الحمد للہ.
جواب :الحمدللہ:
مسلمان كو اپنے سارے تصرفات ميں عفت و عصمت اختيار كرنى چاہيے چاہے ان كا تعلق افعال سے ہو يا پھر اقوال سے، ليكن اگر كسى مشروع چيز تك پہنچنے كے ليے ايسى چيز كا ذكر كيے بغير كوئى چارہ نہ رہے جسے عام طور پر بيان كرنے سے شرم كى جاتى ہے تو پھر اس ميں كوئى حرج نہيں جيسا كہ ماعز اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث كى كچھ روايات ميں ايسے الفاظ وارد ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسے الفاظ سے صراحت كى جن سے عام طور پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم صراحت نہيں كيا كرتے تھے.
ليكن اگر اس كى كوئى ضرورت نہ ہو اور نہ ہى وہ الفاظ حرام ہوں مثلا سب و شتم تو اس كى عدم صراحت بھى بہتر ہے، تو اس وقت يہ مكروہ ميں شمار ہونگے، اور اہل علم كے ہاں تھوڑى سى ضرورت كے وقت كراہت ختم ہو جاتى ہے، اس بنا پر سوال ميں جو بيان ہوا ہے اگر اولاد كى عدم موجودگى ميں خاوند اور بيوى آپس ميں الفاظ كا تبادلہ كر ليں تو اس ميں كوئى حرج نہيں.