جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

دعوتی کاموں کے لیےڈرامے اورفلموں کاحکم

10836

تاریخ اشاعت : 14-09-2003

مشاہدات : 12394

سوال

بچوں اور کم عقلوں کے لیے چھوٹے چھوٹے اسلامی مواد پرڈرامے اورفلمیں بنانے کا حکم معلوم کرنا چاہتا ہوں ( یعنی جوکچھ آیات اوربعض احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتباسات وغیرہ پرمشتمل ہوں ) ؟
میں نے نقلی بال اورمونچھیں لگانے کے بارہ میں آپ کا جواب پڑھا ہے ( یہ حرام ہیں ) میں نے جوکچھ اوپرذکرکیاہےاس کا مفصل جواب چاہتا ہوں اس لیے کہ بہت سے وہ لوگ جوکچھ نہ کچھ دینی امور کا علم رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ چھوٹے بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈرامے جائز ہيں ۔
میں آپ کی بہت زیادہ قدر کرتا ہوں آپ میرے سوال کا جواب جلدی دیں کیونکہ ہمارے پاس بچوں کی کلاس ہے اورہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کی مخالفت سے بچا کر رکھے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں علماء کرام کا اختلاف ہے بعض نے تواسے مطلقا ناجائز قرار دیا ہے اوربعض اسے کچھ شرعی ضوابط کے ساتھ جائز قراردیتے ہیں ، قبل اس کے کہ ہم اس مسئلہ میں اختلاف کا ذکر کریں ایک چيز پرتنبیہ کرنا چاہتے ہيں کہ :

بے حیائ اورمرد وعورت کے اختلاط والے ڈرامے اورفلموں وغیرہ میں توکوئ نزاع اوراختلاف نہيں کہ جوکچھ آج کل ٹی وی سکرین پر آرہا ہے وہ حرام ہے اس کی تحریم میں اہل علم کے درمیان کسی قسم کا کوئ اختلاف نہيں ۔

جس چيز میں اختلاف ہے وہ یہ کہ دویا دوسے زیادہ آدمی لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر کچھ ایسے اعمال یا پھربات چیت کریں جس سے عام لوگوں کو کسی اسلامی شعار یا پھر اسلامی اخلاق کی تعلیم دینی مقصود ہو یا پھراسے فی الواقع دکھانا مقصود ہوکہ اس میں کتنا فساد اوربرائ ہے ۔

یا پھر کسی گزرے ہوۓ اورجو کچھ اس میں عزت ومجد پائ جاتی ہے اسے دکھانے کے لیے اوریاپھر نفس کوراحت وغیرہ دینے کے لیے وہ اپنے آپ کوحقیقی مظہر کے علاوہ بناوٹی مظہرمیں ظاہر کریں ۔

اوراس طرح کے ڈرامے پربھی کچھ ضوابط و قاعدے کا حکم لگایا جاۓ گا کہ اس میں یہ ضوابط پاۓ جائيں :

1 - انبیاء اورصحابہ کرام ، اورشیطانوں اورکفار اورحیوانات کے کردار نہ ادا کیے جائيں اوراسی طرح مرد عورت کااورعورت مرد کا کردار ادا نہ کرے اورغیبی اشیاء اورفرشتوں کا کردار بھی ادا کرنے سے دوررہيں ۔

2 - اللہ تعالی اوراس کی آیات اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اوردینی شعار میں سے کسی بھی شعار کوہنسی مذاق اوراستھزاء کرنے والے شخص کا کردار ادا کرنا بھی جائز نہیں اگرچہ وہ اس میں لوگوں کوتعلیم دینا ہی مقصود ہو پھربھی جائز نہيں نہ تو حقیقی طور پراورنہ ہی بطور مزاح ۔

3 - کسی بھی ایسے کام کا کردار اداکرنا جس میں کوئ حرام کام پایا جاۓ مثلا : جھوٹ اورغیبت ، اورلباس کا غیر شرعی اورلمباہونا وغیرہ

4 - عبادات کا غیرشرعی طریقے پرکردار کرنا اوراس کی مشابہت اختیار کرنا یعنی سنت میں ثابت شدہ طریقے کے علاوہ کوئ اورطریقہ اختیار کرنا ۔

اوراسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ فاسق وفاجر شخصیت کے کردارکی ادائيگی سے بھی دوررہا جاۓ ، یا پھر امت کے اماموں اورعلماء کا کردار ادا کرنے سے بھی بچنا چاہیے کیونکہ خدشہ ہے کہ اس میں ان کی کہیں قدرو منزلت میں کمی اورتوھین نہ ہو ۔

اوربعض معاصر یعنی موجودہ دور کےعلماء کرام نے تو عمومی طورپرڈرامے اورکردار کوحرام قرار دیا ہے ، اوربعض علماء نے اس کو کچھ شروط اورضوابط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے جن میں شیخ محمد بن صالح بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی عنہ شامل ہيں اس مسئلہ میں ان کا فتوی مندرجہ ذیل ہے :

رب المعالمین :

اس میں کوئ شک نہيں کہ دعوت الی اللہ کا کام ایک عبادت ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے حکم بھی دیا ہے :

اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اورموعظہ حسنہ کےساتھ دعوت دو اوران کےساتھ اچھے اوراحسن انداز میں بات چیت کرو ۔

دعوت الی اللہ کا کام کرنے والا انسان دعوت دے کر اللہ تعالی کے حکم کی پیروی اوراس کا تقرب حاصل کرتا ہے ، اوراس میں کوئ شک نہيں کہ دعوت کے لیے سب سے بہتر اوراچھي چيز کتاب اللہ اورسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اس لیے کہ انسانیت کے لیے سب سے عظیم وعظ کتاب اللہ ہی ہے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

اے لوگو ! تہمارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اورسینوں ميں پائ جانے والی بیماری کی شفا آچکی اورمومنوں کے لیے رحمت اورھدایت بھی آچکی ہے ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا :

( سب سے بلیغ قول نصیحت ہے ) ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات اپنے صحابہ کرام کو وعظ ونصیحت کرتے تھے جس کی متعلق صحابہ کرام کا کہنا ہے " اس سے دل دہل جاتے اور آنکھوں سے آنسوں جاری ہوجاتے تھے ۔

اس لیے اگرانسان اس وسیلہ یعنی کتاب اللہ اورسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دعوت کا کام کرے توبلاشک یہ وسیلہ سب سے بہتر اوراچھا وسیلہ ہے ، اوراگر اس وسیلہ کے ساتھ دوسرے مباح اورجائز وسائل بھی ملا لیے جائيں تو اس میں کوئ حرج نہيں ۔

لیکن شرط یہ ہے کہ یہ وسائل کسی بھی حرام چيز پر مشتمل نہ ہو مثلا جھوٹ ، یا پھر کسی کفار وغیرہ کا کردار یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اورصحابہ کرام کے بعد آئمہ کرام کے بارہ میں ڈرامہ بنانا اورکردار ادا کرنا ، یاپھراس طرح کا کوئ اورڈرامہ وغیرہ جس میں کسی آئمہ یا صحابہ کرام کی توھین ہو اورکوئ ان کی حقارت کربیٹھے ۔

اوراسی طرح اس ڈرامہ میں کوئ مرد عورت اور یا پھر کوئ عورت مرد کی مشابہت اختیار نہ کرے اس لیے کہ اس طرح کے کام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت ثابت ہے ، اس لیے ہراس مرد پرجوعورت اوروہ عورت جو مرد کی مشابہت اختیار کریں ان پر لعنت کی جاۓ گي ۔

مھم یہ ہے کہ اگران وسائل میں سے کوئ وسیلہ تالیف کی بنا پر بھی لیا جاۓ جوکہ کسی بھی حرام چيز پر مشتمل نہ ہو تومیرے خیال کے مطابق اس میں کوئ حرج نہیں لیکن کتاب اللہ و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے اعراض کرتے ہوۓ اسے کثرت سے استعمال کرنا دعوت الی اللہ کا وسیلہ ہی بنا لینا کہ لوگ اس کے علاوہ کسی اورچيز سے متاثر ہی نہ ہوں تومیرے خیال میں یہ صحیح نہیں بلکہ حرام ہے ۔

اس لیے کہ دعوتی کاموں میں لوگوں کی کتاب اللہ اورسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اورچیز کی طرف راہنمائ کرنا منکر ہے ، اگرکسی بھی حرام چيز پرمشتمل نہ ہوتواسے بعض اوقات استمال کرنے میں میرے خیال کے مطابق کوئ حرج نہیں ۔ ا ھـ واللہ تعالی اعلم ۔

دیکھيں کتاب :

التمثیل فی الدعوۃ الی اللہ ۔ تالیف : عبداللہ آل ھادی ۔ ( 11/ 66 – 67 - 102 ) ۔

اور اسی طرح کتاب : حکم ممارسۃ الفن فی الشریعۃ : تالیف : صالح غزالی کا بھی مطالعہ کریں ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد