الحمد للہ.
اس سوال ميں دو مسئلے ہيں:
پہلا مسئلہ:
خاوند فوت ہونے كے بعد بيوى كا خاوند كو ديكھنا.
دوسرا مسئلہ:
عورت كا اپنے محرم مردو كو ديكھنا.
پہلا مسئلہ:
خاوند كى وفات كے بعد عورت كے ليے خاوند كو ديكھنا جائز ہے، اور اس ميں كوئى مانع نہيں، بلكہ بيوى كو يہ حق حاصل ہے كہ وہ اپنے فوت شدہ خاوند كو غسل دے.
امام مالك رحمہ اللہ تعالى نے موطا ميں عبد اللہ بن ابى بكر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:
جب ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ فوت ہوئے تو اسماء بنت عميس رضى اللہ تعالى عنہا نے انہيں غسل ديا، اور پھر باہر آكر مھاجرين صحابہ كرام جو وہاں حاضر تھے ان سے دريافت كرنے لگيں: ميں روزہ سے ہوں اور دن بھى بہت شديد سرد ہے تو كيا مجھ پر غسل كرنا ضرورى ہے؟ تو انہوں نے كہا نہيں.
موطا الجنائز ( 466 ).
موطا كى شرح المنتقى كے مصنف اس حديث كى شرح ميں كہتے ہيں:
يہ حديث دلالت كرتى ہے كہ خاوند كى وفات كے بعد بيوى كے ليے خاوند كو غسل دينا جائز ہے. كيونكہ يہ صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم كى ايك جماعت كى موجودگى ميں ہوا... اور خاص كر كے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس كى وصيت بھى كى تھى، اور اس كى مخالفت كسى بھى صحابى سے نہيں ملتى، تو اس طرح يہ اجماع ہوا.
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں:
" اگر مجھے وہ كچھ پہلے علم ہوتا جو مجھے بعد ميں معلوم ہوا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ان كى بيويوں كے علاوہ كوئى اور غسل نہ ديتا"
سنن ابن ماجۃ الجنائز ( 1453 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجۃ حديث نمبر ( 1196 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
تو اس طرح خاوند كا جثہ ديكھنا تو بالاولى جائز ہوا.
اور اس سے جواز مقيد ہوتا ہے كہ جب عورت عدت ميں ہو اور اس كى عدت ختم ہو جائے مثلا يہ كہ عورت حاملہ تھى اور خاوند كى موت كے فورا بعد بيوى نے حمل وضع كرديا تو اس كے ليے خاوند كو غسل دينا حلال نہيں اور نہ ہى وہ اسے ديكھ سكتى ہے.
ميں نے ( شيخ منجد ) شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے ان كى وفات سے قبل ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا جس كے فوت ہونے كے بعد اس كى بيوى نے كچھ گھنٹے بعد بچہ پيدا كر ديا تو كيا وہ اپنے خاوند كو غسل دے سكتى ہے؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى نے جواب ديا:
" جب وہ بچہ جن دے تو پھر نہيں، كيونكہ اس كے اور خاوند كے مابين تعلق ختم ہو گيا ہے، لھذا وہ اس كا خاوند كو غسل دينا جائز نہيں، كيونكہ وہ اس كى بيوى نہيں رہى"
كيسٹ: شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے سو فوائد ( شريط مائۃ فائدۃ من العلامۃ الشيخ ابن عثيمين )
اور پھر عورتوں كو تو ميت پر نوحہ كرنے سے منع كيا گيا ہے، ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہم سے بيعت لى كہ: ہم نوحہ نہيں كريں گى صرف پانچ عورتيں اس بيعت كى وفا ميں فوت ہوئيں اور وہ يہ تھيں: ام سليم، اور ام العلاء، اور معاذ رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى ابنۃ ابى سبرۃ اور دو عورتيں، يا ابنۃ ابى سبرۃ اور معاذ رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى اور ايك دوسرى عورت"
صحيح بخارى كتاب الجنائز حديث نمبر ( 1223 ).
اور ابو مالك اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميرى امت ميں چار معاملے جاہليت ميں سے ہيں جنہيں چھوڑتے نہيں حسب و نسب ميں فخر كرنا، اور نسب ميں طعن و تشنيع كرنا، اور ستاروں كے ساتھ بارش طلب كرنا، اور نوحہ كرنا.
اور فرمايا:
" اگر نوحہ كرنے والى وفات سے قبل توبہ نہ كرے تو روز قيامت اسے كھڑا كيا جائےگا تو اسے گندھگ كى لمبى قميص اور خارش زدہ درع ہوگى"
صحيح مسلم كتاب الجنائز حديث نمبر ( 1550 ).
دوسرا مسئلہ:
اس كے ليے اپنے محرم مردوں كو ديكھنا جائز ہے، ان سے پردہ كرنا واجب نہيں.
خاوند كى موت اور عورت كا اپنے محرم مردوں كو ديكھنے ميں كوئى تعلق نہيں، اس ليے عورت كے محرم مردوں كے ليے مستحب ہے كہ وہ اس كے ساتھ تعزيت كريں، اور يہ تعزيت اسے ديكھ اور اس سے مصافحہ اور بات چيت اور اس كے ساتھ بيٹھ كر ہوگى، علماء كرام كے مابين اس ميں كوئى اختلاف معلوم نہيں ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
امام شافعى اور ان كے اصحاب كا كہنا ہے كہ: ميت كے سب رشتہ دار مرد و عورت اور چھوٹے بڑے كے ليے تعزيت كرنا مستحب ہے، ليكن اگر عورت نوجوان لڑكى ہو تو پھر صرف اس كے محرم مرد ہى اس كے ساتھ تعزيت كريں گے.
ديكھيں: المجموع ( 5 / 277 ).
اور سائل نے جو كچھ سوال ميں ذكر كيا ہے وہ عامۃ الناس كى خرافات اور جہالت ميں سے ہے.
فضيلۃ الشيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ تعالى سے عورت كا اپنے محرم مردوں سے چہرہ كا پردہ كرنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
ايسا كرنا جائز نہيں ( يعنى چہرہ چھپانا ) كيونكہ يہ شريعت ميں سے نہيں ہے، بلكہ يہ تو عوام كى خرافات اور مزاق و باطل اشياء ہيں.
ديكھيں: الفتاوى الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 709 )
واللہ اعلم .