الحمد للہ.
ظاہر يہى ہوتا ہے كہ نماز جنازہ سے قبل يا فورا بعد اجتماعى دعا كى عادت ـ يعنى ايك شخص دعا كرے اور دوسرے آمين كہيں ـ سنت كى بجائے بدعت كے زيادہ قريب ہے، اس كے بدعت ہونے كے كئى ايك دلائل ہيں:
1 ـ نہ تو ايسا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہى كسى صحابى سے اور نہ ہى اہل علم ميں سے كسى نے يہ عمل كيا، اور جو ايسا ہو تو اس ميں اصل توقف ہے تا كہ كہيں گناہ اور بدعت ميں نہ پڑ جائے اور دين ميں زيادتى كا باعث نہ بنے جائے، مزيد آپ سوال نمبر ( 11938 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
2 ـ اس كو اس سے بھى تقويت ملتى ہے كہ نماز جنازہ تو مشروع ہى ميت كى دعا كے ليے ہوا ہے، جيسا كہ عز بن عبد السلام رحمہ اللہ كا كہنا ہے: نماز جنازہ كا سب سے بڑا مقصد دعا كى قبوليت ہے " انتہى
ديكھيں: قواعد الاحكام ( 44 ).
اس ليے نماز جنازہ سے قبل يا اس كے بعد دعا كى زيادتى كرنا نماز جنازہ ميں زيادتى ہے، اور يہ جائز نہيں، جس طرح فرضى نماز سے قبل يا بعد ركوع يا سجود كى ايجاد كرنا جائز نہيں ہے تو نماز جنازہ كى حالت بھى اسى طرح ہے.
3 ـ سنت نبويہ سے ثابت ہے كہ نماز جنازہ ميں ميت كے ليے پورے اخلاص كے ساتھ زيادہ سے زيادہ دعا كى جائے جس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" جب تم نماز جنازہ ادا كرو تو ميت كے ليے پورے اخلاص كے ساتھ دعا كرو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3199 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور ابو ابراہيم الاشھلى اپنے باپ سے بيان كرتے ہيں انہوں نے فرمايا:
" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز جنازہ پڑھاتے تو آپ يہ دعا پڑھا كرتے تھے:
" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا ، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا ، وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا ، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا "
اے اللہ ہمارے زندہ اور ہمارے فوت شدگان، اور ہمارے حاضر اور ہمارے غائب، اور ہمارے چھوٹے اور ہمارے بڑے، اور ہمارے مردوں اور ہمارى عورتوں كو بخش دے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1024 ) ترمذى نے اسے حسن صحيح اور علامہ البانى نے صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور يزيد بن عبد اللہ بن ركانہ بن مطلب بيان كرتے ہيں كہ:
" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز جنازہ پڑھاتے تو آپ يہ دعا كرتے:
" اللهم عبدك وابن أمتك ، احتاج إلى رحمتك ، وأنت غني عن عذابه ، إن كان محسنا فزد في إحسانه ، وإن كان مسيئا فتجاوز عنه "
اے اللہ يہ تيرا غلام اور تيرى بندى كا بيٹا تيرى رحمت كا محتاج ہے، اور تو اسے عذاب دينے سے غنى ہے، اگر تو يہ اچھا اور نيك تھا تو اس كى نيكيوں ميں اضافہ فرما اور اگر يہ گنہگار تھا تو اس كے گناہوں سے درگزر فرما "
اسے امام حاكم نے المستدرك ( 1 / 511 ) ميں روايت كيا اور اس كى سند كو صحيح قرار ديا ہے، اور امام ذہبى نے اس سے سكوت اختيار كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے احكام الجنائز ( 159 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
ديكھيں يہ احاديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نماز جنازہ ميں ميت كے ليے دعا كا كس طرح وصف بيان كر رہى ہيں، نہ تو نماز جنازہ سے قبل اور نہ ہى نماز جنازہ كے فورا بعد دعا كا ثبوت ملتا ہے.
4 ـ پھر نماز جنازہ كے بعد يا قبل اجتماعى دعا ميں دو خرابياں پائى جاتى ہيں:
پہلى خرابى:
سنت پر عمل سے كوتاہى، كيونكہ جو نماز جنازہ سے قبل دعا ميں مشغول ہو گا تو وہ نماز جنازہ ميں دعا كرتے وقت كوتاہى كريگا، اور جو شخص نماز جنازہ كے بعد دعا كا انتظار كريگا تو وہ نماز جنازہ ميں دعا مانگنے ميں جلدى كريگا، اس كى عادت اپنانے والا شخص آج ايسے ہى كر رہا ہے، كہ ابھى نماز جنازہ كى پہلى تكبير ہى ہوتى ہے اور اس كے فورا بعد دوسرى اور تيسرى كہہ دى جاتى ہے تا كہ سلام پھيرى جا سكے، اور ميت كے ليے چند ايك دعائيہ كلمات ہى كہے جاتے ہيں اگر اس كے ساتھ صدق دل اور حاضر عقل نہ ہو تو ان كا كوئى فائدہ نہيں ہوتا.
اور يہ بالكل حسان بن عطيہ رحمہ اللہ كے قول كے مصداق ہے:
" جو قوم بھى اپنے دين ميں كوئى بدعت ايجاد كر ليتى ہے تو اللہ تعالى اس طرح كى سنت اس سے اٹھا ليتا ہے، پھر قيامت تك وہ ان ميں واپس نہيں كرتا " انتہى
ديكھيں: سنن دارمى ( 1 / 58 ) وہ كہتے ہيں ہميں ابو المغيرہ نے اور انہوں نے اوزاعى سے اور انہوں نے حسان سے بيان كيا، اور اس كى سند صحيح ہے.
دوسرى خرابى:
اس سے مشقت حاصل ہوتى ہے، لوگ ميت كو دفن كرنے كے ليے بہت لمبا وقت انتظار كرتے ہيں، اور ميت كے ليے دفن كے بعد اس كے ليے بخشش طلب كرنا، اور پھر اہل ميت كى حالت كا خيال كرنا، لہذا نماز جنازہ سے قبل يا بعد دعا كے ليے اكٹھے ہونا ان سب امور كے ساتھ ظاہرا مشقت پائى جاتى ہے.
عز بن عبد السلام كہتے ہيں:
" اگر يہ كہا جائے كہ: نماز جنازہ تكرار كے ساتھ ادا كرنا كيوں واجب نہيں كيا گيا حتى كہ قبوليت كا گمان غالب ہو جائے ؟
ہم كہتے ہيں: تكرار سے نہيں ہو گا كيونكہ تكرار ميں مشقت ہے، اور اس ميں غلبہ ظن كا كوئى ضابطہ اور اصول نہيں " انتہى
ديكھيں: قواعد الاحكام ( 45 ).
5 ـ آخر ميں يہ ہے كہ: بدعات كے باب ميں قاعدہ اور اصول وہى ہے جو عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ كا قول ہے:
" سنت نبويہ پر اقتصار كرنا بدعات كى كوشش سے بہتر ہے "
ديكھيں: معجم الطبرانى الكبير ( 10 / 208 ).
لہذا اگر لوگ ثابت شدہ سنت پر عمل كرينگے تو يہ بہتر ہے كہ كسى ايسے معاملہ ميں كوشش كى جائے جس كى بنا پر بدعات ميں پڑھنے كا خدشہ ہو، اور يہ عظيم كلمہ ہے جو سنت اور بدعت كے موضوع كى حقيقت كو سمجھنے كے ليے كافى ہے.
مستقل كميٹى كا ايك فتوى ہے جس ميں نماز جنازہ كے بعد دعا كرنے كى ممانعت كى گئى ہے ـ كيونكہ بعض ممالك ميں نماز كے بعد دعا كى عادت ہے ـ اس طرح نماز جنازہ سے قبل كى دعا ميں قياس كيا جا سكتا ہے:
سوال:
نماز جنازہ كے بعد متصل اجتماعى دعا ميں اختلاف پايا جاتا ہے كچھ لوگ اسے بدعت قرار ديتے ہيں كيونكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام سے ثابت نہيں، اور فقھاء نے اس كے عدم جواز كى صراحت كى ہے، اور ايك گروہ اس كو مستحب اور سنت قرار ديتا ہے يہ بتائيں كہ حق پر كون ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" دعا عبادات ميں سے ايك عبادت ہے، اور عبادات توقيف پر مبنى ہيں، اس ليے كسى بھى شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ ايسى عبادت كرے جو اللہ نے مشروع نہيں كى، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں كہ نماز جنازہ سے فارغ ہو كر صحابہ كرام كے ساتھ مل كر دعا مانگى ہو.
بلكہ يہ ثابت ہے كہ جب دفن كے بعد قبر برابر كر لى جاتى تو آپ فرماتے:
" اپنے بھائى كے ليے بخشش اور ثابت قدمى كى دعا كرو كيونكہ اس وقت اس سے سوال كيا جا رہا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3221 ).
اوپر جو بيان ہوا ہے اس سے واضح ہوا كہ نماز جنازہ سے فارغ ہو كر اجتماعى دعا كرنا جائز نہيں، بلكہ يہ بدعت ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 16 ).
آخر ميں ايك تنبيہ يہ ہے كہ نماز جنازہ سے قبل يا بعد ميں اجتماعى دعا كى عادت بنانا ممنوع ہے، كيونكہ يہ عبادت ميں ظاہرى طور پر زيادتى ہے، ليكن كسى انفرادى شخص كى نماز سے قبل يا بعد يا دفن كے دوران دعا كرنے ميں كوئى حرج اور گناہ نہيں، بلكہ اميد ہے كہ اللہ تعالى اس كى دعا قبول كرے گا اور اس كى شفارش قبول ہو.
شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نماز جنازہ كى سلام كے بعد ميت كے ليے دعا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ يہ دعا اجتماعى شكل ميں نہ ہو كيونكہ ايسا كرنا بدعت ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى سوال نمبر ( 898 ).
واللہ اعلم.