اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بہرہ فرقہ كے لوگ اور ان كے عقائد اور ان سے شادى بياہ كا حكم

107544

تاریخ اشاعت : 11-04-2010

مشاہدات : 8801

سوال

ميرا سوال ميرى بيوى اور ميرے متعلق ہے، ہمارا تعلق " بہرہ " فرقہ سے ہے يہ شيعہ گروہ سے تعلق ركھتا ہے اور انٹرنيٹ پر " مومنين ڈاٹ آرگو " اور " معلومات ڈاٹ كام " كے نام سے ويب سائٹ بھى ہے، ميں اس فرقہ كى طرف منسوب تھا ليكن اللہ تعالى نے مجھے ہدايت دى اور ميں صحيح دين پر آ چكا ہوں ميں نے يہ شادى اپنے والدين كى خاطر كى كيونكہ وہ كہتے تھے يہ ايك اچھى لڑكى ہے، اور شادى كے بعد ہر دينى مسئلہ ميں ميرى اطاعت كريگى.
ميں نے قرآن و سنت سے بيان كرنے كى پورى كوشش كى ليكن ابھى تك وہ اس كا انكار كر رہى ہے، ہمارا سب سے بڑا اختلاف يہ ہے كہ: يہ عورت ـ اور عمومى طور پر يہ فرقہ ـ على رضى اللہ تعالى عنہ يا حسين رضى اللہ تعالى عنہ سے مدد مانگتے اور ان كو وسيلہ بناتے ہيں.
ميں اس كى وضاحت كرتے ہوئے يہ كہوں گا كہ مثلا وہ يہ كہتے ہيں: اے اللہ مجھے حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے وسيلہ سے شفا عطا كر، يا ميرى مدد فرما، تو اس طرح حسين اللہ كے پاس جا كر اس كے ليے شفا طلب كرتے ہيں، تو اس طرح شفا مل جاتى ہے، يا پھر مطلوبہ مدد حاصل ہو جاتى ہے.
ميرى بيوى كى اس سے قبل عادت تھى وہ كہا كرتى ہے مدد يا حسين، يا پھر حسين مجھے شفا دو، يا مجھے بچا لو، ميرے اعتقاد كے مطابق تو يہ شرك ہے، ليكن جب ميں نے اس پر يہ واضح كيا كہ ايسا كرنا تو شرك ہے اس طرح وہ ايسا كرنے سے رك گئى، ليكن ابھى بھى وہ آئمہ كرام سے وسيلہ كى قائل ہے اور ان كے وسيلہ سے مانگتى ہے، اور بدعات و خرافات پر عمل كرتى ہے، كيا وسيلہ كى يہ قسم بھى شرك شمار ہوتى ہے ؟
كيا اللہ سبحانہ و تعالى نے كئى ايك آيات ميں يہ بيان كيا ہے كہ ہم اس كے علاوہ كسى اور سے سوال نہ كريں ؟
جو كچھ وسيلہ وغيرہ جيسے فعل كرتى ہے كيا وہ شرك ہے تو كيا اس سے ميرى شادى صحيح ہے، اور كيا شرك كفر ہے، اور كيا كافرہ عورت سے شادى كرنا جائز ہے ؟
ان كے امام اور بڑے مطالبہ كرتے ہيں كہ ان كے سامنے جھكا جائے، اور ان كى قدم بوسى كى جائے، اور قبروں پا جايا جائے، اور فوت شدگان كے سامنے بھى ركوع كيا جائے، اور ان كا اعتقاد ہے كہ يہ لوگ انہيں ہاتھ پكڑ كر جنت ميں لے جائينگے، اور يہ لوگ اذان ميں على رضى اللہ تعالى عنہ كا نام بھى ليتے ہيں، نماز ميں تشہد كے دوران بھى على رضى اللہ تعالى عنہ كا نام ليتے ہيں اور اس كے علاوہ بھى كئى ايك بدعات پر عمل پيرا ہيں، اور يہ بھى كہتے ہيں كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كئى ايك بار على رضى اللہ تعالى عنہ كا نام لے كر اللہ تعالى سے دعا كى تھى، اور اس كے علاوہ ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا اور ابو بكر و عمر اور عثمان رضى اللہ تعالى عنہم پر بھى سب و شتم اور لعن طعن كرتے ہيں.
ان كا كہنا ہے: انہوں نے فاطمہ اور على رضى اللہ تعالى عنہما كو تكليف و اذيت دى تھى، ميں نے جو كچھ اوپر بيان كيا ہے وہ بہت زيادہ خرافات ميں سے بہت ہى قليل سا ہے، اور اب تك ان لوگوں كو حج پر جانے اور اپنے طريقہ پر نماز ادا كرنے كى اجازت حال ہے، اور مكہ ميں بدعات و خرافات كرنے كى كھلى چھٹى ہے.
ميرے بھائى آپ سے گزارش ہے كہ ميرے اس سوال كا جتنى جلدى ہو جواب ديں، كيونكہ اگر اس عورت سے ميرى شادى جائز نہيں تو ميں زنا كر رہا ہوں! اللہ تعالى سے ميرى دعا ہے كہ مجھے اور مومنوں كو شرك اور ہر قسم كے گناہوں سے محفوظ ركھے، اور ہميں جہنم كى آگ سے بچائے، آمين يا رب العالمين.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

الموسوعہ الميسرۃ في الاديان و المذاہب و الاحزاب المعاصرۃ ميں بہرہ كى تعريف كچھ اس طرح كى گئى ہے:

يہ فرقہ اسماعيلى مستعلي فرقہ سے تعلق ركھتا ہے جو كہ امام مستعلى اور اس كے بعد الآمر اور اس كے بعد اس كے بيٹے طيب كى امامت كے قائل ہيں، اسى ليے انہيں الطيبۃ بھى كہا جاتا ہے، يہ برصغير پاك و ہند اور يمن كے اسماعيلى فرقے سے تعلق ركھنے والے افراد ہيں، انہوں نے سياست ترك كر كے تجارت اختيار كى اور ہندوستان پہنچے اور ہندوؤں سے مسلمان ہونے والے افراد سے ميل جول كے بعد يہ بہرہ كے نام سے معروف ہوئے ہيں، اور بہرہ قديم ہندى زبان كا لفظ ہے جس كا معنى تاجر ہے.

ـ امام طيب ( 525هـ ) ميں پردہ پوش ہوا، اور اس كى نسل سے اب تك كسى بھى امام كے متعلق كچھ معروف نہيں، حتى كہ ان كے نام تك غير معروف ہيں، اور بہرہ فرقہ كے علماء كرام خود بھى ان كے متعلق كچھ نہيں جانتے.

ـ بہرہ ميں دو فرقے ہيں:

1 ـ بہرہ داوديہ: يہ قطب شاہ داود كى طرف منسوب ہيں اور برصغير پاك ميں دسویں صدی ہجرى سے پائے جاتے ہيں، ان كا مبلغ بمبئى ميں رہتا ہے .

2 ـ بہرہ سليمانيہ: يہ سليمان بن حسن كى طرف منسوب ہيں، اور ان كا مركز آج تك يمن ميں ہى پايا جاتا ہے. انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الميسرۃ في الاديان و المذاہب و الاحزاب المعاصرۃ ( 2 / 389 ).

دوم:

بہرہ كئى قسم كے منحرف عقائد پر مشتمل ہے اور يہ باطنى ہيں جو كہ شيعہ فرقہ ميں سے ہيں، ليكن ان كا اپنے اماموں كے متعلق غلو رافضى شيعہ سے بھى بڑھ كر ہے، ذيل ميں ہم ان كے چند ايك عقائد پيش كرتے ہيں:

1 ـ يہ مسلمانوں كى مساجد ميں نماز ادا نہيں كرتے.

ـ عقيدہ ميں ظاہرى طور پر يہ سارے معتدل اسلامى فرقوں كے عقائد كے مشابہ ہيں.

3 ـ ان كا باطن كچھ اور ہے، يہ نماز تو ادا كرتے ہيں، ليكن ان كى يہ نماز اپنے امام اسماعيلى كے ليے ہوتى ہے جو طيب بن آمر كى اولاد سے ہے.

4 ـ باقى مسلمانوں كى طرح يہ بھى مكہ مكرمہ حج كرنے جاتے ہيں، ليكن ان كا كہنا ہے كہ كعبہ امام كا نشان ہے. انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الميسرۃ ( 2 / 390 ).

ان كا اپنے اماموں كے بارہ ميں غلو كرنے كى كئى ايك صورتيں ہيں: اس كو سجدہ بھى كرتے ہيں، اور سب مرد و عورت اس كے ہاتھ پاؤں وغيرہ چومتے ہيں، ہم ذيل ميں اس سلسلہ ميں مستقل فتوى كميٹى كے جاردى كردہ بعض فتاوى جات ذكر كرتے ہيں:

1 ـ مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے دريافت كيا گيا:

بہرہ فرقہ كے بڑے علماء اس پر مصر ہيں كہ ان كى اتباع كى جائے اور جب بھى ان كى زيارت كى جائے تو ان كے سامنے سجدہ كيا جائے، كيا ايسا كوئى عمل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم يا خلفاء راشدين كے دور ميں پايا گيا ہے.

ابھى كچھ ايام قبل پاكستان كے ايك معروف اخبار ( 6 / 10 / 1977م ) ميں ايك بہرہ فرقہ سے تعلق ركھنے والے شخص كى تصوير چھپى ہے جو اپنے ايك بڑے عالم دين كو سجدہ كر رہا ہے، آپ كى اطلاع كے ليے ہم اس كى فوٹو كاپى بھى ساتھ ارسال كر رہے ہيں برائے مہربانى اس كے متعلق معلومات فراہم كريں.

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" سجدہ عبادات كى ان اقسام ميں شامل ہوتا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے ليے مخصوص كى ہيں، اور يہ ايك قرب ہے جس كے ليے بندہ اپنے پروردگار اللہ رب العالمين كا قرب حاصل كرتا ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور يقينا ہم نے ہر امت ميں رسول بھيجا كہ ( لوگو! ) صرف اللہ كى عبادت كرو اور اس كے سوا تمام معبودوں سے بچو النحل ( 36 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور آپ سے قبل بھى جو رسول ہم نے بھيجا اس كى طرف يہى وحى نازل فرمائى كہ ميرے سوا كوئى معبود برحق نہيں پس تم سب ميرى ہى عبادت كرو الانبياء ( 25 ).

اور ايك مقام پر ارشاد ربانى اس طرح ہے:

اور دن رات اور سورج و چاند بھى اسى كى نشانيوں ميں سے ہيں، تم نہ تو سورج كو سجدہ كرو اور نہ ہى چاند كو بلكہ سجدہ اس اللہ كے ليے كرو جس نے ان سب كو پيدا كيا ہے، اگر تمہيں اس كى عبادت كرنى ہے حم السجدۃ ( 37 ).

چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے بندوں كو سورج و چاند كے سامنے سجدہ كرنے سے منع فرمايا، كيونكہ يہ دونوں تو اللہ كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى اور مخلوق ہيں، اس ليے يہ نہ تو سجدہ كے مستحق ہيں، اور نہ ہى كسى اور عبادت كے مستحق ہيں.

بلكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو يہ حكم ديا كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى جو كہ ان دونوں يعنى سورج و چاند كو بھى اور دوسرى اشياء كو بھى پيدا كرنے والا ہے صرف اسى كے سامنے سجدہ ريز ہوں، اس ليے اللہ كے علاوہ كسى اور كو سجدہ كرنا حرام بلكہ يہ شرك كہلاتا ہے، لہذا كسى بھى مخلوق كے سامنے سجدہ كرنا صحيح نہيں.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

 كيا تم اس بات سے تعجب كرتے ہو ؟ اور ہنس رہے ہو ؟ اور روتے نہيں ؟ ( بلكہ ) تم كھيل رہے ہو، اب اللہ كے سامنے سجدے كرو، اور ( اسى كى ) عبادت كرو النجم ( 59 - 62 ).

چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے حكم ديا ہے كہ صرف اسى اكيلے كو سجدہ كيا جائے، پھر اللہ عزوجل نے عموم بيان كرتے ہوئے اپنے بندوں كو حكم ديا كہ وہ ہر قسم كى عبادت صرف اللہ وحدہ كى ليے كريں اور عبادت ميں كسى بھى مخلوق كو شريك مت كريں.

چنانچہ جب بہرہ فرقہ كے لوگوں كى حالت يہ ہے جيسا كہ سوال ميں بيان ہوئى ہے: تو ان كا اپنے بزرگوں اور بڑوں كے سامنے سجدہ ريز ہونا ان كى عبادت ہے اور انہيں الہ بنانا ہے، اور انہيں اللہ كے ساتھ شريك بنانے كے مترادف ہے، يا پھر اللہ كے علاوہ انہيں معبود بنانا ہے، اور ان بزرگوں اور بڑوں كا اپنے فرقے كے لوگوں كو ايسا كرنے كا حكم دينا يا پھر ايسا كرنے پر ان بزرگوں اور بڑوں كا راضى ہونا اسے طاغوت بنا ديتا ہے جو اس كى بنفس نفيس عبادت كى دعوت ہے، اس ليے دونوں فريق يعنى تابع اور متبوع دوسرے معنوں ميں جو سجدہ كر رہا ہے اور جو بزرگ سجدہ كروا رہا ہے دونوں ہى اللہ كے ساتھ كفر كا ارتكاب كر كے ملت اسلام سے خارج ہو گئے ہيں، اللہ محفوظ ركھے.

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 2 / 382 - 383 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال بھى دريافت كيا گيا:

سب عورتيں اس كے ہاتھ اور پاؤں چومتى ہيں، كيا اسلام ميں جائز ہے كہ عورت كسى غير محرم عالم دين كا ہاتھ چھوئيں، يہ عمل كسى بڑے عالم دين كے ساتھ خاص نہيں، بلكہ اس عالم دين كے خاندان كے سارے افراد كے ساتھ يہى عمل كيا جاتا ہے ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" اول:

سوال ميں جو يہ بيان ہوا ہے كہ بہرہ فرقہ كى عورتيں اپنے بڑے اور بزرگ عالم كے ہاتھ پاؤں چومتى ہيں، بلكہ عورتيں اس بزرگ كے خاندان كے سارے افراد كى قدم بوسى كرتى ہيں، ايسا كرنا جائز نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اور نہ ہى خلفاء راشدين سے ايسا ثابت ہے كہ عورتيں ان كى قدم بوسى كرتى ہوں؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں مخلوق كى تعظيم ميں غلو ہوتا ہے جو كہ شرك كا ذريعہ بنتا ہے.

دوم:

كسى بھى مرد كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى اجنبى عورت سے مصافحہ كرے، اور نہ ہى اس كے ليے كسى عورت كے جسم كو چھونا جائز ہے؛ كيونكہ اس ميں فتنہ و فساد اور خرابى پائى جاتى ہے؛ اور اس ليے بھى كہ يہ اس كا ذريعہ ہے جو اس سے بھى بڑا شر اور برائى يعنى زنا اور زنا كے وسائل ہيں.

اور پھر صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہجرت كرنے والى عورتوں كا اس آيت سے امتحان ليا كرتے تھے:

 اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جب مومن عورتيں آپ سے ان باتوں پر بيعت كرنے آئيں كہ وہ اللہ كے ساتھ كسى كو شريك نہ كريں گى، اور چورى نہ كريں گى، اور زنا كارى نہ كريں گى، اور اپنى اولاد كو نہ مار ڈاليں گى، اور كوئى ايسا بہتان نہ باندھيں گى جو خود اپنے ہاتھوں پيروں كے سامنے گھڑ ليں اور كسى نيك كام ميں تيرى نافرمانى نہيں كريں گى، تو آپ ان سے بيعت كر ليا كريں، اور ان كے ليے اللہ تعالى سے مغفرت طلب كريں، بيشك اللہ تعالى بخشنے اور معاف كرنے والا ہے الممتحنۃ ( 12 ).

عروہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے فرمايا:

مومن عورتوں ميں سے جو كوئى عورت بھى ان شروط كا اقرار كرتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے فرماتے: " ميں نے تجھ سے بيعت كر لى " يعنى كلام كرتے، اللہ كى قسم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيعت ميں كبھى بھى كسى عورت كا ہاتھ نہيں چھوا، آپ صلى اللہ عليہ وسلم صرف اس طرح بعيت كيا كرتے تھے " ميں نے تجھ سے اس پر بيعت لى "

متفق عليہ ، يعنى اسے صحيح بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عورتوں سے بيعت كرتے وقت مصافحہ نہيں كيا كرتے تھے، بلكہ آپ صرف كلام كے ساتھ ہى بيعت كرتے حالانكہ مصافحہ كا تقاضا بھى موجود تھا، اور پھر آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى عفت و عصمت بھى مسلمہ تھى، اور آپ كى بنسبت خرابى و فتنہ كا بھى كوئى خطرہ نہ تھا ليكن اس كے باوجود رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيعت كرتے وقت عورت سے ہاتھ نہيں ملايا، اس ليے آپ كى امت كو تو بالاولى اجنبى عورتوں كے ساتھ مصافحہ كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے، بلكہ يہ تو ان كے ليے حرام ہے، چہ جائيكہ عورتيں اس شخص اور اس كے خاندان كے باقى افراد كے ہاتھ پاؤں چوميں، صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميں عورتوں ميں سے مصافحہ نہيں كرتا "

اسے نسائى اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے.

اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

 يقينا تمہارے ليے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) ميں بہترين نمونہ ہے الاحزاب ( 21 ).

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 2 / 383 - 385 ).

كميٹى سے درج ذيل سوال بھى دريافت كيا گيا:

بہرہ فرقہ كے بڑے عالم كا دعوى ہے كہ وہ اپنے مريدوں اور متبعين كى نيابت ميں روح اور ايمان ( يعنى دينى عقائد ) كا كلى مالك ہے، اس كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" اگر بہرہ فرقہ كا بڑا عالم وہ دعوى كرتا ہے جو سوال ميں بيان كيا گيا ہے تو اس كا يہ دعوى باطل ہے، چاہے اس كا روح اور ايمان كا مالك ہونے كے دعوى سے مراد يہ ہو كہ ايمان اور روح اس كے ہاتھ ميں ہيں وہ اسے جس طرح چاہے پھير سكتا ہے، اور دلوں كو وہ جس طرح چاہے پھير كر انہيں ايمان كى ہدايت دے يا پھر انہيں سيدھى راہ سے گمراہ كر دے، كيونكہ اس كا مالك تو صرف اللہ عزوجل ہے اور اس كے علاوہ كوئى بھى اس كا مالك نہيں؛ اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

چنانچہ جسے اللہ تعالى ہدايت سے نوازنا چاہے اس كا سينہ اسلام كے ليے كھول ديتا ہے، اور جسے وہ گمراہ كرنا چاہے اس كے سينے كو تنگ كر ديتا ہے، جيسے كوئى آسمان ميں چڑھتا ہے،اسى طرح اللہ تعالى ايمان نہ لانے والوں پر ناپاكى مسلط كر ديتا ہے الانعام ( 125 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:

 اللہ تعالى جس كو ہدايت دے تو وہ راہ راست پر ہے، اور جسے وہ گمراہ كر دے، تو اس كے ليے آپ كو كوئى راہنما اور كارساز ملنا ناممكن ہے الكہف ( 17 ).

اس كے علاوہ اس موضوع كى اور بھى بہت آيات ہيں جو اس پر دلالت كرتى ہيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى ہى دلوں كو ہدايت و گمراہى كى طرف پھيرتا ہے اور كوئى نہيں، اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بندوں كے دل اللہ رحمن كى دو انگليوں كے درميان ہيں وہ جس طرح چاہے انہيں پھير ديتا ہے "

صحيح مسلم.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميشہ يہ دعا كيا كرتے تھے:

" يا مقلب القلوب ، ثبِّت قلبي على دينك "

اے دلوں كو پلٹانے والے ميرے دل كو اپنے دين پر ثابت قدم ركھ.

اسے ترمذى نے روايت كيا ہے.

يا بہرہ فرقہ كے اس سردار اور بڑے نے روح اور ايمان كا كلى مالك ہونے سے يہ مراد ليا ہے كہ وہ اپنى جماعت اور افراد كے ايمان كا نائب ہے كہ صرف اس كا ايمان ہى كافى ہے اور انہيں ايمان لانے كى ضرورت نہيں، اور انہيں اس كا ثواب بھى حاصل ہو گا، اور وہ اس طرح عذاب سے بھى نجات حاصل كر ليں گے چاہے وہ برے عمل بھى كرتے رہے اور جرائم كے مرتكب ٹھريں، يہ اعتقاد تو قرآن مجيد ميں بيان كردہ عقيدہ كے خلاف ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

 جو كوئى نيكى كرے تو اس كا اجر اس كے ليے ہے، اور جو وہ برائى كرے اس كا وبال بھى اسى پر ہے البقرۃ ( 286 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد ربانى كچھ اس طرح ہے:

 ہر شخص اپنے اپنے اعمال كا گروى ہے الطور ( 21 ).

اور ايك جگہ اللہ رب العزت كا فرمان اس طرح ہے:

 ہر شخص اپنے اعمال كے بدلے ميں گروى ہے، مگر دائيں ہاتھ والے، كہ وہ باغات و بہشتوں ميں بيٹھے ہوئے گنہگاروں سے سوال كرينگے، تمہيں كس چيز نے دوزخ ميں ڈالا ؟ المدثر ( 38 - 42 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

 جوئى كوئى بھى برا عمل كريگا اسے اس كى سزا دى جائيگى، اور وہ اللہ كے علاوہ كوئى بھى دوست نہيں پائيگا اور نہ ہى كوئى مدد گار، اور جو كوئى نيك و صالح علم كريگا چاہے وہ مرد ہو يا عورت اور وہ مومن ہو تو يہ لوگ جنت ميں داخل ہونگے، اور كھجور كى گٹھلى كے سوراخ كے برابر بھى ان كا حق نہ مارا جائيگا النساء ( 123 - 124 ).

اور رب ذوالجلال كا فرمان ہے:

 اور انسان كو وہى كچھ ملے گا جس كى اس نے كوشش و سعى كى ہو گى النجم ( 39 ).

اور ايك جگہ فرمايا:

 اور كوئى بھى جان كسى دوسرے شخص كا بوجھ نہ اٹھائيگا، اور اگر كوئى گراں بار دوسرے كو اپنا بوجھ اٹھانے كے ليے بلائےگا تو وہ اس ميں سے كچھ بھى نہ اٹھائيگا چاہے وہ قريبى رشتہ دار ہى كيوں نہ ہو فاطر ( 18 ).

اس كے علاوہ بھى اس موضوع كے متعلق بہت سارى آيات ہيں جو اس پر دلالت كرتى ہيں كہ ہر انسان كو اس كے عمل كا بدلہ ديا جائيگا چاہے وہ برا عمل ہو يا اچھا، اور اس ليے بھى كہ صحيح حديث ميں رسول كرم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ جب يہ آيت نازل ہوئى:

 اور آپ اپنے قريبى رشتہ داروں كو ڈرائيں الشعراء ( 214 ).

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صفا پہاڑى پر كھڑے ہو كر فرمايا:

" اے قريش كى جماعت ـ يا اس طرح كا كوئى اور كلمہ كہا ـ تم اپنے آپ كو بچا لو ميں اللہ سے تمہارے كچھ كام نہيں آؤنگا، اے عباس بن عبدالمطلب ميں تجھے اللہ سے نہيں بچا سكوں گا، رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى پھوپھى صفيہ ميں اللہ سے تيرے كچھ كام نہيں آ سكوں گا، اے فاطمہ بنت محمد تم ميرے مال سے جو چاہو مانگ لو ميں اللہ سے تيرے كچھ كام نہيں آؤنگا "

متفق عليہ.

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 2 / 385 - 387 ).

اور يہ بھى دريافت كيا گيا:

اس كا دعوى ہے كہ وہ وقف كردہ املاك كا مالك كلى ہے، اور سب صدقات كا اس سے كوئى حساب و كتاب نہيں لے سكتا، اور وہ زمين پر اللہ ہے، اسى طرح ان كے بڑے اور بزرگ طاہر سيف الدين طاہر كا بمبئى ہائى كورٹ ميں عدالت كے سامنے بھى يہى دعوى تھا، اور اسے اپنے پيروكاروں پر پورى قدرت ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

سوال ميں جو بہرہ فرقے كے بڑے كا دعوى بيان كيا گيا ہے كہ " وہ سب وقف كردہ املاك كا مالك كلى ہے، اور وہ سب صدقات پر كوئى حساب نہيں ديگا، اور وہ زمين پر اللہ ہے "

يہ سب دعوے باطل ہيں، چاہے اس كى جانب سے ہوں يا كسى اور كى جانب سے صادر ہوئے ہوں: پہلا دعوى اس ليے باطل ہے كہ:

وقف كردہ بعينہ چيز كسى كى ملكيت نہيں ہوتى، بلكہ اس كا فائدہ اور نفع ملكيت ہوتا ہے، اور وہ اس طرح كہ جس كے ليے وقف كيا گيا ہو اس كا فائدہ اس كو ديا جاتا ہے كسى اور كو نہيں، اس ليے ان بہرہ كا بڑا اور سردار كسى بھى بعينہ وقف كردہ چيز كا مالك نہيں، اور نہ ہى وہ اس كے فائدے كا مالك ہے صرف اس كے فائدہ كے ملكيت اسى چيز كى حاصل ہو گى جو صرف اس كے ليے وقف كى گئى ہو اور وہ اس كا اہل بھى ہو.

رہا دوسرا دعوى كہ: اس كا محاسبہ نہيں كيا جا سكتا: يہ اس ليے باطل ہے كہ ہر شخص كو اس كے اعمال پر اس كا محاسبہ ہو گا كہ وہ صدقات و خيرات وغيرہ ميں كس طرح تصرف كرتا رہا، يہ محاسبہ كتاب و سنت كى نص اور اجماع امت سے ثابت شدہ ہے.

رہا تيسرا دعوى كہ: وہ زمين ميں اللہ ہے: يہ صريحا كفر ہے، اور جو كوئى بھى يہ دعوى كرے وہ طاغوت ہے جو اپنے آپ كو الہ بنانے اور اپنى عبادت كى دعوت دے رہا ہے، اور اس چيز كا بطلان تو ايسا ہے كہ يہ دين كى ضرورى معلوم اشياء ميں شامل ہوتى ہيں اور ہر ايك كو اس كا علم ہے.

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 2 / 387 - 388 ).

كميٹى كے علماء كرام سے يہ بھى دريافت كيا گيا:

اس كا يہ بھى دعوى ہے كہ اسے اس طرح كے اعمال پر اعتراض كرنے والوں سے سوشل بائيكاٹ كرنے كا حق حاصل ہے ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" اگر تو بہر فرقے كے بڑے علماء كا يہى طريقہ اور اوصاف ہيں جو اوپر كئى ايك سوالات ميں بيان ہوئے ہيں: تو اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ اس كے ارتكاب كردہ شركيہ اعمال پر اعتراض كرنے والوں سے برات كا اظہار كرے، بلكہ اسے تو ان كى نصيحت قبول كرنى چاہيے، اور اپنے آپ كو معبود و الہ بنانے سے باز آ جانا چاہيے، اور ايسے دعوؤں سے اجتناب كرنا چاہيے جو اللہ عزوجل كے ليے مخصوص ہيں، اور اللہ كے علاوہ كوئى اور اس سے متصف نہيں ہو سكتا: يعنى الوہيت، اور روح و دلوں كا مالك ہونا يہ سب اللہ عزوجل كے خصائص ميں شامل ہے، اور اس كا اپنے ارد گرد افراد كو اپنى عبادت كى دعوت دينا، اور اس كے اور اس كے خاندان كے افراد ميں غلو كرتے ہوئے ان كے سامنے عاجزى و انكسارى سے جھكنا اور گڑگڑانے كى دعوت دينا بھى جائز نہيں.

بلكہ اس بڑے كے شرك و كفر پر اعتراض كرنے والوں كو چاہيے كہ اگر وہ اپنى گمراہى و ضلالت اور كفر و شرك سے باز نہيں آتا اور ان كى نصيحت قبول نہيں كرتا، اور نہ ہى وہ كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر عمل كرتا ہے تو وہ اس شخص اور اس كے پيروكاروں اور اس طرح كے دوسرے طاغوتوں اور طاغوت كى عبادت كرنے والوں سے براءت كا اظہار كريں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

 اور تم سب اكٹھے ہو كر اللہ كى رسى كو مضبوطى سے تھام لو آل عمران ( 103 ).

اور ايك مقام پر اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

 يقينا تمہارے ليے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) ميں بہترين نمونہ ہے، ہر اس شخص كے ليے جو اللہ تعالى اور آخرت كے دن كى توقع ركھتا اور كثرت سے اللہ كو ياد كرتا ہے الاحزاب ( 21 ).

اور ايك مقام پر ارشاد ربانى كچھ اس طرح ہے:

 اور يقينا ہم نے ہر امت ميں رسول مبعوث كيا كہ لوگو صرف اللہ كى عبادت كرو اور اس كے سوا تمام معبودوں سے بچو النحل ( 36 ).

اور ايك جگہ ارشاد بارى تعالى ہے:

 اور جن لوگوں نے طاغوت كى عبادت سے پرہيز كيا اور اللہ كى عبادت كى طرف متوجہ رہے وہ خوش خبرى كے مستحق ہيں ميرے بندوں كو خوشخبرى سنا ديجئے جو بات كان لگا كر سنتے ہيں، پھر جو بہترين بات ہو اس كى اتباع بھى كرتے ہيں، يہى ہيں وہ جنہيں اللہ تعالى نے ہدايت سے نوازا اور يہى عقلمند ہيں الزمر ( 17 - 18 ).

اور ايك مقام پر فرمايا:

 تمہارے ليے ابراہيم ( عليہ السلام ) اور ان كے ساتھيوں ميں بہترين نمونہ ہے، جبكہ ان سب نے اپنى قوم سے برملا كہہ ديا كہ ہم تم سے اور جن جن كى تم اللہ كے سوا عبادت كرتے ہو ان سب سے بالكل بيزار ہيں اور براءت كا اظہار كرتے ہيں، ہم تمہارے ( عقائد كے ) منكر ہيں، جب تك تم اللہ كى وحدانيت پر ايمان نہ لاؤ ہم ميں اور تم ميں ہميشہ كے ليے بغض و عداوت ظاہر ہو گئى الممتحنۃ ( 4 ).

حتى كہ اللہ عزوجل نے فرمايا:

 يقينا تمہارے ليے ان ميں اچھا نمونہ ( اور عمدہ پيروى ہے خاص كر ) ہر اس شخص كے ليے جو اللہ كى اور قيامت كے دن كى ملاقات كى اميد ركھتا ہو، اور اگر كوئى روگردانى كرے تو اللہ تعالى بالكل بےنياز ہے، اور اسى كى حمد و ثنا ہے الممتحنۃ ( 6 ).

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 2 / 388 - 389 ).

اور آخر ميں مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:

" اگر تو بہرہ فرقے كے بڑے اور رئيس اور اس كے پيروكاروں كا فى الواقع ايسا ہى ہے جيسا كہ آپ نے سوالات ميں بيان كيا ہے تو وہ لوگ كافر ہيں، اور وہ دين اسلام كے اصول و قواعد پر ايمان نہيں ركھتے، اور نہ ہى وہ كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے راہنمائى ليتے اور اس پر عمل كرتے ہيں، اور ان سے كوئى بعيد نہيں كہ يہ لوگ اللہ تعالى اور اس كى كتاب اور رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر سچا ايمان لانے والوں كو تنگ كريں جس طرح ہر امت كے كفار نے اللہ كى جانب سے ان كى ہدايت كے ليے مبعوث كيے گئے رسولوں كے ساتھ كيا اور انہيں ہر طرح سے تنگ و پريشان كيا.

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 2 / 390 ).

بہرہ فرقے كے متعلق مزيد تفصيلى معلومات كے حصول كے ليے خادم حسين الہى بخش كى كتاب " برصغير ميں مسلمان معاشرے كے انحراف پر مغربى فكر كے اثرات " كا مطالعہ ضرور كريں.

سوم:

ہم نے جو كچھ بيان كيا ہے اس سے سب مسلمانوں كے ليے واضح ہو جاتا ہے كہ: بہرہ فرقے كى عورتوں سے نكاح كرنا حرام ہے، اور اسى طرح ان كے مردوں سے اپنى عورتوں كى شادى كرنا بھى حرام ہے، اور يہ فرقہ باطنى ہے جو اسلامى اصولوں كى مخالفت كرتا اور اسلامى بنيادوں كو گراتا ہے.

اور آپ كو بيوى كو چاہيے كہ يا تو وہ اس فرقہ سے مكمل طور پر واضح براءت كا اظہار كرے، اور جن فاسد عقائد پر وہ ہيں ان كى وجہ سے وہ انہيں كافر گردانے, وگرنہ آپ كا اس كے ساتھ رہنا حلال نہيں، اور آپ كا اس سے نكاح فسخ ہو گا، اور آپ كو اس كے كفر و ارتداد كا علم ہو جانے كے بعد اس كے ساتھ رہنا اور اس سے جماع كرنا زنا شمار ہو گا، يہ يہوديہ اور عيسائى عورت كى طرح نہيں؛ كيونكہ وہ تو اہل كتاب ميں شامل ہوتى ہيں، ليكن بہرہ فرقہ تو باطنى اور كافر ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب