الحمد للہ.
جب نكاح ہو جائے اور خاوند بيوى كو اپنے گھر لے جانا چاہتا ہو تو بيوى كو اس كے ساتھ خاوند كے گھر جانا لازم ہے اور اس كے ليے خاوند سے اپنے آپ كو روكنا اور منع كرنا حرام ہو جاتا ہے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
جب آدمى اپنى بيوى كو اپنے بستر پر بلائے اور وہ آنے سے انكار كر دے اور خاوند اس پر ناراضگى كى حالت ميں رات بسر كرے تو صبح ہونے تك فرشتے بيوى پر لعنت كرتے رہتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3237 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 176 ).
اور اگر بيوى خاوند كو ناپسند كرتى ہے، اور اس كا دل خاوند كے ساتھ رہنے پر نہيں چاہتا تو اللہ تعالى نے اس كى اس سے نكلنے كى راہ بنائى ہے، اور وہ يہ كہ بيوى خاوند سے خلع طلب كرے اور خاوند كا ديا ہوا مہر واپس كر دے، تو اس صورت ميں خاوند كو يہ خلع قبول كرنے اور اسے جدا كرنے كا حكم ديا جائيگا.
كيونكہ بخارى شريف ميں حديث مروى ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:
" ثابت بن قيس رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كرنے لگى:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں ثابت بن قيس كے نہ تو دين ميں كوئى عيب لگاتى ہوں اور نہ ہى اخلاق ميں، ليكن ميں اسلام ميں كفر ناپسند كرتى ہوں "
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا تم اس كا باغ واپس كرتى ہو ؟
تو اس نے كہا: جى ہاں.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اپنا باغ قبول كر لو اور اسے ايك طلاق دے دو
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5273 ).
اور ابن ماجہ ميں ہے:
" ميں اس سے بغض كرتے ہوئے اس كى طاقت نہيں ركھتى "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2056 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور مہر سے زيادہ رقم كى ادائيگى كرنے پر بھى خلع ہو سكتا ہے جب خاوند اور بيوى آپس ميں اس پر راضى ہوں جمہور اہل علم كا قول يہى ہے، اور ابو حنيفہ مالك شافعى رحمہم اللہ كا بھى يہى قول ہے اور امام احمد كا بھى مذہب يہى ہے ليكن ان كے ہاں مكروہ اور صحيح دونوں روايتيں ہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ بيوى كو ديے گئے سے يادہ واپس لے "
يہ قول مہر سے زيادہ ميں خلع كرنے كے صحيح ہونے كى دليل ہے، اور اگر دونوں خاوند اور بيوى كسى چيز پر خلع كرنے ميں تيار ہوں تو يہ جائز ہے، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے.
عثمان اور ابن عمر اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم اور عكرمہ و مجاہد اور قبيصہ بن ذؤيب اور نخعى مالك شافعى اور اصحاب الرائے سے يہى مروى ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اس ليے اگر تمہيں ڈر ہو كہ يہ دونوں اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكيں گے تو عورت رہائى پانے كے ليے كچھ دے ڈالے اس ميں دونوں پر كوئى گناہ نہيں البقرۃ ( 229 ).
ربيع بنت معوذ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" ميں نے اپنے خاوند سے اپنے سر كو باندھنے والے سے بھى كم ميں خلع كيا " تو عثمان بن عفان رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے جائز قرار ديا، اور اس طرح كا معاملہ مشہور ہوتا ہے ليكن پھر بھى كسى نے اس كا انكار نہيں كيا تو اس طرح يہ اجماع بن گيا اور على رضى اللہ تعالى عنہ سے اس كى مخالفت صحيح ثابت نہيں ہے.
جب يہ ثابت ہو گيا تو پھرا خاوند كے ليے جائز نہيں كہ اس نے جو بيوى كو ديا ہے خلع كى صورت ميں اس سے زائد لے سعيد بن مسيب اور حسن، شعبى اور حكم اور حماد، اسحاق اور ابو عبيد كا قول بھى يہى ہے، ليكن اگر وہ ايسا كرتا ہے تو مكروہ ہونے كے باوجود جائز ہو گا، ليكن امام ابو حنيفہ اور مالك اور شافعى رحمہ اللہ اسے مكروہ نہيں كہتے، امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ميں اب تك يہى سنتا رہا ہوں كہ مہر سے زيادہ دے كر خلع كرنا جائز ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 247 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور حنبلى مسلك ميں مشہور يہى ہے كہ جواز اور ممانعت ميں درميانى راہ اختيار كيا جائے ان كا كہنا ہے كہ: خاوند نے جو بيوى كو ديا ہے اس سے زيادہ طلب كرنا مكروہ ہے، اور انسان كو اللہ كا تقوى و ڈر اختيار كرنا چاہيے، اگر عورت كى جانب سے غلطى ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں كہ خاوند جو چاہے طلب كرے، ليكن اگر غلطى اور كوتاہى خاوند ميں ہو، اور اس كوتاہى كى وجہ سے اس كے ساتھ نہيں رہنا چاہتى تو پھر اسے كچھ تخفيف كرنى چاہيے اور اس پر ہى اكتفا كر لے جو آسانى سے ميسر ہو.
پھر يہاں غنى و مالدار اور فقير و تنگ دست عورت ميں بھى فرق ہے، اس كا بھى خاوند كو خيال ركھنا چاہيے " انتہى
ديكھيں: لقاء الباب المفتوح ( 8 / 25 ).
اس بنا پر آپ كے بھائى كے ليے مہر اور اس نے تقريب پر جو اخراجات كيے ہيں طلب كرنا جائز ہيں، خاص كر اگر عورت مالدار ہے، اور اگر وہ اس ميں كچھ كمى كرے اور معاف كر دے تو يہ بہتر ہے.
يہاں ہم ايك تنبيہ كرنا چاہتے ہيں كہ عقد نكاح كے بعد والى مدت كو منگنى كا نام نہيں ديا جاتا بلكہ يہ عقد نكاح كا عرصہ شمار ہوتا ہے.
واللہ اعلم.