ہفتہ 8 جمادی اولی 1446 - 9 نومبر 2024
اردو

کلمہ توحید کی غلط تفسیر اور ایسا گمان کہ یہ کھانے سے کفایت کرتا ہے

11535

تاریخ اشاعت : 25-07-2020

مشاہدات : 13509

سوال

میرے استاد نے مجھے ایک مرتبہ کہا کہ لا الہ الا اللہ کا معنی یہ ہے کہ لا < کوئی بھی قادر نہیں ) الا ( حاجات کو پورا کرنے والا ) الا اللہ (اللہ کے غیر) لیکن اس کے علاوہ بہت سے یہ کہتے ہیں اس کا حقیقی معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اپنی تعلیم میں اس پر بہت اعتماد کرتا ہوں وہ شرح یہ کہتے ہوئے کرتا ہے اول یہ کہ ہماری حاجت ہے کہ ہم زندہ رہیں اور اگر اللہ کے لۓ نہ ہو ( ہو سکتا ہے اس سے اس کا مقصد حاجت ہو ) تو کون اس حاجت کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور وہ یہ بھی کہتا ہے جب انسان لا الہ الا اللہ کے ساتھ زندہ رہنا چاہے تو یہ انسان صوفی ہے اور آج اکثر لوگ صوفیوں کی مخالفت کرتے ہیں تو اس میں آپ کی کیا راۓ ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اما بعد : فرمان باری تعالی ہے :

< اے لوگو تم اللہ تعالی کے محتاج ہو اور اللہ بے نیاز خوبیوں والا ہے >

تو اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ بندے سب معاملات ان کے بقا اور وجود اور نفع اور ہر برائی سے سلامتی میں اللہ تعالی کے محتاج ہیں تو اللہ تعالی ہی یہ سب کچھ دینے اور ہبہ کرنے والا ہے ۔

فرمان ربانی ہے :

< اللہ تعالی وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر رزق سے نوازا پھر وہ تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا >

ارشاد باری تعالی ہے :

< اور جو بھی تمہارے پاس نعمت ہے وہ اللہ تعالی ہی کی طرف سے ہے >

اور وہ سبحانہ وتعالی اپنے بندوں سے غنی اور بے پرواہ ہے ساری اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لۓ حمد و تعریف ہے بندے نہ تو اسے نفع اور نہ ہی نقصان دے سکتے ہیں اگر وہ سب کے سب ایمان لے آئیں تو اس کی بادشاہی میں کچھ اضافہ نہیں کر سکتے اور اگر وہ سب کے سب کافر ہو جائیں تو اس کی بادشاہی میں کچھ کمی نہیں کر سکتے وہ سب جہانوں کا پالنہار اور پہلے اور آخری سب کا رب اور وہی معبود برحق ہے جس کے علاوہ کوئی اور عبادت کا مستحق نہیں اس کے علاوہ سب معبود باطل ہیں ۔

تو لا الہ الا اللہ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اس کا یہی معنی صحیح ہے اس کا یہ معنی کرنا کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی خالق نہیں یا پھر اللہ تعالی کے علاوہ حاجتوں کو پورا کرنے والا کوئی نہیں بلکہ یہ سب کچھ اس کے معنی میں سے ہے تو معبود برحق ہی ہر چیز کا خالق اور ہر چیز پر قادر ہے تو اس شیخ کا یہ کہنا کہ لا الہ الا اللہ کہ معنی یہ ہے کہ ( اللہ تعالی کے علاوہ کوئی حاجات پوری کرنے والا نہیں ہے ) اگر اس نے اس سے یہ ارادہ کیا ہے یہ کہ اس کے معانی میں سے ہے تو پھر صحیح ہے اور اگر اس سے یہ مقصود ہی یہ لیتا ہے تو یہ باطل ہے کیونکہ اس سے یہی مقصود ہوتا جو کہ شیخ نے کہا ہے تو پھر مشرکوں کو جب نبی صیل اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ لا الہ الا اللہ پڑھ لو تمہیں کامیابی نصیب ہو گی تو وہ اس کے پڑھنے سے نہ رکتے کیونکہ وہ اس کا اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور خالق نہیں ہے لیکن وہ اس کے معنی مقصور کو سمجھتے تھے کہ معبود برحق اللہ کے علاوہ کوئی اور نہیں اسی لۓ انہوں نے اس کلمہ کو نہیں پڑھا ۔

تو اللہ تعالی ہی معبود برحق ہے اور اس کے علاوہ جتنے بھی معبود ہیں وہ سب باطل ہیں اور یہی چیز مشرکوں کے ان معبودوں کے باطل ہونے کا تقاضا کرتی ہے جن کی وہ اللہ تعالی کے علاوہ عبادت کرتے تھے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

< یہ سب اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالی حق ہے اور اس کے سوا جن جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور یقینا اللہ تعالی بہت بلند اور بڑی شان والا ہے >

تو جب مشرکوں کو اس کے معنی کا علم تھا اور وہ یہ جانتے تھے کہ اس کا تقاضا ہے کہ باقی سب معبود باطل ہیں تو اسی وجہ سے وہ کلمہ پڑھنے سے رک گۓ اور انہوں نے ایک دوسرے کو اپنے معبودوں پر جمے رہنے کی تلقین کی ۔

جیسا کہ فرمان ربانی ہے :

< اور کافر کہنے لگے کہ یہ تو ایک جادو گر اور جھوٹا ہے کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کر دیا واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے ان کے سردار یہ کہتے ہوئے چل دیۓ کہ چلو جی اپنے معبودوں پر جمے رہو یقینا اس بات میں تو کوئی غرض ضرور ہے >

تو اس سے آپ کو یہ پتہ چل گیا ہو گا آپ کے استاد کی لا الہ الا اللہ کے معنی میں اکثر مخالفت کرنے والوں کا قول ہی صحیح ہے ۔

اور آپ کے استاد کا یہ قول ( ہماری اللہ تعالی کے طرف حاجت ہے ---- اس قول تک کہ تو اس کے علاوہ کون حاجت روائی کرے گا ) اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ وحدہ ہی ہے جس نے ہمیں یہ زندگی دی ہے اور یہ حق ہے لیکن یہ لا الہ الا اللہ کا معنی نہیں بلکہ اس کا معنی جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور معبود برحق ہی عبادت کا مستحق ہے اور وہی ہے کہ مارتا اور زندہ کرتا ہے تو وہ اللہ تعالی ہے ۔

اور آپ کے استاد کا یہ کہنا کہ (جب انسان چاہے--- اس قول تک کہ اور آج اکثر لوگ صوفیوں کی مخالفت کرتے ہیں )

اگر وہ اس سے یہ مراد لیتا ہے کہ یہ کھانے پینے سے ہمیشہ کے لۓ مستغنی کر دیتا ہے تو یہ باطل ہے کیونکہ لوگوں میں کوئی بھی ایسا نہیں جو کہ کھانے پینے سے مستغنی ہو حتی کہ انبیاء بھی نہیں تو دوسرے کہاں اور اس کا یہ گمان کہ صوفی کھانے پینے کے بغیر زندہ رہ سکتا اور اللہ تعالی کا ذکر اسے ہمیشہ کے لۓ اس سے کافی رہتا ہے تو یہ بھی باطل ہے اور جو اس کہ دعوی کرے وہ کذاب اور جھوٹا ہے ۔

تو اے سائل آپ اس شیخ کے دھوکے میں نہ آئیں یا تو یہ جاہل اور گمراہ ہے اور یا پھر جھوٹا اور دجال ہے تو آپ اس اور اس جیسوں سے بچ کر رہیں ۔

اللہ تعالی سے ہم ہدایت اور توفیق کے طلبگار ہیں ۔ .

ماخذ: الشیخ عبدالرحمن البراک