سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بيوى سے كہا: ہمارے مابين جو تھا وہ ختم جاؤ اپنے ميكى چلى جاؤ ليكن اس ميں نيتك اعلم نہيں

127280

تاریخ اشاعت : 15-12-2012

مشاہدات : 3347

سوال

ميں جوان شخص ہوں اور چار ماہ قبل شادى ہوئى ہے ايك دن اپنى بيوى سے جھگڑا ہوا تو ميں نے كہا: ہمارے درميان ختم جاؤ اپنے ميكے چلى جاؤ يہ منگل كا دن تھا اس وقت تو ميں نے اس سے صلح كر لى اور دو ماہ بعد پھر جھگڑا ہوا تو ميں نے اسے كہا: تمہيں طلاق پھر ميں نے صلح كر لى، اور كل پھر ميں نے اسے كہا كہ: تمہيں طلاق اور پھر صلح كر لى.
تينوں حالتوں ميں وہ طہر كى حالت ميں تھى اور ميں نے اس سے جماع بھى كيا تھا، ليكن مجھے اس وقت يہ علم نہ تھا كہ صرف طلاق كے الفاظ نكالنے سے ہى طلاق واقع ہو جاتى ہے، اور يہ طلاق شمار بھى ہو گى، بلكہ ميرا خيال تھا كہ طلاق تو عدت پورى ہونے پر يا پھر عدالت ميں طلاق واقع ہوتى ہے اور اس وقت يہ طلاق شمار ہوگى.
پہلى حالت كے بارہ ميں گزارش ہے كہ اس ميں مجھے كوئى نيت ياد نہيں كہ ميرى اس سے كيا نيت مراد تھى، اس ليے ميں نے تين علماء سے تينوں حالات كے بارہ ميں سوال كيا تو انہوں نے بتايا كہ دوسرى اور تيسرى بار تو طلاق واقع ہو گى ليكن پہلى حالت كے متعلق نيت ياد نہ ہونے كى وجہ سے فتوى نہيں ديا.
ميں نے پڑھا ہے كہ طلاق بدعى ميں اختلاف ہے اور ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوتى، اور اسے بہت صحيح نہيں كہتے تھے، ميں حق معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ حق كيا ہے اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے، برائے مہربانى مجھے بتائيں حق كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ كے خاوند كا آپ كو كہنا: ہمارے درميان جو تھا وہ ختم جاؤ اپنے ميكے چلى جاؤ " يہ طلاق كنايہ ہے، اور يہ طلاق نيت كے بغير واقع نہيں ہوتى، اگر آپ نيت سے جاہل ہوں يا پھر نيت بھول گئے ہوں تو اصل ميں يہ طلاق واقع نہيں ہوئى.

دوم:

دوسرى اور تيسرى بار آپ كو اپنى بيوى كو طلاق دينے كے متعلق وہى ہے جو آپ كو فتوى دينے والوں نے فتوى ديا ہے.

سوم:

طلاق كے الفاظ استعمال كرنے ميں تساہل اختيار كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے، ويسے ہى طلاق كے الفاظ مت كريں كيونكہ اس كے نتيجہ ميں خطرنام انجام سےدوچار ہونا پڑتا ہے، جس كا خاوند اور اس كے اہل و عيال اور اولاد كو نقصان ہو سكتا ہے.

آپ كے سوال سے واضح ہوتا ہے كہ آپ اس عظيم معاملہ سے كھيلتے اور استھزاء كرتے رہے ہيں، حتى كہ ايك دن طلاق دے كر رجوع كرتے اور پھر دوسرے دن طلاق ديتے ہيں، اور يہ اللہ كى حدود سے تجاوز كرنا كہلاتا ہے، جو شخص ايسا كرتا ہے اس پر طلاق شمار كرنى چاہيے جيسا كہ جب لوگ تين طلاق ميں تساہل اختيار كرنے لگے تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے كيا تھا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب