سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بڑا اور وسيع گھر خريدنا كب اسراف ميں شامل ہوتا ہے ؟

101903

تاریخ اشاعت : 11-01-2011

مشاہدات : 8264

سوال

ميرى بيوى ہميشہ اصرار كرتى ہے كہ ميں ايك بڑا گھر خريدوں جس ميں سوئمنگ پول بھى ہو اور باغيچہ بھى، ليكن ميں مصر ہوں كہ ہم چھوٹے سے گھر ميں رہيں مثلا تين سونے والے كمرے كا گھر جس ميں زائد تفريحى سامان مثلا سوئمنگ پول اور گارڈن نہ ہو، مجھے يہ بتائيں كہ كيا كرنا چاہيے ؟
ميں اسے زہد پر مجبور نہيں كر سكتا، اور اس اعتبار سے كہ ميں اس كا خاوند ہوں، ہمارا اكٹھے رہنے ميں كوئى مفر نہيں، اور ميں يہ بھى جانتا ہوں كہ زہد اختيار نہ كرنا طلاق كو جائز نہيں كرتا، ليكن ـ جناب مولانا صاحب ـ ميں دنيا ميں نہيں ڈوبنا چاہتا، برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ كيا كيا جائے ؟
اور كيا اگر ميں بيوى كى خواہش كے مطابق نيا گھر خريد لوں تو كيا مجھے اجروثواب حاصل ہوگا ؟
يہ علم ميں رہے كہ ميرے ليے ايك چھوٹے سے گھر ميں رہنے ميں كوئى مانع نہيں، ميں صرف ايك چھت چاہتا ہوں جو مجھے اور ميرے اہل و عيال كو اپنے نيچے جگہ دے، اور كيا مجھ پر يہ قول تو صادق نہيں آئيگا: جنہوں نے اپنى اچھى چيزيں دنيا ميں ہى لے ليں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مسلمان كو نہيں چاہيے كہ وہ دنيا كو اپنا سب سے بڑا مقصد بنا لے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اپنى امت كے فقر و فاقہ كا خدشہ نہيں تھا، بلكہ آپ تو اس كا ڈر ركھتے تھے كہ كہيں ان پر دنيا نہ كھول دى جائے كہ وہ اس ميں ايك دوسرے سے آگے بھاگنے كى كوشش كرنے لگيں تو يہاں ہلاكت ہوگى.

عمرو بن عوف بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ كى قسم ميں تم پر فقر و فاقہ سے نہيں ڈرتا، ليكن تم پر ڈرتا ہوں كہيں تم پر دنيا كى وسعت دے دى جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر تھى، تو تم اس ميں بالكل اسى طرح ايك دوسرے سے آگے نكلنے كى كوشش كرنے لگو جيسے انہوں نے آگے نكلنے كى كوشش كى تھى، تو تمہيں بھى يہ دنيا اسى طرح ہلاك كر دے جس طرح انہيں ہلاك كيا تھا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2988 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2961 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حديث كے فوائد بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

اس ميں يہ فائدہ بھى ہے كہ:

دنيا كے مال و دولت ميں ايك دوسرے سے آگے بڑھنا دين كى ہلاكت كا باعث بن سكتا ہے.

ديكھيں: فتح البارى ( 6 / 263 ).

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

ابن بطال كا كہنا ہے: اس ميں يہ بيان ہوا ہے كہ دنيا كا مال و متاع جس كے ليے زيادہ ہو جائے اسے اس كے برے انجام سے ڈرنا چاہيے، اور اس كے برے فتنہ سے اجتناب كرے، اور وہ اس كى چكا چوند پر مطمئن نہ ہو جائے، اور نہ ہى كسى دوسرے سے اس ميں آگے نكلنے كى كوشش كرے.

ديكھيں: فتح البارى ( 11 / 245 ).

جسے دنيا اس كى آخرت سے مشغول كر دے اور وہ آخرت كو بھول كر دنيا ميں لگ جائے تو وہ دھوكہ كھا گيا، اور پھر دنيا تو ايك كھيل اور تماشہ ہے، اس ميں ہميشہ نہيں رہنا اور نہ ہى كامل ہے، ليكن اس كے مقابلہ ميں آخرت تو بہتر ہے اور ہميشہ باقى رہنے والى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى نے دنيا كى مثال اس نبات كى دى ہے جو بڑھتى اور خوبصورت بن جاتى ہے، ليكن كچھ ہى دير ميں ٹوٹ پھوٹ كا شكار ہو كر بھس بن جاتى ہے جسے ہوا اڑا كر لے جاتى ہے، لہذا انسان كو دنيا ميں نہ تو بقا ہے اور نہ ہى استمرار، اس ليے اس كا نصب العين آخرت ہونى چاہيے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

خوب جان لو كہ دنيا كى زندگى صرف كھيل اور تماشا اور زينت اور آپس ميں فخر ( و غرور ) اور مال و اولاد ميں ايك كا دوسرے سے زيادہ بتلانا ہے، جيسے بار شاور اس كى پيداوار كسانوں كو اچھى معلوم ہوتى ہے، پھر جب وہ خشك ہو جاتى ہے تو زرد رنگ ميں تم اسے ديكھتے ہو، پھر وہ بالكل چورا چورا ہو جاتى ہے، اور آخرت ميں سخت عذاب اور اللہ كى مغفرت اور رضامندى ہے، اور دنيا كى زندگى سوائے دھوكے كے سامان كے اور كچھ بھى نہيں الحديد ( 20 ).

اور ايك مقام پر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

ان كے سامنے دنيا كى زندگى كى مثال بيان كرو جيسے پانى جسے ہم آسمان سے نازل كرتے ہيں اس سے زمين كاسبزہ ملا جلا ( نكلا ) ہے، پھر آخركار وہ چورا چورا ہو جاتا ہے جسے ہوائيں اڑائے ليے پھرتى ہيں، اللہ ہر چيز پر قادر ہے

مال و اولاد تو دنيا كى ہى زينت ہے، اور البتہ باقى رہنے والى نيكياں تيرے رب كے نزديك ازروئے ثواب اور اچھى توقع كے بہت بہتر ہيں الكھف ( 45 - 46 ).

دوم:

جس چيز سے ظاہر ہو جاتا ہے كہ لوگوں كا دنياوى دوڑ ميں ايك دوسرے سے آگے نكلنا انہيں ہلاك كر ديگا: لوگوں كا سودى قرض حاصل كر كے گھر خريدنا شامل ہے! اس طرح ايك شخص دوسرے سے آگے بڑھنے كے ليے گھر بنا كر يا پھر اس كى ترميم و مرمت كر كے يا توسيع كر كے اللہ كى ناراضگى اور غضب مول ليتا ہے.

اور يہى لوگ ہيں جو اس حكم ميں داخل ہو سكتے ہيں كہ انہوں نے اپنى پاكيزہ اشياء دنيا ميں ہى حاصل كر ليں كيونكہ انہوں نے اپنى دنياوى لذت حاصل كرنے كے ليے اور فائدہ كے ليے اللہ تعالى كے ممنوع كردہ كام كا ارتكاب كيا.

ليكن جو شخص حلال مال سے گھر بناتا ہے يا پھر حلال مال سے گھر خريدتا ہے تو يہ شخص ان لوگوں ميں شامل نہيں ہوگا.

سودى بنكوں كے ذريعہ گھر خريدنے كى حرمت ہم سوال نمبر ( 2128 ) اور ( 21914 ) اور ( 22905 ) كے جوابات ميں بيان كر چكے ہيں، آپ ان كا مطالعہ كريں.

سوم:

يہاں سے ہم يہ جان سكتے ہيں كہ فى ذاتہ گھر تعمير كرنے ميں كوئى اجروثواب نہيں ہے، وگرنہ تو وہ مالدار لوگ جو كروڑوں روپے كا گھر اور محلات تعمير كرتے ہيں، يہ لوگ جنت ميں سب سے اعلى اور اونچے درجہ ميں ہوتے!

چنانچہ وہ دينار جو ايك مسلمان شخص اپنا گھر تعمير كرنے كے ليے خرچ كرتا ہے اس كے مقابلہ ميں آخرت ميں كوئى اجروثواب نہيں ملےگا، اميد ہے كہ وہ گناہ سے بچ جائيگا.

كيونكہ اجروثواب تو اسے اس كى نيت پر ہوگا كہ اس نے گھر بناتے وقت اپنے اہل و عيال اور خاندان كو ضائع ہونے سے محفوظ كرنے كے كى نيت كى تھى، اور نہيں ايسى رہائش ميں جگہ دينے كى نيت كى جس ميں ان كى عزت تكريم محفوظ رہ سكے.

ليكن فى ذاتہ گھر بنانے ميں كوئى اجروثواب نہيں بلكہ نيت كا اجروثواب ملےگا، اور اگر نيت اچھى نہيں تو پھر اسراف اور فضول خرچى اور فخر كرنے اور دكھلاوا كرنے كى وجہ سے گناہ ہوگا.

مستقل فتوى اور علمى ريسرچ كميٹى كے علماء نے عمارتيں تعمير كرنے كى احاديث كى تخريج كرنے كے بعد كہا ہے:

يہ اور اس معنى ميں جتنى بھى احاديث وارد ہيں جن ميں كچھ تو صحيح اور كچھ حسن درجہ كى ہيں، اور كچھ صحيح نہيں ہيں، جن ميں حجت اور دليل پائى جاتى ہے وہ احاديث فخر اور دكھلاوا اور اسراف و فضول خرچى كرنے پر محمول كى جائينگى.

كيونكہ يہ حالات اور اشخاص اور جگہوں اور وقت كے مختلف ہونے كے اعتبار سے مختلف ہوگا، صحيح مسلم ميں عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث مروى ہے كہ جب جبريل امين عليہ السلام نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے قيامت كى علامتيں اور نشانياں دريافت كيں تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا:

" تم ديكھو گے كہ ننگے پاؤں اور ننگے جسم بكريوں كے چرواہے لمبى لمبى عمارتيں بنانے ميں فخر كرنے لگيں گے "

اس حديث كى شرح كرتے ہوئے ابن رجب رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس سے مراد يہ ہے كہ كم درجہ كے فقير قسم كے لوگ ان لوگوں كے سردار اور قائد بن جائيں گے، اور ان كے مال زيادہ ہو جائيں گے، حتى كہ وہ لمبى لمبى عمارتيں تعمير كرنے ميں ايك دوسرے سے فخر كرنے لگيں گے، اور انہيں خوبصورت بنائيں گے اور پختہ كريں گے "

امام نووى رحمہ اللہ نے بھى صحيح مسلم كى شرح ميں اس حديث پر بات كرتے ہوئے بھى يہى معنى ذكر كيا ہے.

ليكن جب عمارت كسى شرعى غرض اور مقصد كے ليے لمبى بنائى جائے، مثلا متحاج افراد كے ليے رہائش اور گھر تعمير كرنے، يا پھر انہيں كمائى كا ذريعہ بنانا، يا پھر كثرت عيال كى بنا پر تو ہميں تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ معاملات تو مقاصد پر مبنى ہيں.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

اعمال كا دارومدار نيتوں پر منحصر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى ہو "

اس حديث كو امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ منيع.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 4 / 490 ).

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ہميں بتايا گيا ہے كہ: گھر كے علاوہ ابن آدم كے ہر كام كا اسے اجروثواب حاصل ہوتا ہے، كيا يہ صحيح ہے ؟

اور اگر صحيح ہے تو اس كى علت اور سبب كيا ہے، اس كے ساتھ وہ حديث بھى ذكر كر ديں جس ميں اس ذكر كيا گيا ہے اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

جى ہاں يہ اس شخص كے بارہ ميں وارد ہے جو اپنا مال مٹى ميں صرف كرتا ہے، يعنى ايسى عمارت بنانے ميں جس كى اسے ضرورت نہيں، ليكن جس كى اسے ضرورت ہو تو يہ زندگى كى ضروريات ميں شامل ہوتى ہے.

جب انسان اپنے اوپر خرچ كرے جو ضروريات زندگى ميں شامل ہو تو اسے خرچ كرنے پر اسے اللہ كى رضا كے حصول كى بنا پر اجروثواب حاصل ہوگا؛ ليكن فخر كرنا اور لمبى لمبى عمارتيں كرنے ميں كوئى خير و بھلائى نہيں ہے.

بلكہ اس ميں مال ضائع كرنے كے علاوہ كچھ نہيں ہے، ليكن وہ عمارت جو انسان اپنى ضرورت كے ليے بنائے تو جب وہ اللہ كى رضا چاہےگا تو اسے اس پر اجروثواب حاصل ہوگا كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سعد بن ابى وقاص رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا تھا:

" يہ جان لو كہ تم جو خرچ بھى اللہ كو راضى كرنے كے ليے كرو گے تمہيں اس پر اجروثواب ديا جائيگا، حتى كہ جو تم اپنى بيوى كے منہ ميں لقمہ ركھتے ہو اس كا بھى "

ديكھيں: اللقاء الشھرى ( 15 ) سوال نمبر ( 6 ).

اس مسئلہ ميں علماء كرام كے اقوال اور احاديث ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 21658 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

چہارم:

اس سے آپ كو اس گھر كے بنانے كے حكم كا علم ہو سكتا ہے جو آپ كى بيوى چاہتى ہے كہ ان كے ليے خريدا جائے جسے ہم درج ذيل نقاط ميں پيش كرتے ہيں:

1 ـ گھر حرام مصدر سے خريدنا جائز نہيں، مثلا سودى قرض يا پھر غصب كردہ اموال سے.

2 ـ صرف گھر بنانے پر اجروثواب حاصل نہيں ہوتا، جب تك گھر بنانے والا شخص اپنے اہل و عيال كے سرچھپانے اور انہيں جگہ دينے كى نيت نہ كرے، اور انہيں گرمى و سردى سے محفوظ ركھنے كى نيت نہ ركھتا ہو، اس طرح اسے اس كى نيت پر اجروثواب ہوگا نہ كہ صرف فى ذاتہ گھر بنانے پر.

3 ـ مسلمان كے ليے فخر كرنے اور دكھلاوا كرنے كے ليے گھر بنانا جائز نہيں، اور اگر وہ ايسا كرتا ہے تو يہ گناہ ہے.

4 ـ اس ميں كوئى مانع نہيں كہ گھر سوئمنگ پول يا باغيچہ پر مشتمل ہو، ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں كوئى اسراف اور فضول خرچى اور اس كے حجم اور قيمت ميں مبالغہ نہ كيا گيا ہو، اور پھر وسيع گھر تو صاحب بيت كے ليے سعادت كا باعث ہے.

سعد بن ابى وقاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" چار اشياء سعادت مندى ميں شامل ہوتى ہيں: نيك اور صالح بيوى، اور وسيع گھر، اور نيك و صالح پڑوسى، اور اچھى سوارى، اور چار اشياء بدبختى و نحوست كى علامت ہيں: برا پڑوسى، اور برى بيوى، اور تنگ گھر، اور برى سوارى "

اسے ابن حبان نے صحيح ابن حبان حديث نمبر ( 1232 ) ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 282 ) اور صحيح الترغيب ( 1914 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

مناوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

قولہ صلى اللہ عليہ وسلم:

" وسيع مسكن " يعنى اس ميں رہنے والے كے ليے وہ كثير المنافع ہو، اور اشخاص كے مختلف ہونے كى وجہ سے گھر كى وسعت بھى مختلف ہو گى، كيونكہ ہو سكتا ہے وسيع كسى دوسرے شخص كے ليے تنگ ہو، اور اس كے برعكس بہت سارے تنگ گھر كسى شخص پر وسيع ہوں.

ديكھيں: فيض القدير ( 3 / 302 ).

5 ـ گھر تعمير كرنے كا خرچ، اور گھر خريدنے كے ريٹ ميں اسراف و فضول خرچ كا ضابط اسے خريدنے والے كى حالت كے مطابق ہوگا، مثلا اگر كسى شخص كے پاس ايك سو ملين ريال ہوں تو اگر وہ دو ملين ريال كا گھر خريدتا ہے تو اسے اسراف اور فضول خرچ شمار نہيں كيا جائيگا.

اور اگر كسى شخص كے پاس مال نہيں بلكہ صرف اس كى تنخواہ ہے جو ہر ماہ لے كر وہ خرچ كرتا ہے تو اگر وہ گھر تعمير كرنے يا خريدنے ميں حد سے تجاوز كرتا ہے تو اسے فضول خرچ اور مسرف شمار كيا جائيگا.

چنانچہ گھروں والوں سے مسرف وہ شمار ہوگا جو ايك معقول مقدار سے تجاوز كرے، اور زيادہ منزليں بنائے، يا پھر بغير كسى ضرورت كے كمرے زيادہ تعمير كر لے.

اور فضول خرچ اور مبذر اسے كہا جائيگا جو بغير كسى ضرورت كے ہى گھر بنا لے، يا پھر اس نے مال ميں تساہل سے كام ليتے ہوئے عمارت تعمير كرنے ميں اپنا مال صرف كيا.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

ايك شخص نے دو ملين ريال كا گھر خريدا اور پھر اس ميں چھ لاكھ ريال كا سامان تيار كرايا، اور اس كے بعد تين لاكھ ريال كى گاڑى خريدى تو كيا يہ شخص مسرف اور فضول خرچ شمار كيا جائيگا يا نہيں ؟

اور گھروں كا تحفہ دينے كا حكم كيا ہے ؟ برائے مہربانى ہميں اس كے بارہ ميں معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" الاسراف: حد سے تجاوز كرنا اسراف كہلاتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب عزيز ميں بيان كيا ہے كہ اللہ تعالى اسراف كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا.

اور جب ہم يہ كہيں كہ: حد سے تجاوز كرنا اسراف كہلاتا ہے، تو اس طرح اسراف مختلف ہوگا، كيونكہ كسى ايك شخص كے يہ اسراف ہو سكتا ہے، اور كسى دوسرے شخص كے ليے اسراف نہيں ہو سكتا.

چنانچہ جس شخص نے دو ملين ريال كا گھر خريدا اور اس ميں چھ لاكھ ريال كى سامان ڈالا، اور پھر دو لاكھ ريال كى گاڑى خريدى اگر تو وہ غنى اور مالدار ہے، تو مسرف نہيں كہلائيگا.

كيونكہ بہت زيادہ غنى اور مالداروں كے ليے يہ بہت آسان چيز ہے، ليكن اگر وہ غنى اور مالدار نہيں تو پھر يہ مسرف شمار كيا جائيگا، چاہے يہ لوگوں كے درميانے طبقہ سے تعلق ركھتا تھا، يا پھر فقراء ميں شمار كيا جاتا تھا.

اس ليے كہ بعض فقراء اپنے آپ كو مكمل كرنا چاہتے ہيں تو آپ ديكھيں گے كہ وہ بڑے بڑے محلات خرديتے اور پھر اس ميں بہت بڑى رقم كاسامان ڈالتے ہيں، اس كے ليے اس نے ہو سكتا ہے لوگوں سے قرض حاصل كيا ہو، تو يہ غلط ہے.

لہذا تين قسميں ہوئيں:

پہلى قسم:

بہت زيادہ غنى و مالدار: تو ہم كہيں گے كہ: يہ ـ ہمارے وقت حاضر ميں ، ہم يہ نہيں كہتے كہ ہر وقت ميں ـ جب وہ دو ملين ريال كا گھر خريدتا ہے، اور اس ميں چھ لاكھ ريال كا سامان ڈالے اور دو لاكھ ريال كى گاڑى خريدے تو يہ مسرف نہيں كہلائيگا.

دوسرى قسم:

درميانے طبقہ كا شخص: اس شخص كے حق ميں يہ اسراف شمار ہوگا.

تيسرى قسم:

فقير اور تنگ دست: اس كے حق ميں يہ بےقوفى شمار كى جائيگى؛ كيونكہ وہ اس چيز كے ليے جس كى اسے ضرورت ہى نہيں كس طرح لوگوں سے قرض ليتا پھرتا ہے ؟!

ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 107 ) سوال نمبر ( 4 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب