اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

قبرستان پر بنی ہوئی عمارت میں نماز کا حکم

سوال

کچھ لوگ ایک عمارت کی دوسری اور تیسری منزل پر نماز ادا کرتے ہیں اور یہ عمارت قبرستان پر بنی ہوئی ہے، تو کیا اس میں نماز ادا کرنا جائز ہے؟ اور کیا وہ نمازیں ادا کرتے رہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

"اگر یہ عمارت بالکل الگ ہے، اور جہاں نماز ادا کی جا رہی ہے وہاں پر کوئی قبر نہیں ہے تو پھر نماز صحیح ہے، چاہے وہ پہلی، دوسری یا تیسری منزل پر نماز ادا کریں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر قبریں اسی منزل پر ہیں ، یعنی پہلی منزل پر قبر ہے اور وہ نماز بھی پہلی منزل میں ہی ادا کر رہے ہیں تو پھر قبروں کے پاس یا قبروں کے درمیان میں نماز ادا کرنا صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (توجہ کریں! یقیناً تم سے پہلے لوگ اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا کرتے تھے، خبردار! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بناؤ میں تمہیں اس سے روک رہا ہوں۔) اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ: (اللہ تعالی یہود و نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا)

لیکن اگر اس عمارت کے ارد گرد قبریں ہوں اور جس زمین میں یہ عمارت ہے اس میں کوئی قبر نہ ہو ، یعنی عمارت کے آگے ، پیچھے، دائیں اور بائیں قبریں ہیں لیکن اندر کوئی قبر نہیں ہے ، عمارت کا اندرونی حصہ قبروں سے پاک ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

لیکن اگر یہ جگہ پہلے قبرستان تھی ، اور اس جگہ پر قبضہ کیا گیا ہے تو پھر یہاں نماز صحیح نہیں ہو گی اس عمارت کی پہلی، دوسری یا تیسری کسی بھی منزل میں نماز ادا کرنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ یہ قبرستان کی جگہ ہے اور غصب شدہ ہے، اس عمارت اور زمین پر رہنا اور نماز ادا کرنا ان کے لیے جائز نہیں ہے، بلکہ اس عمارت کو قبرستان سے ہٹانا لازم ہے؛ کیونکہ یہ تو قبرستان پر ظلم اور زیادتی ہے۔" ختم شد
سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ

"فتاوى نور على الدرب" (2/1143)

ماخذ: فتاوی سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز – فتاوی نور علی الدرب