جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

نکاح خوان کا شیعہ لڑکی کے نکاح کرنے سے انکار کا شرعی حکم

10941

تاریخ اشاعت : 13-01-2004

مشاہدات : 11420

سوال

عبدالعزيز بن باز – رحمہ اللہ تعالی – کی جانب سے عزیزہ آنسہ ف ، ح ، ع کی طرف اللہ تعالی اسے اپنی رضا اورخوشنودی کے کام کرنے کی توفیق سے نوازے اوراس کے معاملات میں آسانی پیدا فرمائے اورحالات کی اصلاح کرے ، آمین ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
وبعد :
آپ کا خط مجھے ملا جس میں آپ نے یہ ذکر کیا ہے کہ آپ ایک تئیس برس کی لڑکی ہيں اورداود بوھراوان کے پیروکار شیعہ سے آپ کا تعلق ہے ، اوراس فرقے کا مندوب کینیا میں مقیم ہے جوکینیا کے ممباسا شہر کے نکاح خوان کو آپ کا نکاح پڑھانے سے روک رہا ہے ۔
خط میں آپ نے یہ رغبت ظاہر کی ہے کہ اس کے بارہ میں شرعی حکم بیان کیا جائے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.


بلاشک وشبہ اسلام کی طرف سب منسوب فرقوں کے سربراہوں کا چاہیے کہ وہ سب معاملات میں اسلامی احکام پر چلیں اوراس کی مخالفت کرنے سے بچيں ، شریعت اسلامیہ سے ہمیں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ عورت کے اولیاء پر لازمی اورواجب ہے کہ جب ان کے لیے کوئي کفو اورمناسب دینی رشتہ مل رہا ہو تو وہ لڑکی کی شادی کردیں ۔

کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورتم میں سے جو مرد وعورت بے نکاح ہيں ان کا نکاح کردو ، اوراپنے نیک اورصالح غلام اورلونڈیوں کا بھی ، اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہيں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا ، اللہ تعالی کشادگي والا اورعلم والا ہے

اوراس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے :

( جب تمہارے پاس ایسا شخص آئے جس کے دین اوراخلاق کوتم پسند کرتے ہو تو اس سے ( اپنی لڑکی کی ) شادی کردو ، اگرایسا نہیں کرو گے تو زمین میں بہت زيادہ وسیع وعريض فساد بپا ہوجائے گا ) سنن ترمذی وغیرہ ۔

تو اس بنا پر جب آپ کے سب سے قریبی ولی نے آپ کی کسی ہم پلہ اورمناسب کفو شخص سے شادی کردی تو بہرہ فرقے کے مندوب کو اعترا ض کا کوئي حق نہیں تو اس طرح جب اس نکاح میں سب شرعی شرائط پائي جائيں تو وہ نکاح صحیح ہوگا ، اورنکاح کے لیے ضروری ہے کہ یہ نکاح ممباسہ میں شرعی عدالت کے ذریعہ سے کیا جائے تا کہ بہرہ فرقہ کے مندوب کو اعتراض کرنے کا موقع ہی نہ ملے ۔

اورجب مذکورہ طریقہ سے نکاح ہو تو پھر آپ کی اولاد بھی شرعی اولاد شمار ہوگی نہ کہ بہرہ فرقہ کی کیونکہ بہرہ اورکسی دوسرے کو اس پر اعتراض اورانکار کرنے کا حق حاصل نہيں ہے ، اوراگر آپ کے رشتہ داربھی بہرہ فرقے کے مندوب کو راضي کرنے کےلیے آپ کی شادی نہیں کرتے تو اس طرح ان کی ولایت باطل ہوجائے کہ اوروہ ولی نہیں رہیں گے ۔

اورشرعی قاضی کو نکاح کرنے کا حق حاصل ہوجائے کہ وہ آپ کا عقد نکاح اس لڑکے سے کردے جو آپ کا کفو ہو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جس کوکوئي ولی نہ ہو اس کا حکمران ولی ہو گا ) ۔

اورقاضي حکمران کا نائب ہے جوشادی سے روکنے والے ولی کے قائم مقام ہوگا اوراس ولی کا حکم ایسے ہی جیسے ولی ہے ہی نہیں ۔

اس کے بعد آپ اورآپ جیسے دوسروں کی بھی میری یہ نصیحت ہے کہ آپ بہرہ وغیرہ یا دوسرے شعیہ فرقے سے منسوب ہونا ترک کردیں کیونکہ یہ اسلامی اورطریقہ محمدیہ کے مخالف ہيں کیونکہ اس میں بہت ساری وجوہات پائي جاتی ہيں جس کی بنا پر یہ اسلامی طریقہ کے مخالف ہے تواس لیے ایسے فرقوں کو چھوڑنا واجب اور ضروری ہے ۔

بلکے اسے ترک کرکے اہل سنت والجماعت کے مسلک پر چلنا چاہیے جو کہ کتاب وسنت پرعمل پیرا ہونے والے ہیں اورمنھج سلف اختیار کیے ہوئے ہيں اورصحابہ کرام اوران کے متبعین کے طریقہ کار پر چلتےہیں ۔

میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ وہ اس اوردوسرے گمراہ فرقوں کو ھدایت نصیب فرمائے جو کہ صحیح طریقہ اورراستے سے منحرف ہوچکے ہیں ، اوراللہ تعالی انہیں طریق حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اللہ تعالی ہمیں اورآپ اورباقی سب مسلمانوں کو نجات اوردنیاو آخرت کی سعادت کے کام کرنے کو توفیق دے ، بلاشبہ اللہ تعالی اس پر قادر اورکارساز ہے ۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ .

ماخذ: دیکھیں کتاب مجموع فتاوی ومقالات متنوعۃ لفیضلۃ الشيخ علامہ عبدالعزيز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ تعالی ( 4 / 437 ) ۔