الحمد للہ.
اول:
لوگوں کے ہاں لے پالک بچوں اور گود لینے کے متعلق دو تصور پائے جاتے ہیں:
پہلا تصور: یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کریں ان کا بھر پور خیال رکھیں لیکن ان کی ولدیت تبدیل نہیں کرتے۔
دوسرا تصور: یہ ہے کہ بچوں کی تربیت اور دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ اس بچے کی نسبت بھی تبدیل کر کے اس گھرانے کی طرف کر دی جائے جنہوں نے اسے پالا پوسا ہے، اس طرح سے اس بچے کو وہ اپنے گھر کا ایک فرد بنا لیتے ہیں۔
یہ دوسرا تصور بھی ابتدائے اسلام میں جائز تھا، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب منسوب کیا جاتا تھا تو ان کا نام "زید بن محمد" پڑ گیا تھا، اسی طرح سالم رضی اللہ عنہ کو ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب کیا جاتا تھا تو ان کا نام بھی "سالم بن ابو حذیفہ" پڑ گیا تھا، پھر اللہ تعالی نے اس دوسرے تصور کو شریعت سے خارج فرما دیا، اور حکم دیا کہ ہر شخص کو اس کی ولدیت کے نام سے پکارا اور بلایا جائے، اور اگر کسی کے والد کا علم نہ ہو تو پھر ولدیت کے علاوہ کسی اور نسبت کے ذریعے پکارا جائے، مثلاً: کہا جائے : "فلاں جو فلاں کا قریبی ہے" یا "فلاں جو فلاں کا دوست ہے" لوگوں نے اللہ تعالی کے اس فرمان کی تعمیل کرتے ہوئے زید رضی اللہ عنہ کو ان کے والد حارثہ کی جانب منسوب کرنا شروع کر دیا اور سالم رضی اللہ عنہ کو سالم مولی ابو حذیفہ یعنی انہیں ابو حذیفہ کا آزاد کردہ غلام کہہ کر پکارا جانے لگا۔
اللہ تعالی کا یہ فرمان سورت احزاب میں موجود ہے:
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً
ترجمہ: ان کو ان کے باپ کے نام کے ساتھ پکارو اللہ کے نزدیک یہی بات انصاف کے زیادہ قریب ہے اور اگر تمہیں ان کے باپ کا پتہ نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں اور تم سے اس بارے میں اب تک جو غلطیاں ہوئی ہیں ان کا تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ جن باتوں کا تمہارے دلوں نے قصد و ارادہ کر لیا تھا، ان پر تمہاری گرفت ہوگی، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے [الاحزاب: 5]
اس کی وجہ یہ ہے کہ نسب سے بہت سے احکامات تعلق رکھتے ہیں، مثلاً: رضاعت، پرورش، سرپرستی، نفقہ، وراثت، قصاص، چوری کی حد، حد تہمت، گواہی اور دیگر امور کا تعلق نسب سے کافی گہرا ہوتا ہے۔
تاہم پہلا تصور کہ جس میں یتیم یا غریب بچے کی دیکھ بھال اسی طرح کی جاتی ہے جیسے انسان اپنی اولاد کی کرتا ہے اور اس کی ولدیت اور نسب میں کوئی تبدیلی نہیں کرتا، تو یہ حرام نہیں ہے، بلکہ یہ تو جلیل القدر نیکی ہے۔ اس عمل کی اہمیت اس وقت مزید دو چند ہو جاتی ہے جب جنگوں سے متاثر بچوں کی دیکھ بھال کی جائے یا ایسے بچوں کی پرورش کی جائے جن کے خاندان والے کسی حادثے میں فوت ہو جائیں یا جنگ کا نشانہ بن جائیں۔
مذکورہ دونوں تصورات میں گود لینے والا خاندان ، یا بچے کو منہ بولا بیٹا بنانے والا گھرانہ بچے کا حقیقی خاندان نہیں بن جاتا کہ ان کے ساتھ ایسا ہی حسن سلوک، صلہ رحمی اور اطاعت کرے جیسے حقیقی والدین کی ہوتی ہے۔
بچہ گود لینے اور کسی یتیم کی کفالت ذمے لینے کے درمیان فرق جاننے کے لئے آپ سوال نمبر: (5201) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اور اسی مذکورہ دونوں تصورات میں فرق جاننے کے لئے آپ سوال نمبر: (10010) کا جواب ملاحظہ کریں۔
تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ایسے تینوں خاندانوں سے قطع تعلقی کر لی جائے، نہ ہی اس سے ان تینوں خاندانوں سے ملنے جلنے ، حال دریافت کرنے ، صلہ رحمی اور نیکی کرنے کی حرمت کشید کی جائے، بلکہ یہ تو اسلام کی امتیازی خوبی اور اسلام کی بنیادی اخلاقی اقدار میں شامل ہے ؛ کیونکہ اسلام تو اجنبی لوگوں کے ساتھ بھی نیکی اور دیگر مثبت سرگرمیوں کی خوب حوصلہ افزائی کرتا ہے تو پھر جس نے کسی کی تربیت کی ہے، اس کا خیال رکھا ہے اور اپنے سینے کا دودھ پلایا ہے تو اس کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی کی تو بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بلکہ ایسے محسن لوگوں کے حقوق ادا کرنا اور ان کی نیکی کا بدلہ نیکی سے دینے پر ہر سلیم الفطرت شخص یقین رکھتا ہے، اور شریعت بھی اس کی مکمل تائید کرتی ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
هَلْ جَزَاءُ الإِحْسَانِ إِلَّا الإِحْسَانُ
ترجمہ: اور احسان کا بدلہ احسان ہی ہے۔[الرحمن: 60]
ایسے ہی سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص اللہ تعالی کا واسطہ دے کر پناہ طلب کرے، اسے پناہ دے دو۔ جو شخص اللہ تعالی کے نام پر مانگے، اسے دے دو۔ اور جو شخص اللہ تعالی کے نام پر امان مانگے، اسے امان دے دو۔ اور جو شخص تم سے حسن سلوک کرے، اسے اس کا بدلہ دو اور اگر تمہارے پاس بدلہ دینے کو کچھ نہ ہو تو اس کے لیے اتنی دعا کر دو ؛ حتی کہ تمہیں یقین ہو جائے کہ تم نے اس کے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے۔) اس حدیث کو ابو داود: (1762) اور نسائی: (2567) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
علامہ عظیم آبادی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے عون المعبود میں لکھتے ہیں:
"حدیث کے الفاظ: " اور جو شخص تم سے حسن سلوک کرے " اس میں قولی یا فعلی ہر طرح کا حسن سلوک شامل ہے، اور " اس کا بدلہ دو " کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اس شخص نے تمہارے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے تم بھی اس کے ساتھ ایسا ہی اچھا سلوک کرو؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: هَلْ جَزَاءُ الإِحْسَانِ إِلَّا الإِحْسَانُ اور احسان کا بدلہ احسان ہی ہے۔[الرحمن: 60] اور حدیث کے الفاظ: " اور اگر تمہارے پاس بدلہ دینے کو کچھ نہ ہو تو " کا مطلب ہے کہ تمہارے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو تو تم اپنے محسن کے لئے اتنی دعا کرتے رہو کہ تمہیں یقین ہو جائے کہ تم نے اس کا حق ادا کر دیا ہے۔" ختم شد
تو ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ: یہ تمام لوگ محض بچے کو گود لینے سے اور ان کی دیکھ بھال کرنے سے حقیقی ماں باپ جیسے نہیں بن جائیں گے، انہیں وہی شرعی احکامات اور حقوق و واجبات حاصل نہیں ہوں گے جو حقیقی ماں باپ اور اولاد کے درمیان ہوتے ہیں۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام نے [دوسرے تصور کے مطابق] بچے گود لینے کا ذکر کر کے اس کی حرمت بیان کی اور پھر اس کے بعد کہا ہے کہ:
"سابقہ تفصیلات سے یہ واضح ہوا کہ: بچے کی ولدیت تبدیل کر کے پرورش کرنے کے خاتمے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسانیت کو بھی ختم کر دیا گیا۔ اسلامی حقوق، اخوت، محبت، تعلق داری، حسن اخلاق کو بھی ختم کر دیا گیا، نہ ہی اس کا یہ مطلب یہ ہے کہ اعلی اخلاقی اقدار کی کوئی گنجائش نہیں"
الشیخ عبد العزیز بن باز ، الشیخ عبد الرزاق عفیفی ، الشیخ عبد الله بن غدیان ، الشیخ عبد الله بن قعود۔
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 20 / 347 )
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام نے ایک لڑکی کو گود لینے والے مرد سے تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
"اب کوئی آپ کو گود لے کر پالتا ہے ، اس کے پالنے سے آپ اس کی بیٹی نہیں بن جائیں گی، جیسے کہ زمانہ جاہلیت میں ہوا کرتا تھا۔ اب گود لینے کا مقصد نیکی ، چھوٹے بچے کی پرورش، دیکھ بھال ہوتا ہے یہاں تک کہ بچہ بڑا ہو جائے اور سمجھدار بن جائے، اور اپنی زندگی کے معاملات خود سنبھالنے لگے۔ ہم اللہ تعالی سے امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو پالنے والے کی بھی اسی طرح بھلائی فرمائے جیسے اس نے آپ کا بھلا کیا۔ تاہم وہ آپ کا والد نہیں ہے، نہ ہی وہ آپ کا محرم ہے، اس لیے آپ پر لازمی ہے کہ آپ اس سے پردہ کریں، آپ کا معاملہ ان کے ساتھ کسی بھی دوسرے اجنبی مرد جیسا ہے، ساتھ میں انہوں نے آپ سے جو بھلائی کی ہے اس کا بدلہ بھلائی میں دیا جائے لیکن پردے میں رہتے ہوئے، نیز آپ ان کے ساتھ تنہائی میں بھی نہیں رہ سکتیں۔"
الشیخ عبد العزیز بن باز ، الشیخ عبد الرزاق عفیفی ، الشیخ عبد الله بن غدیان ۔
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 20 / 360 )
دوم:
یہاں گود لینے کا جو بھی تصور کار فرما تھا ہر حالت میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس شخص پر اپنے حقیقی والدین کو تلاش کرنا ضروری ہے؛ کیونکہ والدین کے ساتھ شرعی احکامات اور نفسیاتی اثرات منسلک ہیں۔ اور والدین کا اپنے بچے سے بچھڑ جانے کا حقیقی سبب بھی معلوم نہیں ہے، تو ممکن ہے کہ اس شخص کے والدین نفسیاتی اور بدنی طور قابل ترس حالت میں ہوں، اور وہ اپنے بچھڑے ہوئے بیٹے کو مل کر توانا ہو جائیں بالکل ایسے ہی جیسے یعقوب علیہ السلام اور یوسف علیہ السلام کے مابین ہوا تھا۔
والدین سے ملنے اور انہیں دیکھنے کے لئے ان کی تلاش ، اور والدین کا خیال رکھنا یہ فطری معاملہ ہے، اس کے جواز یا وجوب کے لئے کتاب و سنت سے دلائل کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اگر والدین نے قصداً اپنے اس بچے کو آغاز میں دور کیا تھا تب بھی بچے کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان سے دور اور قطع تعلق رہے، اس بارے میں پہلے سوال نمبر: (104768)کے جواب میں تفصیلات گزر چکی ہیں ، آپ اس کا مطالعہ کریں۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک سے متعلق مزید کے لئے آپ سوال نمبر: (22782) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم