الحمد للہ.
جب كسى شخص نے بيوى كو ايك يا دو طلاقيں ديں اور اس كى عدت گزر گئى اور اس عورت سے كسى دوسرے شخص نے شادى كر لى اور پھر اسے طلاق دے دى اور پھر پہلے خاوند نے اس عورت سے شادى كر لى تو اس كے ليے اتنى ہى طلاق ہونگى جو باقى رہتى ہيں، اگر تو اس نے اسے ايك طلاق دے دى تھى تو اس كے ليے دو طلاقيں باقى ہيں، اور اگر اس نےدو طلاقيں دى تھيں تو پھر ايك طلاق باقى رہےگى.
زاد المستقنع ميں ہے:
" اور جس نے اس سے كم طلاق دى جس كا وہ مالك تھا اور پھر اس سے رجوع كر ليا، يا پھر شادى كر لى تو وہ باقى مانندہ طلاق سے زيادہ كا مالك نہيں رہيگا، اس عورت سے دوسرے خاوند نےوطئ كى ہو يا نہ كى ہو " انتہى
قولہ: جس كا وہ مالك ہے اس سے كم "
يعنى تين طلاق سے كم طلاقيں، اس ليے اگر اس نے اسے تين طلاقيں دے ديں اور پھر اس عورت نے كسى دوسرے خاوند سے شادى كر لى تو وہ خاوند فوت ہو گيا، يا پھر اس نے اسے طلاق دے دى اور اس سے پہلے خاوند نے شادى كر لى تو باجماع علماء اس كى تين طلاقيں واپس آ جائيں گى.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس مسئلہ كى تين صورتيں ہيں:
پہلى صورت:
بيوى كو طلاق دے دى اور پھر بيوى سے رجوع كر ليا، تو اس صورت ميں اس كے ليے وہى طلاق ہونگى جو باقى بچى ہيں.
دوسرى صورت:
بيوى كو طلاق دے دى اور اس كى عدت گزر گئى پھر اس سے نيا نكاح كر ليا، تو اس صورت ميں اتنى طلاق كا مالك ہو گا جو باقى بچى ہيں.
تيسرى صورت:
بيوى كو طلاق دے دى پھر اس كى عدت گزر گئى، پھر اس نے كسى اور شخص سے شادى كر لى پھر دوسرے خاوند نے بھى اسے اپنے سے عليحدہ كر ديا اور پھر پہلے خاوند نے اس سے نكاح كر ليا تو اس صورت ميں خاوند كو اتنى طلاق كا ہى حق حاصل ہے جو باقى بچى ہيں.
اور مؤلف كے قول: " دون ما يملك " يعنى جس كا مالك ہے اس سے كم كا مفہوم يہ ہے كہ:
اگر اس نے اتنى طلاق دے ديں جن كا وہ مالك تھا يعنى آزاد كے ليے تين طلاق اور غلام كے ليے دو طلاق تو وہ عورت اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہوگى جب تك وہ دوسرے خاوند سے نكاح نہ كر لے، اور جب وہ اس سے دوسرے خاوند كے بعد دوبارہ شادى كرے تو پھر طلاق نئے سرے سے ہونگى اور اسے تين طلاق دينے كا حق حاصل ہوگا.
گويا كہ اس نے اس عورت سے اب شادى كى ہے؛ يہ اس ليے كہ اس مسئلہ ميں دوسرے خاوند كا اس عورت سے نكاح كرنے ميں تاثير ہے، اور وہ يہ كہ اس نے پہلے خاوند كے ليے اسے حلال كر ديا ہے، اور اگر يہ نكاح نہ ہوتا تو پہلے خاوند كے ليے حلال نہ ہوتى، اس ليے جب اسے تاثير حاصل ہوئى اور جب پہلے خاوند نے اپنا حق پورا كر ليا تھا تو پھر نئے سرے سے طلاق واپس آ جائيگى.
اور يہ نہيں كہا جائيگا كہ: جب اس كى طرف واپس چلى گئى تو اسے صرف ايك طلاق دينے كا حق حاصل ہے پھر وہ بائن ہو جائيگى؛ كيونكہ ہم يہ كہتے ہيں: دوسرے خاوند نے پہلے كے ليے جو كچھ تھا اسے گرا ديا ہے، اسى ليے اس كے ليے مباح ہوئى ہے، حالانكہ يہ اس كے ليے حلال نہ تھى.
اور بعض اہل علم كہتے ہيں كہ: پہلے مسئلہ ميں جب عورت نے شادى كى تو دوسرا خاوند طلاق كو ختم كرديگا، حتى كہ اگر تين طلاق سے بھى كم ہو، ليكن صحيح وہى ہے جو مؤلف كا كہنا ہے؛ كيونكہ اگر پہلے خاوند نے تين طلاق نہيں دى تو دوسرے خاوند كا نكاح اثرانداز نہيں؛ كيونكہ وہ عورت تو پہلے خاوند كےليے حلال تھى چاہے وہ شادى كرتى يا نہ كرتى " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 196 ).
اور يہ قول كہ: وہ عورت پہلے خاوند كے عقد ميں انہى طلاق ميں واپس جائيگى جو طلاق باقى بچى ہے اس قول كو ابن قدامہ نے اكابر صحابہ كرام عمر اور ابي اور معاذ اور عمران بن حصين اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہم كى طرف منسوب كيا ہے، اور زيد اور عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے بھى مروى ہے، اور سعيد بن مسيب اور عبيدہ اور حسن اور مالك اور ثورى اور ابن ابى ليلى اور شافعى اور اسحاق اور ابو عبيدہ اور ابو ثور اور محمد بن حسن اور ابن منذر كا بھى يہى قول ہے.
اور دوسرى قول ابن عمر اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم اور عطاء اور نخعى اور شريح اور ابو حنيفہ اور ابو يوسف كا قول ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 389 ).
واللہ اعلم .