الحمد للہ.
"اول: مریض کے لیے طہارت:
1- مریض پر بھی اسی طرح حدث اصغر اور اکبر سے طہارت حاصل کرنا ضروری ہے جیسے تندرست آدمی پر لازم ہوتا ہے، اس لیے حدث اصغر کی صورت میں وضو کرے اور حدث اکبر کی صورت میں غسل کرے۔
2-جو مریض پیشاب یا پاخانہ کرے تو اس کے لیے پانی سے استنجا کرنا یا مٹی کے ڈھیلے استعمال کرنا یا ان کے قائم مقام [ٹشو پیپر وغیرہ] کا استعمال کرنا لازم ہے۔
مٹی کے ڈھیلے استعمال کرتے ہوئے تین پاک ڈھیلے استعمال کرنا لازم ہے، نیز لید یا ہڈی ، یا کوئی بھی کھانے کی چیز ، اور کوئی بھی قابل احترام چیز استنجا کرنے کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مٹی کے ڈھیلے یا ان سے ملتی جلتی کوئی چیز مثلاً: ٹشو پیپر وغیرہ استعمال کرے اور پھر پانی سے جگہ صاف کرے؛ کیونکہ مٹی کے ڈھیلے سے نجاست زائل ہو گئی اور پانی سے وہ جگہ صاف ہو جائے گی اس طرح اچھی طرح طہارت حاصل ہو گی۔
انسان کو پانی کے ساتھ یا مٹی وغیرہ سے استنجا کرنے کی چھوٹ ہے، اگر ان میں سے کسی ایک پر اکتفا کرنا چاہے تو پانی پر اکتفا کرنا افضل ہے؛ کیونکہ اس سے نجاست بھی زائل ہوتی ہے اور جگہ بھی صاف ہو جاتی ہے حتی کہ نجاست کے اثرات بھی باقی نہیں رہتے، تو پانی زیادہ صفائی کا باعث بنتا ہے، اور اگر ڈھیلے استعمال کرنا چاہے تو تین ڈھیلے کافی ہیں بشرطیکہ جگہ صاف ہو جائے ، اور اگر جگہ تین ڈھیلے استعمال کرنے پر بھی صاف نہیں ہوتی تو پھر چوتھا اور پانچواں ڈھیلا بھی شامل کر لے یہاں تک کہ جگہ صاف ہو جائے، افضل یہی ہے کہ طاق عدد میں ڈھیلے استعمال کرے۔
دائیں ہاتھ سے استنجا کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر بایاں ہاتھ کٹا ہوا ہے، یا ہاتھ ٹوٹا ہوا ہے یا بیماری کی وجہ سے بایاں ہاتھ استعمال نہیں کر سکتا تو پھر ضرورت کی بنا پر دائیں ہاتھ سے استنجا کر لے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
3- اگر مریض میں پانی کے ذریعے وضو کرنے کی استطاعت نہ ہو کہ وہ پانی استعمال نہیں کر سکتا، یا بیماری کے زیادہ ہونے کا خدشہ ہے یا شفا یابی میں تاخیر ہو گی تو پھر وہ تیمم کرے گا۔
تیمم کا طریقہ کار یہ ہے کہ: پاک مٹی پر ایک ہی بار دونوں ہاتھ مارے، اور پھر اپنے چہرے کا مسح انگلیوں سے اور دونوں ہتھیلیوں کی بیرونی سطح کا ایک دوسرے سے مسح کرے۔
کسی بھی پاک چیز پر پڑی ہوئی گرد سے تیمم کرنا جائز ہے چاہے وہ زمین کے علاوہ کوئی اور چیز ہو، مثلاً: دیوار وغیرہ پر گرد پڑی ہو تو اس سے تیمم کرنا جائز ہے، اور اگر تیمم کرنے کے بعد آئندہ نماز تک بھی تیمم باقی رہ جائے تو اگلی نماز اسی تیمم سے وضو کی طرح پڑھ سکتا ہے چاہے ایسے متعدد نمازیں پڑھ لے چنانچہ اس کے لیے ہر نماز کے وقت تجدید تیمم کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ تیمم پانی کا متبادل ہے، اور متبادل چیز کا حکم وہی ہوتا ہے جو اصل کا ہو۔
ہر اس چیز سے تیمم ٹوٹ جاتا ہے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اسی طرح اگر پانی استعمال کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جائے تو تب بھی تیمم ٹوٹ جائے گا، ایسے ہی اگر پانی موجود نہیں تھا اس بنا پر تیمم کیا تو پانی ملنے پر تیمم ختم ہو جائے گا۔
4- اگر بیماری معمولی نوعیت کی ہو کہ پانی استعمال کرنے کی وجہ سے کوئی عضو تلف نہیں ہو گا، نہ ہی شدید بیماری لاحق ہو گی ، نہ ہی شفا یابی میں تاخیر کا خدشہ ہو، نہ ہی تکلیف زیادہ ہونے کا امکان ہو، اور نہ ہی کوئی ناقابل برداشت کسی اور قسم کا نقصان ممکن ہو، جیسے کہ سر درد اور ڈاڑھ درد وغیرہ ۔ یا ایسا شخص ہے کہ وہ گرم پانی استعمال کر سکتا ہے اور گرم پانی کے استعمال سے اسے کوئی نقصان نہیں ہو گا تو ایسے شخص کے لیے تیمم کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہاں تیمم کی اجازت نقصان نہ ہونے کے لیے تھی اور یہاں سرے سے کوئی نقصان ہے ہی نہیں، پھر اس کے پاس پانی بھی ہے تو اس لیے پانی سے اس پر وضو کرنا لازم ہو گا۔
5- جب مریض پر وضو یا تیمم کرنا گراں ہو تو کوئی اور اسے وضو یا تیمم کروائے تو اس طرح اس کا وضو یا تیمم ٹھیک ہو گا۔
6- جس شخص کے جسم پر زخم، یا پھوڑے یا ہڈی ٹوٹی ہوئی ہے، یا اسے ایسا مرض لاحق ہے جو پانی کے استعمال سے مزید بڑھ جائے گا، اور وہ جنبی ہو جائے تو ایسے شخص کے لیے غسل کی جگہ تیمم کرنا جائز ہے۔ اور اگر وہ شخص اپنے جسم کا صحیح حصہ پانی سے دھو سکتا ہو تو اتنے حصے کو دھونا واجب ہو گا اور باقی حصے کے لیے تیمم کرے گا۔
7- اگر کسی شخص کے اعضائے وضو میں سے کسی عضو پر زخم ہو تو اسے پانی سے دھوئے، اور اگر دھونا مشقت کا باعث ہو، یا دھونے کی وجہ سے نقصان کا خدشہ ہو تو پھر پانی سے اس پر مسح اسی وقت کرے گا جب وضو میں اس عضو کو دھونے کی باری آئے گی۔ اور اگر مسح کرنا بھی مشقت یا نقصان کا باعث ہو تو اس عضو کے لیے تیمم کرے تو یہ اس کے لیے کافی ہو گا۔
8- پٹی بندھا ہوا مریض: یعنی ایک مریض کے وضو والے عضو پر چوٹ کی وجہ سے پٹی وغیرہ بندھی ہوئی ہے تو اس پر پانی سے مسح کر لے، یہی مسح اس کے لیے کافی ہے، چاہے پٹی باندھتے وقت مریض حالت وضو میں نہیں تھا۔
9- مریض پر لازم ہے کہ نماز ادا کرتے ہوئے اپنے جسم ، نماز کی جگہ اور کپڑوں کے نجاست سے طاہر ہونے کا خصوصی خیال رکھے، اور اگر ان چیزوں کی مکمل طہارت مشکل ہو تو پھر جیسے ہے ویسے ہی نماز ادا کر لے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
10- اگر مریض کو سلس البول کی بیماری ہے ، علاج معالجے سے بھی اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا، تو وہ ہر نماز کا وقت ہونے پر استنجا کر کے وضو کر لے، جسم اور لباس کے جس حصے پر پیشاب کے قطرے لگیں انہیں دھو لے، یا اگر نمازی کے لیے مشقت کا باعث نہ ہو کہ نماز کے لیے الگ لباس مختص کر دے تو یہ بھی کر سکتا ہے، اور اگر یہ عمل اس کے لیے مشقت کا باعث ہو تو در گزر کیا جائے گا، لیکن پھر بھی جہاں تک ہو سکے نماز کی جگہ ، لباس اور کپڑوں میں پیشاب کے قطرے پھیلنے نہ دے اور اس کے لیے سپاری پر کوئی چیز باندھ دے۔
دوم: مریض کی نماز
1- مریض جہاں تک ممکن ہو سکے کھڑے ہو کر نماز ادا کرے۔
2- اگر کوئی مریض کھڑے ہونے کی استطاعت نہ رکھے تو بیٹھ کر نماز ادا کرے، افضل یہ ہے کہ بیٹھنے کی صورت میں قیام کرتے ہوئے چار زانوں ہو کر بیٹھے ۔
3- اور اگر بیٹھ کر نماز ادا کرنا مشکل ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کرے، اس سلسلے میں مستحب یہ ہے کہ دائیں کروٹ پر نماز ادا کرے۔
4- اور اگر پہلو کے بل بھی نماز ادا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر چت لیٹ جائے اور پاؤں قبلہ رخ کر کے نماز ادا کرے۔
5- اگر کوئی مریض قیام کرنے کی استطاعت تو رکھتا ہے لیکن رکوع یا سجدہ نہیں کر سکتا تو ایسے مریض کے لیے قیام معاف نہیں ہے، بلکہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرے اور رکوع کے لیے اشارہ کرے، اور پھر بیٹھ کر سجدے کے لیے اشارہ کرے۔
6- اگر مریض کی آنکھ میں کوئی مسئلہ ہے اور کسی معتمد معالج نے یہ کہا ہے کہ تم اگر چت لیٹ کر نماز ادا کرو تو تمہارا علاج ممکن ہے وگرنہ نہیں، تو پھر ایسے مریض کے لیے لیٹ کر نماز ادا کرنا جائز ہے۔
7- اگر کوئی شخص رکوع یا سجدہ کرنے سے قاصر ہو تو دونوں اشارے سے ادا کرے گا، اور سجدے کے لیے اشارہ رکوع سے زیادہ جھک کر کرے گا۔
8- اگر کوئی صرف سجدہ نہیں کر سکتا بقیہ پوری نماز صحیح انداز سے ادا کر سکتا ہے تو پھر وہ سجدے کے لیے اشارہ کرے گا۔
9- اگر کوئی مریض اپنی کمر نہ جھکا سکے تو گردن جھکا لے۔ اور اگر کسی کی کمر گول ہو چکی ہے اور وہ رکوع جیسی حالت میں ہی رہتا ہے تو رکوع کے لیے تھوڑا سا مزید جھک جائے، اور سجدے کے لیے جس قدر ممکن ہو سکے اپنے چہرے کو زمین کے قریب تر کر لے۔
10- اگر مریض سر کے ذریعے بھی اشارہ نہ کر سکتا ہو تو تکبیر تحریمہ کہہ کر قراءت شروع کرے، اور دل میں ہی قیام، رکوع، قومے، سجدے، جلسے اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے، اور تشہد کی نیت کرے اور ہر رکن سے تعلق رکھنے والے اذکار اور دعائیں پڑھے، کچھ مریض حضرات انگلی کے اشارے سے نماز پڑھتے ہیں تو اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
11- دوران نماز اگر مریض قیام، قعدہ، رکوع، سجدہ وغیرہ جیسے نماز کے کسی رکن کو ادا کرنے کی صلاحیت پا لے جو وہ پہلے ادا نہیں کر سکتا تھا تو وہ بقیہ نماز میں یہ رکن ادا کرے گا اور سابقہ نماز نہیں دہرائے گا۔ اسی طرح اگر پہلے کسی رکن کے متبادل کے طور پر اشارہ بھی نہیں کر سکتا تھا، لیکن اب اس میں اشارہ کرنے کی صلاحیت آ گئی ہے تو وہ بقیہ نماز میں اشارہ کرے گا۔
12- اگر مریض یا کوئی اور شخص نیند کی وجہ سے نماز نہیں پڑھ سکا، یا نماز بھول گیا تھا تو جیسے ہی نیند سے بیدار ہو یا نماز یاد آئے تو فوری نماز ادا کرے گا۔ یہ جائز نہیں ہے کہ آئندہ روز اسی نماز کے وقت میں نماز کی قضا کرے۔
13- کسی حالت میں بھی نماز ترک کرنے کی چھوٹ نہیں ہے، بلکہ مکلف پر لازم ہے کہ صحت ہو یا بیماری ہر حالت میں نماز ادا کرنے کا پورا اہتمام کرے؛ کیونکہ نماز اسلام کا ستون ہے اور شہادتین کے بعد سب سے عظیم ترین فریضہ ہے، اس لیے کسی بھی مسلمان کے لیے فرض نماز کو ترک کرنا اور نماز کا سارا وقت بغیر نماز کے ضائع کر دینا جائز نہیں ہے چاہے مسلمان بیمار ہی کیوں نہ ہو، جب تک عقل باقی ہے مسلمان پر فرض ہے کہ نماز حسب استطاعت وقت پر ادا کرے، جیسے کہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، چنانچہ کچھ مریض حضرات شفا یابی تک نمازیں مؤخر کر دیتے ہیں اور شفا یاب ہونے پر نمازیں ادا کرتے ہیں یہ جائز نہیں ہے۔ شریعت مطہرہ میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
14- اگر ہر نماز کو اس وقت پر ادا کرنا مریض کے لیے مشقت کا باعث ہو تو مریض ظہر اور عصر جمع کر لے، اور مغرب و عشا حسب راحت جمع تقدیم یا جمع تاخیر کر لے ۔ لہذا عصر کو ظہر کے ساتھ ادا کر لے، اور چاہے تو ظہر عصر کے ساتھ اکٹھی کر لے۔ اسی طرح اگر چاہے تو مغرب کے ساتھ ہی عشا کی نماز ادا کر لے اور اگر چاہے تو مغرب کی نماز عشا کے ساتھ جمع کر لے۔
لیکن فجر کی نماز اکیلی ادا کی جائے گی یہ عشا یا ظہر کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ فجر کی نماز کا وقت پہلے اور بعد والی دونوں نمازوں سے بالکل الگ تھلگ ہے۔
اللہ تعالی عمل کی توفیق دے، اللہ تعالی رحمت و سلامتی نازل فرمائے ہمارے نبی محمد ، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر۔"
الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز الشیخ عبد العزیز آل الشیخ الشیخ عبد اللہ بن غدیان الشیخ صالح الفوزان الشیخ بکر ابو زید ۔
"فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء" (24/405)
واللہ اعلم