الحمد للہ.
آپ نے دوسرى شادى كر كے غلطى كى ہے، آپ كے ليے ضرورى تھا كہ آپ اپنےاختيار اور مرضى سے شادى كرتے نہ كہ والدہ كى رغبت اور اختيار سے، اور اسى سبب سے آپ ان مشكلات اور تكليف و عذاب سے دوچار ہو رہے ہيں، اور يہ اس ليے ہے كہ آپ نے عملى طور پر شادى كے معاملہ سے واسطہ پايا ہے اور آپ كو معلوم ہو رہا ہے كہ آپ نے اس عورت پر ظلم كر كے جس كا كوئى قصور نہيں شريعت كى كتنى مخالفت كى ہے كہ اس كے ساتھ آپ كا معاملہ اچھا نہيں.
اس كا حل آپ نے طلب كيا ہے وہ قرآن مجيد ميں موجود ہے:
1 ـ آپ اس كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كريں، اور اسے اس كا قولى اور فعل طور پر حق ديں.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور ان عورتوں كے ليے بھى اسى طرح حق ہيں جس طرح ان پر خاوندوں كے حق ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ البقرۃ ( 228 ).
اور اللہ تعالى كا يہ بھى فرمان ہے:
اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو النساء ( 19 ).
شيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور يہ آيت معاشرت قولى اور معاشرت فعلى دونوں پر مشتمل ہے، اس ليے خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كے اخراجات اور لباس و رہائش كا انتظام كر كے جو اس كى حالت كے لائق ہو حسن معاشرت كرے، اور اس كے ساتھ اچھے طريقہ سے رہے، اسے تكليف نہ دے، اس پر احسان كرے، اور حسن معاملہ سے كام لے اور حسن اخلاق كا مظاہرہ كرے، اور اس كا حق دينے ميں ٹال مٹول سے كام مت لے، اور وہ عورت بھى اسى طرح حسن معاشرت كے ساتھ خاوند كا حق ادا كرے اور يہ سب كچھ عرف اور عادات كے تابع ہے، ہر دور اور ہر جگہ اور ہر حال ميں اس كے جو لائق ہو.
ديكھيں: تيسير اللطيف المنان فى خلاصۃ تفسير الاحكام ( 132 ).
2 ـ اور اگر آپ حسن معاشرت سے اس كے حقوق ادا نہيں كر سكتے تو آپ اس كو چھوڑ ديں اور اس تكليف اور عذاب سے چھٹكارا حاصل كريں، اور نہ ہى اسے تكليف اور عذاب سے دوچار كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تم انہيں اچھى طرح بساؤ يا پھر اچھے طريقہ سے چھوڑ دو البقرۃ ( 231 ).
ہمارے فاضل بھائى ہم آپ كو دو چيزوں كى تنبيہ كرتے ہيں:
پہلى:
ہو سكتا ہے آپ اپنى بيوى كو آپس ميں عدم موافقت كى بنا پر ناپسند كرتے ہوں، ليكن اللہ سبحانہ و تعالى نے تم دونوں كى زندگى ميں عمومى طور پرخير عظيم بنائى ہے، وہ اس طرح كہ تمہيں اس كى دين والى ہونے اور اس كى اطاعت و فرمانبردار ہونے اور اس كى دعا كى بنا پر اللہ بہت روزى عطا فرمائيگا، يا پھر تمہيں اس سے اچھى اور نيك و صالح اولاد ملے گى جو آپ كى دينا و آخرت كے ليے زخيرہ ہو گى.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم انہيں اچھى طرح بساؤ اور حسن معاشرت سے ركھو اگر تم انہيں ناپسند كرو تو ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو اور اللہ تعالى اس ميں خير كثير بنا دے النساء ( 19 ).
حافظ ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" قولہ تعالى:
اگر تم انہيں ناپسند كرو تو ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو اور اللہ تعالى اس ميں خير كثير ركھ دے .
يعنى: ہو سكتا ہے تمہارا انہيں ناپسند كرتے ہوئے بھى اپنے ساتھ ركھنے كا صبر كرنے ميں تمہارے ليے دينا و آخرت ميں خير كثير ہو، جيسا كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے اس آيت كے متعلق كہا ہے وہ يہ كہ:
" وہ اس پر نرمى و عاطفت كرتا ہے تو اللہ تعالى اس سے بچہ عطا فرما دے تو اس بچے ميں خير كثير ہو، اور صحيح حديث ميں ہے:
" كوئى مومن مرد كسى مومن عورت كو ناپسند نہيں كرتا اگر اس سے كسى وجہ سے ناراض ہوگا تو كسى دوسرى وجہ سے راضى بھى ہو جائيگا "
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 243 ).
دوسرى:
يہ لازم نہيں كہ آپ اس سے محبت ہى كريں تا كہ اس كو اس كا حق ديں، بلكہ آپ پر اس كا واجب ہے، حتى كہ اگر آپ اسے ناپسند بھى كرتے ہوں، اور اگر آپ اس كو ناپسند نہ كرتے ہوں جيسا كہ آپ كہہ رہے ہيں تو بالاولى حق كرنا ہوگا، چاہے يہ تكلف كے ساتھ ہى ہو اور اپنے دل كو مجبور كر كے ہى، اور اگر آپ ايسى دوا استعمال كريں جو اس كى عفت و عصمت ميں آپ كى معاونت كريں تو آپ كو كرنا چاہيے اور آپ اسے اس كا حق ديں.
عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے ايك ايسے شخص كو جس نے اپنى بيوى كو طلاق دينے كا ارادہ كر ركھا تھا فرمايا:
" تم اسے طلاق مت دو "
تو اس نےعرض كيا: ميں اسے پسند نہيں كرتا.
عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا:
كيا سارے گھر محبت پر ہى قائم ہيں، اور ديكھ بھال اور مذمت كہاں گئى ؟!!
ديكھيں: عيون الاخبار ابن قتيبۃ ( 3 / 18 ).
معنى يہ ہوا كہ: اپنے دوست اور اپنے گھر والوں كى اذيت پر صبر كرو؛ كيونكہ لوگوں كا اپنے دوستوں اور گھر والوں كے ساتھ حال ايسا ہى ہے جيسا آپ كا ہے.
اور ہو سكتا ہے كچھ لوگ آپس ميں نا چاہتے ہوئے بھى جمع ہو گئے ہوں، اور آپس ميں ان كى نا چاہتے ہوئے بھى محبت ہو جائے، ليكن ان كى ضرورت انہيں ايك دوسرے كے ساتھ جمع كر ديتى ہے !!
لہذا ديكھ بھال سے گھر والے آپس ميں ايك دوسرے پر نرمى اور رحمدلى كرنے لگتے ہيں، اور ہر ايك دوسرے كے متعلق واجب كو پہچاننے لگتا ہے.
اور مذمت جو كہ حرج ہے سے ہر ايك بچتا ہے كہ وہ اپنى راہ كو عليحدہ كر لے، يا پھر اس كے ہاتھوں اجتماعيت نہ ٹوٹ جائے.
ہم جو يہاں كہنا چاہتے ہيں وہ سب يہ ہےكہ:
گھر كى كشتى كو كاميابى كى طرف چلانا ممكن ہے، اور اسے اكٹھا ركھنا بھى ممكن ہے حتى كہ اس ميں سوار سب لوگ اس كشتى سے صحيح سالم اپنى جگہ اتر جائيں، حالانكہ اسے كتنى ہى شديد ہواؤں اور طوفانوں كا سامنا كرنا پڑتا ہے.
اور يہ بھى ممكن ہے كہ ہم كسى دوسرى راہ كى طرف چل نكليں باوجود اس كے كہ كتنى ہى مشكلات اور پھسلن كا سامنا كرنا پڑتا ہے، جب ہم سيكھ ليں كہ ہم نے چلنا كيسے ہے اور ہم راہ ميں ركنے سے اجتناب كرتے رہيں تو كامياب ہيں !!
واللہ اعلم .