سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

قرآن مجید کے پھٹے ہوئے اوراق کو دوبارہ کاغذ بنا کر کسی اور چیز میں استعمال کرنا

126206

تاریخ اشاعت : 23-02-2015

مشاہدات : 16738

سوال

سوال: صنعتی دنیا میں استعمال شدہ کاغذ سے دوبارہ کاغذ بنانے کے منصوبے کام کر رہے ہیں، بعض لوگ ان منصوبوں سے حاصل شدہ منافع کو خیراتی کاموں میں استعمال کرتے ہیں، جبکہ کچھ منصوبے خالص تجارتی بھی ہیں۔۔۔، سوال یہ ہے کہ قرآن مجید کے پھٹے ہوئے اوراق کو استعمال کر کے دوبارہ کاغذ بنا کر کسی اور چیز میں استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟کیا یہ صحیح ہے یا عام مروّجہ طریقوں پر عمل کرتے ہوئے ان اوراق کو ختم ہی کیا جائے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

پھٹے ہوئے قرآن مجید کے اوراق  کو دوبارہ کاغذ بنا کر انہیں کسی اور کام میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ بھی قرآن مجید کے اوراق کی توہین  شمار ہوگا،ان کی حفاظت کے طور پر  یا تو ان اوراق کو جلا دیا جائے، یا کسی پاک جگہ دفن کر دیا جائے تا کہ زمین پر گِرے پڑے نہ رہیں، اور  پاؤں تلے نہ روندے جائیں ۔

صحیح بخاری  (4988) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جس وقت قرآن پاک کے نسخے تیار کرنے کو کہا تو انہیں تیار کر کے ہر علاقے میں ایک ایک نسخہ ارسال کیا، اور اس نسخے کے علاوہ ہر قسم کا قرآنی نسخہ  جلانے  کا حکم دیا"

ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں ایسی کتابوں کو آگ سے جلانے کی اجازت ہے جن میں اللہ کا نام لکھا ہوا ہو، ان کتابوں کو آگ سے اس لئے جلایا جاتا ہے تاکہ انکی بے حرمتی نہ ہو، اور انہیں قدموں تلے نہ روندا جائے، عبد الرزاق نے طاوس کی سند سے بیان کیا ہے کہ وہ : ایسے خطوط کو اکٹھا کر کے جلا دیا کرتے تھے جن میں بسم اللہ لکھی ہوتی تھی، اسی طرح عروہ نے بھی کیا"انتہی ماخوذ از: فتح الباری

اور دائمی فتوی کمیٹی  [دوسرا ایڈیشن](3/40)کے فتاوی میں ہے کہ:
" قرآن کریم کے جو اوراق پرانے ہوچکے ہوں، ان کو یا تو جلا دیا جائے یا پھر کسی پاک جگہ پر دفن کردیا جائے، تاکہ بے حرمتی سے ان کوبچایا جاسکے" انتہی

دائمی  فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے قرآن مجیداور احادیث کی کتابوں کے تلف شدہ کاغذوں کو دوبارہ کاغذ بنانے کے بارے میں پوچھا گیا کہ: کیا مسلمانوں کے لئے جائز ہے کہ ان کاغذوں  کو پورے احترام کے ساتھـ فیکٹری کی مشین میں ڈال دیں اور مشین کیمیکل کے ذریعے سے اس کی ہیئت تبدیل کردے، اور روئی کے مانند ہوجائے اور پھر اس سے نئے کاغذات تیار کر لئے جائیں؟

تو انہوں نے جواب دیا:

پہلی بات: ان اوراق کی حفاظت  اور احترام کرنا واجب ہے جن پر قرآنی آيات لکھی گئی ہوں؛ کیونکہ یہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے، لہذا  ان اوراق کی توہین کرنا یا کسی کو ان کی اہانت کا موقع دینا حرام ہے۔

دوسری بات: کسی بھی غیر مسلم شخص کو قرآن کریم چھونے کا موقع دینا جائز نہیں ہےـ

تیسری بات: ایک مسلمان کے لئے پھٹے ہوئے مصحف اور اوراق سے قرآنی رسم الخط کو زائل کرنا جائز ہے، بلکہ اسے چاہیے کہ قرآن کريم کے احترام کے پيش نظر اور اسے گندگی اور اہانت سے بچانے کی خاطر اسے جلا دے یا پاک زمین میں دفن کر دے۔

اس سے پہلے قرآن کی آیات لکھے ہوئے کاغذوں کو استعمال کرنے كا موضوع اسلامک اسکالرز اتھارٹی کی چھبیسویں نشست میں پیش ہوچکا ہے، اور اجماع سے اس کی ممانعت  کی قرارداد صادر ہو چکی ہے، سعودی عرب کی  وزارت ِ حج واوقاف کے رئیس نے اسی قسم کے  سوال کے جواب ميں جو لکھا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں :

(1) آپ نے آزمائشی پرنٹنگ کے دوران چھپنے والے قرآنی اوراق کے بارے میں جو کيا ہے کہ پہلے ان کاغذوں کو باريک کيا پھر جلا کر پاک جگہ میں دفن کرديا ، یہ نہایت مناسب عمل ہے اور اہل علم کے ذکر کردہ طریقہ کے مطابق بھی ہے؛ اور یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں بھی شامل ہوتا ہے۔

(2) کونسل غدير فیکٹری کی درخواست نا منظور کرتی ہے؛ کیوں کہ اس کے ذریعہ سے کاغذوں پر لکھے گئے کلام اللہ کی توہین اور تحقیر ہوتی ہے" انتہی
فتاوى اللجنة" (4/53 - 55)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب