جمعہ 7 جمادی اولی 1446 - 8 نومبر 2024
اردو

کیا کافر ماحول میں پیدا ہونے والے بچوں پر مسئولیت ہے

11783

تاریخ اشاعت : 21-03-2009

مشاہدات : 17925

سوال

وہ بچے جو کہ مختلف ماحول اور دین میں پیدا ہوئے اور تربیت اور نشوونما پائی تو ان کے نزدیک عادی قیدوں سے سرکشی کرنے کا طبعی میلان ہوتا اور انکے نزدیک کئی قسم کی شخصیات ہوتی ہیں تو وہ بچہ جو کہ ہندو خاندان میں پیدا ہوا تو جب بڑا ہوگا تو ہندو بنے گا۔ اور اسکی بنسبت تو ہندو دین ہی صحیح ہے
تو ہم فرض کرتے ہیں کہ جس شخص کا ایسا حال ہو کہ وہ بچبن سے ہی اسکی طبیعت میں ہندو جڑ پکڑ چکا ہے کہ پہلے بھی اور آخر میں بھی ہندو ہی ہے تو اس نے اسلام کا پیغام پالیا ہے تو وہ کونسے احتمالات ہیں کہ وہ اپنے دین کو چھوڑ کر نئی چیز کو قبول کرے گا؟
تو کیا ایسے شخص کے لئے مسلمان ہونا مشکل نہیں ہوگا جب ہم اسکا مقارنا دوسرے کے ساتھ کرینگے جو کہ مسلمان پیدا ہوا ہے؟
یہ ایک ایسی چیز ہے جو کہ مجھے بہت زیادہ خوف دلاتی ہے اور میں سوچتا ہوں کہ اگر میں اسلام کے علاوہ اور دین پر پیدا ہوا ہوتا تو اب میرا کیا حال ہوتا تو یہ قاعدہ کیوں نہیں کہ ہر فرد کے لئے فرصت حاصل ہوتی کہ وہ چھوٹی عمر میں ہی مسلمان ہونے کے تجربے سے گذر سکے اور اسے قبول کرے؟
تو کیا اس موضوع کا تعلق اللہ تعالی کی مشیت سے ہے روحانی چیز ہے (ہدایت) یا کہ ان کی نفسیات کے ساتھ تعلق ہے۔ آپ سے گذارش کرتا ہوں کہ کتاب وسنت سے مدلیل جواب ارسال کریں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

ارشاد باری تعالی ہے:

"پس آپ یکسو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کردیں اللہ تعالی کی وہ فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ تعالی کے بنائے ہوئے کو بدلنا نہیں یہی دین سیدھا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"

اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے تو اسکے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں) اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

تو صحیح یہی ہے کہ فطرت سے مراد ملت اسلام ہے جیسا کا اس حدیث میں جسے مسلم نے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اس میں آیا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی کا فرمان ہے۔ میں نے اپنے بندوں کو دین حنیف پر پیدا کیا تو شیطان نے انہیں انکے دین سے پھیرادیا اور جو میں نے انکے لئے حلال کیا تھا انہوں نے اسے انکے لئے حرام کردیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ شرک کریں جسکی میں نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔

اور اسکا معنی کہ ہر بچہ ملت اسلام پر پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ اسکی تکوین ایسے ہوتی ہے کہ جب اسکی عقل کھلے اور اس پر اسلام اور اسکا مخالف دین پیش کیا جائے تو وہ دین اسلام کو مخالف پر ترجیح دے گا ۔ جب تک کہ اسے کوئی مانع پیش نہ آئے مثلا خواہشات اور تعصب تو خواہشات کی پیروی اسے باطل کو اختیار کرنے پر ابھارے گا تاکہ وہ کوئی عہدہ اور مال حاصل کرلے اور تعصب اس بات پر ابھارے گا کہ آباء اجداد اور بڑوں کی پیروی کرو اگرچہ وہ ہدایت پر نہ ہی ہوں۔

فرمان ربانی ہے۔

"ہم نے اپنے دادا کو (ایک راہ پر اور) ایک دین پر پایا اور ہم تو انہی کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں"

اور فرمان باری تعالی ہے

"اور وہ کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے اپنے بڑوں اور سرداروں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا"

تو جب ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے تو معلوم ہونا چاہئے کہ ان میں سے جس کے لئے ایسا ماحول مہیا ہوجاتا ہے جو کہ اسکی فطرت کے موافق اور اسے ثابت رکھتا ہے مثلا یہ کہ وہ مسلمان والدین کے گھر میں پیدا ہوا اور مسلمان معاشرے میں پرورش پاتا ہے۔

اور ان میں بعض وہ بھی ہیں جنہیں ایسی چیزیں پیش آتی ہیں جو کہ اس کی فطرت کو بدلنے کا باعث بنتی ہیں مثلا کہ وہ کافر والدین کے گھر پیدا ہو اور کفار میں سے یہودیوں عیسائیوں اور مجوسیوں اور مشرکوں کے درمیان پرورش پاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو اسلام میں پیدا ہوا اور اسے ہدایت وسعادت کے اسباب حاصل ہوئے جو کہ دوسروں کو حاصل نہیں ہوتے جوکہ کافر معاشرے میں پیدا ہوتے اور پرورش پاتے ہیں۔

اور ایمان کی توفیق اور ہدایت کے اسباب میسر ہونے پہ اللہ تعالی کا فضل ہے جسے وہ یہ مہیا کردیتا ہے پھر یہ جاننا ضروری ہے کہ جس نے اپنی فطرت اسلام کو تبدیل کیا اسے اس تبدیل کرنے کے گناہ پر سزا نہیں ہوگی بلکہ اس وقت ہوگی جبکہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچی اور اس نے اس سے اعراض کیا اور اسے تکبر اور اپنے آبا واجداد اور ملک کے دین پر تعصب کرتے ہوئے قبول نہ کیا کیونکہ اس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے ساتھ حجت قائم ہوچکی ہے اور جس پر رسالت کی حجت قائم ہوجائے اور وہ پھر بھی کفر پر اصرار کرتا رہے تو وہ عذاب کا مستحق ہوگا ۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"اور ہم کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتے جب تک کہ رسول نہ بھیج دیں"

اور سوال میں آپکا یہ کہنا کہ (یہ ایک ایسی چیز ہے جو مجھے خوف زدہ کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔) یہ صحیح اور معقول بات ہے تو یہ آپ پر اللہ تعالی کی نعمت ہے کہ آپ دین اسلام پر پیدا ہوئے ہیں اور اگر اور دین پر پیدا ہوتے تو ڈر تھا کہ آپ اس باطل دین پر ہی قائم رہتے لیکن جب اللہ تعالی کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسکے لئے ہدایت کے اسباب میں آسانی پیدا فرما دیتا ہے جو کہ اسے ملت کفر سے نکال کر ملت اسلام کی طرف لے آتے ہیں تو سب امور اللہ تعالی ہی کے لئے ہیں۔

اور سوال میں آپکا یہ کہنا کہ (یہ قاعدہ کیوں نہیں کہ) یہ سوال باطل ہے اور اس کا سبب اللہ تعالی کی مخلوق میں اسکی حکمت اور طریقے سے جہالت ہے۔

اور یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ مستحیل ہے کہ سب کے لئے ایک ہی فرصت ہو باوجود اسکے بشری دین بہت زیادہ ہیں اور پھر اسلام کی ہدایت تو انسان کی مشیت اور اختیار کے ساتھ ہے کیونکہ اللہ تعالی نے انسان کو اس بات کی قدرت دی ہے کہ وہ حق وباطل اور نفع مند اور نقصان دہ چیز کے درمیان اللہ کی دی ہوئی عقل کے ساتھ فرق کرسکے۔

اور ان کے دلائل کے ساتھ جنہیں دے کر رسولوں کو مبعوث کیا گیا۔ اسکے ساتھ یہ کہ بندے کی مشیت اللہ تعالی کی مشیت کے تابع ہے۔ بیشک وہ وہی ہے جو کہ جسے چاہے اپنے عدل وحکمت کے ساتھ گمراہ کردے اور جسے چاہے اپنے فضل وحکمت کے ساتھ ہدایت نصیب کردے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"یہ تو تمام جہان والوں کے لئے نصیحت نامہ ہے (بالخصوص) اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی راہ پر چلنا چاہے اور تم رب العالمین کے چاہے بغیر کچھ بھی نہیں چاہ سکتے" .

ماخذ: الشیخ عبدالرحمن البراک