الحمد للہ.
اس مسئلہ ميں اہل سنت كے ہاں دو چيزيں ہيں جنہيں رافضى شيعى اور دشمنان اسلام نے خلط ملط كر ديا ہے، اور اسے ايك بنا كر ركھ ديا ہے، اور وہ دو چيزيں يہ ہے:
چھوٹى بچى كى شادى.
اور چھوٹى بچى كى رخصتى اور اس كے ساتھ دخول كرنا.
پہلا مسئلہ:
چھوٹى بچى كى شادى:
عام علماء كرام اس كو جائز قرار ديتے ہيں، كہ شريعت ميں شادى كے ليے بچى كى عمر كى تعيين نہيں كہ اس عمر سے قبل بچى كى شادى نہ كى جائے.
اس كا ثبوت اللہ كى كتاب اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت اور اہل علم كے اجماع ميں ہے.
1 ـ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تمہارى عورتوں ميں سے وہ جو حيض سے نااميد ہو گئى ہوں، اگر تمہيں شبہ ہو تو ان كى عدت تين مہينے ہے، اور ان كى بھى جنہيں حيض آنا شروع ہى نہ ہوا ہو الطلاق ( 4 ).
يہ آيت كريمہ اس مسئلہ پر واضح دلالت كرتى ہے جس ميں ہم بحث كر رہے ہيں، اور اس آيت ميں اس طلاق شدہ عورت كى عدت بيان ہوئى ہے جو ابھى بچى ہو اور اسے حيض آنا ہى شروع نہيں ہوا.
امام بغوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور وہ عورتيں جنہيں ابھى حيض نہيں آيا .
يعنى وہ چھوٹى عمر كى جنہيں ابھى حيض آيا ہى نہيں، تو ان كى عدت بھى تين ماہ ہے.
ديكھيں: تفسير البغوى ( 8 / 052 ).
اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس عورت كى عدت جسے حيض نہيں آتا اس عورت كى دو قسميں ہيں:
ايك تو وہ چھوٹى عمر كى جسے ابھى حيض آيا ہى نہيں، اور دوسرى وہ بڑى عمر كى عورت جو حيض سے نااميد ہو چكى ہے.
چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان دونوں قسم كى عورتوں كى عدت بيان كرتے ہوئے فرمايا:
اور تمہارى عورتوں ميں سے وہ جو حيض سے نااميد ہو گئى ہوں، اگر تمہيں شبہ ہو تو ان كى عدت تين مہينے ہے، اور ان كى بھى جنہيں حيض آنا شروع ہى نہ ہوا ہو الطلاق ( 4 ).
يعنى ان كى عدت بھى اسى طرح ہے " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد فى ھدي خير العباد ( 5 / 595 ).
2 ـ سنت كے دلائل:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سے شادى كى تو ان كى عمر ابھى چھ برس تھى، اور جب رخصتى ہوئى تو وہ نو برس كى تھيں، اور نو برس ہى وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ رہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4840 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1422 ).
علماء كے صحيح قول كے مطابق اس چھوٹى عمر كى لڑكى كى شادى اس كا باپ كريگا باپ كے علاوہ كوئى اور ولى نہيں كر سكتا اور بالغ ہونے كے بعد يہ لڑكى اختيار كى مالك نہيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت كى اجازت كے بغير كوئى بھى عورت كى شادى نہيں كر سكتا، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے، اور اگر وہ اسے ناپسند كرے تو اسے نكاح پر مجبور نہيں كر سكتا، ليكن چھوٹى عمر كى كنوارى بچى كو، اس كى شادى اس كا والد كريگا، اور اس كو اجازت كا حق نہيں " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 39 ).
3 ـ اجماع:
ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" علماء كرام كا اس پر اجماع ہے كہ باپ اپنى چھوٹى عمر كى بچى كى شادى كر سكتا ہے اور اس ميں اسے بچى سے مشورہ كرنے كى ضرورت نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ بنت ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہما سے شادى كى تو ان كى عمر ابھى چھ يا سات برس تھى، ان كا نكاح ان كے والد نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كيا تھا" انتہى
ديكھيں: الاستذكار ( 16 / 49 - 50 ).
اور ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" چھوٹى بچى كا والد اس كى شادى كريگا اس پر اتفاق ہے بخلاف شاذ قول كے " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 239 ).
دوسرا مسئلہ:
چھوٹى بچى كى رخصتى اور اس سے دخول كرنا:
عقد نكاح كرنے سے يہ چيز لازم نہيں آتى، كيونكہ يہ تو سب كو معلوم ہے كہ بعض اوقات بڑى عمر كى عورت كا نكاح ہوتا ہے ليكن اس سے اس كا دخول لازم نہيں آتا، اور اس كا پورى وضاحت سے بيان اس طرح ہو سكتا ہے كہ:
بعض اوقات عقد نكاح كے بعد اور دخول يعنى رخصتى سے قبل ہى طلاق ہو جاتى ہے، تو اس صورت ميں اس كے كچھ احكام بھى ہيں ـ اور يہ اپنے عموم كے اعتبار سے چھوٹى عمر كى بچى كو بھى شامل ہے ـ اگر مہر مقرر كيا گيا ہے تو اسے نصف مہر ادا كرنا ہو گا، اور اس كى كوئى عدت نہيں ہو گى.
نصف مہر كے متعلق اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
} اور اگر تم انہيں چھونے سے پہلے ہى طلاق دے دو اور تم نے ان كا مہر بھى مقرر كر ديا ہو تو مقرر كردہ مہر كا آدھا مہر دے دو، يہ اور بات ہے كہ وہ خود معاف كر ديں، يا وہ شخص جس كے ہاتھ ميں نكاح كى گرہ ہے وہ معاف كر دے {البقرۃ ( 237 ).
اور دوسرى عورت يعنى جس پرعدت نہيں كے متعلق ارشاد بارى تعالى ہے:
} اے ايمان والو جب تم مومن عورتوں سے نكاح كرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو ان پر تمہارا كوئى حق عدت كا نہيں جسے تم شمار كرو، چنانچہ تم كچھ نہ كچھ انہيں دے دو اور بھلے طريقہ سے انہيں رخصت كر دو {الاحزاب ( 49 ).
اس بنا پر جس چھوٹى بچى كا نكاح ہو جائے تو اسے خاوند كے سپرد اس وقت نہيں كيا جائيگا جب تك وہ رخصتى اور مباشرت كے قابل نہيں ہو جاتى، اور اس ميں اس كے بالغ ہونے كى شرط نہيں؛ بلكہ مباشرت كو برداشت كرنے كى طاقت ہونى چاہيے، اور اگر رخصتى ہو نے كے بعد طلاق ہو تو اس كى عدت تين ماہ ہو گى جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے.
اس سلسلہ ميں علماء كے يہ اقوال ہيں جو كہ چھوٹى بچى سے استمتاع يا اس سے دخول كا گمان كرنے والے كا رد ہيں.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" چھوٹى عمر كى لڑكى كى رخصتى اور اس سے دخول كا وقت يہ ہے كہ:
اگر خاوند اور ولى كسى ايسى چيز پر متفق ہوئے ہوں جس ميں چھوٹى بچى كو نقصان اور ضرر نہيں تو اس پر عمل كيا جائيگا، اور اگر ان ميں اختلاف ہو تو امام احمد اور ابو عبيد كہتے ہيں كہ:
نو برس كى بچى كو اس پر مجبور كيا جائيگا، ليكن اس سے چھوٹى بچى كو نہيں.
اور امام شافعى اور مالك اور ابو حنيفہ رحمہم اللہ كہتے ہيں:
اس كى حد جماع برداشت كرنے كى استطاعت ہے، اور يہ چيز عورتوں ميں مختلف ہوتى ہے اس ميں عمر كى قيد نہيں لگائى جا سكتى، اور صحيح بھى يہى ہے، اور پھر عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں عمر كى تحديد نہيں، اور نہ ہى اس ميں منع كيا گيا ہے كہ اگر وہ اس عمر سے قبل استطاعت ركھتى ہو اس كى رخصتى نہيں كى جائيگى.
اور نہ ہى اس كے ليے اجازت پائى جاتى ہى جو نو برس كى ہونے كے باوجود جماع كى استطاعت نہ ركھتى ہو،.
داودى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بہت بہتر جوان ہوئى تھيں " انتہى.
ديكھيں: شرح مسلم ( 9 / 206 ).
شيعہ كے ہاں متع كى اباحت كا رد ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 20738 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
ہم يہ خيال نہيں كرتے كہ يہ مجادلہ اور بحث باطل ہے، جس پر استمتاع كا شبہ وارد ہوتا ہے وہ يہ ہے كہ بغير شادى كے استمتاع كرنا، يہ ہمارا كام نہيں، اور نہ ہى ہمارے دين ميں ہے، نہ تو ايسا بڑى عمر كى اور نہ ہى چھوٹى عمر كى عورت كے ساتھ كيا جا سكتا ہے.
اس كے متعلق تو يورپ والے انہيں سے دريافت كريں جو ايسا كرتے ہيں، اور چھوٹى عمر كى بچيوں كا استحصال كرتے ہيں چاہے وہ بچہ ہو يا بچى، اور غريب و پسماندہ ممالك ميں ان كے ساتھ زيادتى كى جاتى ہے، اور آپ ان كے فوجيوں كے متعلق دريافت كريں جو فقراء كو افريقيا ميں بچاتے پھرتے ہيں وہ ان كے ساتھ كيا كرتے ہيں ؟!!
واللہ اعلم .