جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اسلام متعدی امراض سے نمٹنے کے لیے کیا لائحہ عمل اپناتا ہے؟

سوال

متعدی امراض سے بچاؤ یا شفا یابی کے لیے اسلام کیا اقدامات اٹھاتا ہے؟ کیا کوئی ایسی سورت قرآن مجید میں موجود ہے جس میں متعدی امراض سے بچاؤ یا شفا یابی کے لیے خصوصی طور پر گفتگو کی گئی ہو؟ جیسے کہ یہود کے پاس ایک کتاب ہے جسے وہ (Book of Leviticus) کہتے ہیں، اس میں اسی قسم کی چیزیں ذکر کی گئی ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

تمام انسانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہر مہلک اور متعدی بیماری اور مرض سے بچے ؛ اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان ہے: (بیمار اونٹوں والا صحت مند اونٹوں کے ساتھ پانی پلانے کے لیے مت لے جائے) یہاں حدیث کے عربی الفاظ میں {ممرض} سے مراد وہ شخص ہے جس کے اونٹ خارش جیسی متعدی بیماری میں مبتلا ہوں، یعنی جس شخص کے اونٹ بیمار ہوں تو وہ اپنے اونٹوں کو کسی ایسی زمین یا کنویں وغیرہ پر نہ لے جائے جہاں صحت مند اونٹ موجود ہوں، مبادا بیمار اونٹوں کی بیماری سے صحت مند اونٹ متاثر نہ ہو جائیں اور بیماری مزید نہ پھیلے۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بھی منقول ہے کہ: (تم کوڑھ کے مریض سے ایسے بھاگو جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو) کوڑھ والے مریض کے لیے حدیث میں {جذام}کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اس مرض میں جسم پر بہت ہی برے پھوڑے نکلتے ہیں اور مشیت الہی سے پھیلتے چلے جاتے ہیں۔

ہمارا تو عقیدہ ہی یہ ہے کہ یہ بیماریاں خود بخود پھیلتی ہی نہیں ہیں؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی، اور نہ ہی کوئی نحوست  ہوتی ہے۔)یعنی مطلب یہ ہے کہ بیماریاں خود بخود متعدی نہیں ہوتیں، ان کے پھیلنے کا معاملہ مشیت الہی سے منسلک ہوتا ہے، اللہ تعالی کچھ چیزوں کو اس قسم کی بیماریاں دوسروں میں منتقل ہونے کا سبب بنا دیتے ہیں، لہذا لوگوں سے میل جول ایک ممکنہ سبب ہی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ، اسی لیے جن ذرائع اور اسباب کی وجہ سے بیماری پھیل سکتی ہے ان سے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے بچنا چاہیے۔

یہ تو حتمی بات ہے کہ ہر چیز اللہ تعالی کی مشیت اور فیصلے سے ہی رونما ہوتی ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے دوسروں کو برائی کا سبب قرار دینے والوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَذِهِ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَى وَمَنْ مَعَهُ
ترجمہ: پھر جب انہیں کوئی بھلائی پہنچتی تو کہتے کہ "ہم اسی کے مستحق تھے" اور جب کوئی تکلیف پہنچتی تو اس کا سبب موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو منحوس قرار دیتے ہوئے بتلاتے ۔ [الأعراف: 131] یعنی یہ سب تکالیف موسی اور اس کے ہمراہ لوگوں کی نحوست کی وجہ سے ہیں، ہمیں جو بھی تکلیف آئی ہے وہ انہی کی وجہ اور انہی کی بدی کی وجہ سے آئی ہے، تو اللہ تعالی نے ان کی فوری طور پر تردید کرتے ہوئے فرمایا:   أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ   ترجمہ: حالانکہ اللہ کے ہاں نحوست تو ان کی اپنی ہی تھی۔[الأعراف: 131]

اس بارے میں دلائل بالکل واضح ہیں کہ اگر لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ میل جول سے بیماری پھیلتی ہے تو یہ اللہ کی مشیت سے ہی ہوتا ہے، اور ایسا بھی بہت بار ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے کرم سے میل جول سے بیماری نہیں پھیلتی۔

واللہ اعلم

ماخذ: فضيلۃ الشيخ عبد اللہ بن جبرين رحمہ اللہ