو سکے گا ؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے باپ آپ پر فدا ہوں! ان دونوں میں سے ایک اونٹنی آپ لے لیجئے ! حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لیکن قیمت سے ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ہم نے جلدی جلدی ان کے لئے تیاریاں شروع کر دیں اور کچھ توشہ ایک تھیلے میں رکھ دیا ۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے اپنے پٹکے کے ٹکڑے کر کے تھیلے کا منہ اس سے باندھ دیا اور اسی وجہ سے انکا نام ذات النطاقین ( دوپٹکے والی ) پڑ گیا عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جبل ثور کے غار میں پڑاؤ کیا اور تین راتیں گزاریں عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما رات وہیں جاکر گزارا کرتے تھے ، یہ نو جوان بہت سمجھدار اور ذہین بے حد تھے ۔ سحر کے وقت وہاں سے نکل آتے اور صبح سویرے ہی مکہ پہنچ جاتے جیسے وہیں رات گزری ہو ۔ پھر جو کچھ یہاں سنتے اور جس کے ذریعہ ان حضرات کے خلاف کاروائی کے لیے کوئی تدبیر کی جاتی تو اسے محفوظ رکھتے اور جب اندھیرا چھا جاتا تو تمام اطلاعات یہاں آ کر پہنچاتے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ آپ ہر دو کے لئے قریب ہی دودھ دینے والی بکریاں چرایا کرتے تھے اور جب کچھ رات گزر جاتی تو اسے غار میں لاتے تھے ۔ آپ اسی پر رات گزارتے اس دودھ کو گرم لوہے کے ذریعہ گرم کر لیا جاتا تھا ۔ صبح منہ اندھیرے ہی عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ غار سے نکل آتے تھے ان تین راتوں میں روزانہ کا ان کا یہی دستور تھا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بنی الدیل جو بنی عبد بن عدی کی شاخ تھی ، کے ایک شخص کو راستہ بتانے کے لئے اجرت پر اپنے ساتھ رکھا تھا ۔ یہ شخص راستوں کا بڑا ماہر تھا ۔ آل عاص بن وائل سہمی کا یہ حلیف بھی تھا اور کفار قریش کے دین پر قائم تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس پر اعتماد کیا اور اپنے دونوں اونٹ اس کے حوالے کر دیئے ۔ قرار یہ پایا تھا کہ تین راتیں گزار کر یہ شخص غار ثور میں ان سے ملاقات کرے ۔ چنانچہ تیسری رات کی صبح کو وہ دونوں اونٹ لے کر ( آگیا ) اب عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور یہ راستہ بتانے والا ان حضرات کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے ساحل کے راستے سے ہوتے ہوئے ۔

ابن شہاب نے بیان کیا اور مجھے عبد الرحمن بن مالک مدلجی نے خبر دی ، آپ سراقہ بن مالک بن جعشم کے بھتیجے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں خبر دی اور انہوں نے سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد آئے اور یہ پیش کش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اگر کوئی شخص قتل کر دے یا قید کر لائے تو اسے ہر ایک کے بدلے میں ایک سو اونٹ دیئے جائیں گے ۔ میں اپنی قوم بنی مدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کا ایک آدمی سامنے آیا اور ہمارے قریب کھڑا ہو گیا ۔ ہم ابھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ اس نے کہا سراقہ ! ساحل پر میں ابھی چند سائے دیکھ کر آ رہا ہوں میرا خیال ہے کہ وہ محمد اور ان کے ساتھی ہی ہیں ( صلی اللہ علیہ و سلم ) سراقہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں سمجھ گیا اس کا خیال صحیح ہے لیکن میں نے اس سے کہا کہ وہ لوگ وہ نہیں ہیں، میں نے فلاں فلاں آدمی کو دیکھا ہے ہمارے سامنے سے اسی طرف گئے ہیں ۔ اس کے بعد میں مجلس میں تھوڑی دیر اور بیٹھا رہا اور پھر اٹھتے ہی گھر گیا اور لونڈی سے کہا کہ میرے گھوڑے کو لے کر ٹیلے کے پیچھے چلی جائے اور وہیں میرا انتظار کرے ، اس کے بعد میں نے اپنا نیزہ اٹھایا اور گھر کی پشت کی طرف سے باہر نکل آیا میں نیزے کی نوک سے زمین پر لکیر کھینچتا ہوا چلا گیا اور اوپر کے حصے کو چھپائے ہوئے تھا ۔ ( سراقہ یہ سب کچھ اس لئے کر رہا تھا کہ کسی کو خبر نہ ہو ورنہ وہ بھی میرے انعام میں شریک ہو جائے گا ) میں گھوڑے کے پاس آ کر اس پر سوار ہوا اور تیز رفتاری کے ساتھ اسے لے چلا ، جتنی جلدی کے ساتھ بھی میرے لیے ممکن تھا ، آخر میں نے ان کو پا ہی لیا ۔ اسی وقت گھوڑے نے ٹھو کر کھائی اور مجھے زمین پر گرا دیا ۔ لیکن میں کھڑا ہو گیا اور اپنا ہاتھ ترکش کی طرف بڑھایا اس میں سے تیر نکال کر میں نے فال نکالی کہ آیا میں انہیں نقصان پہنچا سکتا ہوں یا نہیں ۔ فال ( اب بھی ) وہ نکلی جسے میں پسند نہیں کر تا تھا ۔ لیکن میں دوبارہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور تیروں کے فال کی پرواہ نہیں کی ۔ پھر میرا گھوڑا مجھے تیزی کے ساتھ دوڑائے لیے جا رہا تھا ۔ آخر جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قراءت سنی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کسی طرف بھی کوئی توجہ نہیں کر رہے تھے لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بار بار مڑ کر دیکھتے تھے ، تو میرے گھوڑے کے آگے کے دونوں پاؤں پھر زمین میں دھنس گئے جب گھوڑا گھٹنوں تک دھنس گیا تو میں اس کے اوپر سے گر پڑا اور گھوڑے کو اٹھنے کے لیے ڈانٹا میں نے اسے اٹھا نے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے پاؤں زمین سے نہیں نکال سکا ۔ بڑی مشکل سے جب اس نے پوری طرح کھڑے ہو نے کی کوشش کی تو اس کے آگے کے پاؤں سے منتشر سا غبار اٹھ کر دھوئیں کی طرح آسمان کی طرف چڑھنے لگا ۔ میں نے تیروں سے فال نکالی اور اس مرتبہ بھی وہی فال آئی جسے میں پسند نہیں کرتا تھا ۔ اس وقت میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو امان کے لئے پکارا ۔ میری آواز پر وہ لوگ کھڑے ہو گئے اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس آیا ۔ ان تک برے ارادے کے ساتھ پہنچنے سے جس طرح مجھے روک دیا گیا تھا ، اسی سے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت غالب آ کر رہے گی ۔ اس لیے میں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ: آپ کی قوم نے آپ کو مارنے کے لیے سو اونٹوں کے انعام کا اعلان کیا ہے ۔ پھر میں نے آپ کو قریش کے ارادوں کی اطلاع دی ۔ میں نے ان حضرات کی خدمت میں کچھ توشہ اور سامان پیش کیا لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے قبول نہیں فرمایا مجھ سے کسی اور چیز کا بھی مطالبہ نہیں کیا صرف اتنا کہا کہ ہمارے متعلق راز داری سے کام لینا لیکن میں نے عرض کیا کہ آپ میرے لئے ایک امن کی تحریر لکھ دیجئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا اور انہوں نے چمڑے کے ایک رقعہ پر تحریر امن لکھ دی ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آگے بڑھ گئے۔ ابن شہاب نے بیان کیا اور انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات زبیر رضی اللہ عنہ سے ہوئی جو مسلمانوں کے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے واپس آ رہے تھے ۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سفید پوشاک پیش کی ۔ ادھر مدینہ میں بھی مسلمانوں کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی مکہ سے ہجرت کی اطلاع ہو چکی تھی اور یہ لوگ روزانہ صبح کو مقام حرہ تک آتے اور انتظار کرتے رہتے لیکن دوپہر کی گرمی کی وجہ سے ( دوپہر کو ) انہیں واپس جانا پڑتا تھا ایک دن جب بہت طویل انتظار کے بعد سب لوگ آ گئے اور اپنے گھر پہنچ گئے تو ایک یہودی اپنے ایک قلعے پر کچھ دیکھنے چڑھا ۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کو دیکھا سفید ، سفید لباس میں چلے آ رہے ہیں ۔ اور ان سے سراب بھی ہٹتی جا رہی ہے، جتنا آپ نزدیک ہو رہے تھے اتنی ہی دور سے پانی کی طرح ریتی کا چمکنا کم ہوتا جاتا ۔ یہودی بے اختیار چلا اٹھا کہ اے عرب کے لوگو ! تمہارے یہ بزرگ سردار آ گئے جن کا تمہیں انتظار تھا ۔ مسلمان ہتھیار لے کر دوڑ پڑے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقام حرہ پر استقبال کیا ۔ آپ نے ان کے ساتھ داہنی طرف کا راستہ اختیار کیا اور بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں قیام کیا ۔ یہ ربیع الاول کا مہینہ اور پیر کا دن تھا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں سے ملنے کے لئے کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش بیٹھے رہے ۔ انصار کے جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا ، وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی کو سلام کر رہے تھے ۔ لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر دھوپ پڑنے لگی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر سایہ کیا ۔ اس وقت سب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پہچان لیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی عمرو بن عوف میں تقریباً دس راتوں تک قیام کیا اور وہ مسجد ( قبا ) جس کی بنیاد تقویٰ پر قائم ہے وہ اسی دوران میں تعمیر ہوئی اور آپ نے اس میں نماز پڑھی پھر ( جمعہ کے دن ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور صحابہ بھی آپ کے ساتھ پیدل روانہ ہوئے ۔ آخر آپ کی سواری مدینہ منورہ میں اس مقام پر آکر بیٹھ گئی جہاں اب مسجد نبوی ہے ۔ اس مقام پر چند مسلمان ان دنوں نماز ادا کیا کرتے تھے ۔ یہ جگہ سہیل اور سہل ( رضی اللہ عنہما ) دو یتیم بچوں کی تھی اور کھجور کا یہاں کھلیان لگتا تھا ۔ یہ دونوں بچے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی پرورش میں تھے جب آپ کی اونٹنی وہاں بیٹھ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ان شاء اللہ یہی ہماری منزل ہے۔ اس کے بعد آپ نے دونوں یتیم بچوں کو بلایا اور ان سے اس جگہ کا معاملہ کرنا چاہا تاکہ وہاں مسجد تعمیر کی جا سکے ۔ دونوں بچوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ہم یہ جگہ آپ کو مفت دے دیں گے ، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مفت طور پر قبول کرنے سے انکار کیا ۔ زمین کی قیمت ادا کر کے لے لی اور وہیں مسجد تعمیر کی ۔ اس کی تعمیر کے وقت خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ اینٹوں کے ڈھونے میں شریک تھے ۔ اینٹ ڈھوتے وقت آپ فرماتے جاتے تھے کہ ” یہ بوجھ خیبر کے بوجھ نہیں ہیں بلکہ اس کا اجر و ثواب اللہ کے ہاں باقی رہنے والا ہے اس میں بہت طہارت اور پاکی ہے “ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دعا فرما تے تھے کہ ” اے اللہ ! اجر تو بس آخرت ہی کا ہے پس ، تو انصار اور مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما “ اس طرح آپ نے ایک مسلمان شاعر کا شعر پڑھا جن کا نام مجھے معلوم نہیں ، ابن شہاب نے بیان کیا کہ احادیث سے ہمیں یہ اب تک معلوم نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شعر کے سوا کسی بھی شاعر کے پورے شعر کو کسی موقعہ پر پڑھا ہو ۔

صحیح البخاری: (3906)

اس واقعہ کے متعلق دین میں رخنے ڈالنے والوں کی طرف سے ایک اعتراض پیش کیا جاتا ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے کہ: وہ کہتے ہیں کہ سیرت کی کتابوں میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب ہجرت کے موقع پر غار میں گئے تو ان کے ساتھ دو اونٹنیاں تھیں، اور قریش ان کا پیچھا بھی کرنے لگے، اور اگر ان کے پاس اونٹنیاں تھیں تو قریش کو معلوم ہو جانا چاہیے تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ابو بکر غار میں ہیں، تو یہ اونٹنیاں کہاں گئیں؟

یہ اعتراض پیش کرنے والے یہ چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کریں؛ کیونکہ ان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت محض افسانوی کرداروں پر مشتمل ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے!

تو ان کے اس اعتراض کا جواب بہت ہی آسان ہے؛ کیونکہ سابقہ روایت جسے معترض حضرات جانتے نہیں ہیں یا جانتے بوجھتے ہوئے بھی اسے سمجھنا نہیں چاہ رہے اسی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے راستوں کے ماہر ایک شخص کی خدمات حاصل کی تھیں جو کہ کفار قریش کے دین پر ہی تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنا ہم سفر بنایا اور اسے اپنی دونوں سواریاں دے کر غار ثور پر تین دن کے بعد اونٹنیاں لانے کا کہا ۔۔۔

تو اس حدیث میں بالکل واضح مسکت اور دندان شکن جواب ہے۔ لیکن اگر پھر بھی کوئی گمراہی پر ڈٹا رہے تو ہم راہِ راست کی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ کی جانب سفر ہجرت میں یہ واقعہ بھی رونما ہوا تھا کہ : ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ غار میں تھا تو آپ سے عرض کیا تھا: اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کی جانب دیکھے تو ہمیں پکڑ سکتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ابو بکر تمہارا ایسے دو لوگوں کے بارے میں کیا گمان ہے جن کے ہمراہ تیسری ذات اللہ تعالی کی ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (3380) اور مسلم : (4389) نے روایت کیا ہے۔

مندرجہ بالا سطور میں سفرِ ہجرت کے مختصر واقعات ذکر کیے گیے ہیں، مزید تفصیلات کے لیے "البداية والنهاية" از: ابن کثیر (4/168-205) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب