سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بيوى سے دخول كيا تو اسے كنوارى نہ پايا

111329

تاریخ اشاعت : 06-12-2009

مشاہدات : 17798

سوال

ميں نے ايك لڑكى سے اس ليے شادى كى كہ وہ كنوارى ہے اور جب رخصتى ہوئى تو ميں نے اسےكنوارا نہ پايا، چنانچہ اسے طلاق دے دى، اور جو مہر ادا كيا تھا وہ واپس لے ليا، يہ علم ميں رہے اس نے اس رات اقرار كيا تھا كہ اس كے والدين كو اس كا علم تھا، اور وہ اس كو مجھ سے چھپانا چاہتے تھے ہو سكتا ہے وہ اس پر متنبہ نہ ہو.
اور اس نے يہ بھى اقرار كيا كہ اس كے ساتھ يہ قبيح فعل كرنے والا اس كا خالو تھا، اور وہى شخص ہمارى شادى كرانے ميں واسطہ تھا، كيا اس سلسلہ ميں مجھ كچھ لازم آتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بلاشك و شبہ زنا سب سے بڑا فحش كام ہے جس كى شريعت اسلاميہ نے حرمت بيان كى ہے، اور شريعت اسلاميہ نے بہت سارے احكام مشروع كيے ہيں تا كہ اس فحش كام كے درميان آڑ بنيں.

لہذا شريعت اسلاميہ نے اجنبى عورتوں كو ديكھنا، اور انہيں چھونا، اور ان كے ساتھ خلوت كرنا حرام قرار ديا ہے، اور اسى طرح بغير محرم اكيلى عورت كا سفر كرنا بھى حرام كيا ہے، اس كے علاوہ بہت سارے اعمال جو شيطان كى راہ ميں ركاوٹ بنتے ہيں كہ وہ يہ اعمال مسلمانوں كے ليے مزين كر كے پيش كرے.

پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے فحش كام كرنے والے كے ليے شديد اور سخت ترين سزا مقرر كرتے ہوئے غير شادى شدہ زانى كے ليے سو كوڑے، اور شادى شدہ زانى كے ليے موت تك رجم كى سزا مقرر كى.

اس بيوى اور اس كے خالو نے كبيرہ گناہ اور فحش كام زنا جيسے جرم كا ارتكاب كيا اور وہ اس كے گناہ اور وعيد كے مستحق ٹھرے ہيں جو زانيوں كے بارہ ميں وارد ہے، اس ليے انہيں اپنے كيے پر نادم ہو كر توبہ و استغفار كرنا ہوگى.

دوم:

رہا مسئلہ بيوى اور اس كے گھر والوں كا اس كى بكارت زائل ہونے كے مسئلہ كو چھپانا: تو يہ شريعت كے مخالف نہيں كيونكہ اللہ عزوجل سترپوشى كو پسند كرتا ہے، اور ايسا كرنے پر اجروثواب بھى عطا كرتا ہے، اور بيوى كے ليے لازم نہيں كہ وہ اپنى بكارت زائل ہونے كے بارہ ميں خاوند كو بتائے، اگر وہ بكارت چھلانگ لگانے سے يا پھر شديد حيض كى بنا پر يا زنا جس سے وہ توبہ كر چكى ہو كى بنا پر بكارت زائل ہو چكى ہو.

ذيل ميں شيخ ابن باز رحمہ اللہ اور مستقل فتاوى كميٹى كے علماء كے كچھ فتاوى جات پيش كيے جاتے ہيں:

1 ـ مستقل فتاوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ايك مسلمان عورت كى بچپن ميں ايك حادثہ كى بنا پر بكارت زائل ہو گئى، اس كا عقد نكاح ہو چكا ہے، ليكن ابھى رخصتى نہيں ہوئى، اور ايك دوسرى عورت بھى اس جيسى صورت حال سے ہى دوچار ہے؛ اب اس كے ليے ديندار آدميوں كے رشتے آ رہے ہيں، اور يہ دونوں عورتيں اپنے معاملہ ميں پريشان ہيں، ان ميں كون افضل ہوگى، وہ شادى شدہ عورت جو اپنے خاوند كو رخصتى سے قبل اپنى بكارت زائل ہونے كے متعلق بتا دے يا كہ وہ عورت جو اسے چھپا كر ركھے ؟

اور جس كى ابھى شادى نہيں ہوئى كيا وہ اپنے متعلق غلط گمان اور برى خبر پھيلنے كے ڈر سے اس كو چھپا كر ركھے، حالانكہ يہ تو بچپن ميں زائل ہوئى تھى، اور اس وقت وہ مكلف بھى نہ تھى، يا كہ يہ چيز دھوكہ اور فراڈ شمار كى جائيگى، يا پھر وہ اپنے ليے رشتہ آنے والے كو بتا دے يا نہ تا كہ عقد نكاح ہو جائے ؟

كميٹى كے علما كا جواب تھا:

" شرعى طور پر اسے چھپانے ميں كوئى مانع نہيں، پھر اگر دخول اور رخصتى كے بعد خاوند دريافت كرتا ہے تو وہ اسے حقيقت حال كے بارہ ميں بتا دے "

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 5 ).

2 ـ شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر عورت دعوى كرے كہ اس كى بكارت فحش كام كے علاوہ ميں زائل ہوئى ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، يا پھر فحاشى ميں زائل ہوئى ليكن اس كے ساتھ زبردستى اور جبرا يہ كام كيا گيا تو بھى اسے كوئى نقصان نہيں ديگا، جبكہ اس حادثہ كے بعد اسے ايك حيض آيا ہو، يا وہ بيان كرے كہ اس نے توبہ كر لى ہے اور وہ نادم ہے، اور اس نے يہ كام بےوقوفى اور جہالت ميں كيا تھا اور پھر اس سے توبہ بھى كر لى اور وہ اس پر نادم بھى ہے تو اس كو كوئى نقصان نہيں ديگا، اور اسے نشر نہيں كرنا چاہيے، بلكہ اس كى ستر پوشى كى جائے، چنانچہ اگر اس كا ظن غالب ہو كہ وہ سچى ہے اور استقامت اختيار كر چكى ہے تو وہ اسے اپنے پاس باقى ركھے، وگرنہ اسى طرح ستر پوشى كى حالت ميں ہى اسے طلاق دے دے، اور كوئى ايسى چيز ظاہر نہ كرے جو فتنہ و فساد اور شر پھلانے كا باعث ہو.

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 20 / 286 - 287 ).

سوم:

جب خاوند شرط ركھے كہ بيوى كنوارى ہو ليكن اس كے خلاف واضح ہو جائے تو خاوند كو عقد نكاح فسخ كرنے كا حق حاصل ہے، اگر تو دخول اور رخصتى سے قبل ہو تو پھر اسے كوئى مہر نہيں ملےگا، ليكن اگر دخول كے بعد واضح ہو اور بيوى نے دھوكہ ديا ہو تو وہ خاوند كو مہر واپس كريگى، اور اگر اس كے ولى يا كسى اور نے خاوند كو دھوكہ ديا ہو تو وہ خاوند كو مہر واپس كريگا.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر خاوند اور بيوى ميں سے كوئى ايك بھى دوسرے ميں كوئى مقصود صفت كى شرط ركھے مثلا مال اور خوبصورت، اور كنوارہ پن وغيرہ تو يہ صحيح ہے، امام احمد كى صحيح روايت اور امام شافعى كے ہاں صحيح وجہ، اور امام مالك كے ظاہر مسلك كے مطابق شرط ركھنے والے كو يہ شرط مفقود ہونے كى صورت ميں فسخ كا حق حاصل ہے.

اور دوسرى روايت يہ ہے كہ صرف حريت اور دين كى شرط ميں ہى اسے فسخ كا حق حاصل ہوگا اس كے علاوہ نہيں "

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 29 / 175 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب سلامتى يا خوبصورتى و جمال كى شرط ركھى اور بيوى بدصورت نكلى، يا بيوى كے كم عمر نوجوان ہونے كى شرط ركھى تو وہ زيادہ عمر كى بوڑھى نكلى، يا سفيد رنگت كى شرط ركھى ليكن وہ سياہ رنگ كى نكلى، يا كنوارى كى شرط ركھى تو وہ كنوارى نہ نكلى تو اسے نكاح فسخ كرنے كا حق حاصل ہے.

اگر دخول سے قبل ہو تو بيوى كو كوئى مہر نہيں ملےگا اور اگر دخول كے بعد ہو تو اسے مہر ملےگا، اور يہ اس كے ولى كے ذمہ اس صورت ميں جرمانہ ہوگا جب اس نے دھوكہ ديا ہو اور اگر عورت نے خود دھوكہ ديا ہو تو اس كا مہر ساقط ہو جائيگا، يا اگر اس نے قبضہ ميں لے ليا ہو تو وہ اس كو واپس مل جائيگا، امام احمد كى ايك روايت ميں يہى بيان ہوا ہے، اور يہ دونوں ميں زيادہ قياس اور اصول كے اعتبار سے زيادہ اولى ہے جبكہ شرط خاوند نے ركھى ہو "

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 184 - 185 ).

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

جب كسى عورت كى بكارت شرعى يا غيرى شرعى وطئ سے زائل ہو گئى ہو تو دونوں حالتوں ميں جب اس عورت سے عقد نكاح كرے تو شرعى حكم كيا ہو گا:

پہلى حالت:

جب كنوارى اور بكارت كى شرط ركھى گئى ہو ؟

دوسرى حالت:

جب كنوارى كى شرط نہ ركھى ہو تو كيا اسے فسخ نكاح كا حق حاصل ہے يا نہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" فقھاء كے ہاں معروف ہے كہ جب انسان كسى عورت سے كنوارى ہونے كى بنا پر شادى كرے اور كنوارى ہونے كى شرط نہ ركھى ہو تو اسے اختيار نہيں ہوگا؛ اس ليے كہ بعض اوقات تو بكارت تو عورت كا اپنے نفس سے كھيلنے ميں ہى ضائع ہو جاتى ہے، يا پھر تيز چھلانگ لگانے سے پردہ بكارت پھٹ جاتا ہے، يا پھر اس سے جبرا زنا كيا گيا ہو، جب يہ احتمال وارد ہے اور انسان اسے كنوارہ نہ پائے تو مرد كو فسخ نكاح كا حق حاصل نہيں ہے.

ليكن اگر اس نے كنوارہ ہونے كى شرط ركھى اور اسے كنوارہ نہ پايا تو پھر اسے اختيار حاصل ہے.

ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 67 ) سوال نمبر ( 13 ).

اس بنا پر اگر تو آپ نے ان كے ليے شرط ركھى تھى كہ بيوى كنوارى ہو، تو پھر آپ كے ليے مہر واپس لينے كا حق حاصل ہے.

ليكن اگر آپ نے يہ شرط نہيں ركھى تھى تو اگر آپ اس كے ساتھ خوشى كے ساتھ نہيں رہ سكتے تو آپ اسے طلاق دے سكتے ہيں، ليكن آپ كو مہر واپس لينے كا كوئى حق نہيں.

اگرچہ ہم آپ كے ليے يہى اختيار كرتے ہيں كہ اگر اس نے سچى توبہ كر لى ہے اور صحيح راہ اختيار كر چكى ہے تو آپ اسے طلاق مت ديں اور اس كے ساتھ ہى زندگى بسر كريں اور اس كے عيوب كى ستر پوشى كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب