جمعہ 7 جمادی اولی 1446 - 8 نومبر 2024
اردو

ہم بسترى ميں حساس الفاظ استعمال كرنا

13621

تاریخ اشاعت : 03-09-2012

مشاہدات : 11474

سوال

آدمى كا اپنى بيوى سے جماع يا ہنسى مذاق كے دوران كس حد تك استمتاع كرنے كے مسئلہ ميں يا اگر خاوند كچھ كلمات سے لذت محسوس كرتا ہو تو ايك دوسرے كو يہ كلمات كہنا كس حد تك جائز ہونگے.
يعنى عام طور پر وہ كلمات كسى دوسرے كے سامنے نہيں كہے جاتے اور انہيں گندے كلمات شمار كيا جاتا ہے، جب ہم ذہن ميں يہ حديث لائيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم گندے قسم كے كلمات ناپسند كرتے اور انہيں استعمال نہيں كيا كرتے تھے.
تو كيا اعضائے تناسل كے وہ نام لينے جو عام لوگ ليتے ہيں اور عورت كى شرمگاہ پر استعمال كيے جاتے ہيں، يا اس طرح كے دوسرے كلمات مرد كى شرمگاہ كے ليے بولے جانے والے كلمات كا بيوى كے جذبات كو ابھارنے كے ليے مندرجہ بالا حديث كو مدنظر ركھتے ہوئے جائز ہونگے يا نہيں ؟
يا كہ انہيں خاوند اور بيوى كے مابين حرام جنسى تعلق كے ضمن ميں شمار كيا جائيگا ؟ اس ليے كہ يہ واضح ہے جيسا كہ نصوص ميں ہے مثلا دبر ميں دخول .... اسى ليے اس قاعدہ كے وجود كى بنا پر اگرچہ اس طرح كے كلمات كو حرام كرنے والى كوئى دليل نہيں بلكہ ہميں چاہيے كہ ہم حد سے تجاوز نہ كريں، ہميں حديث ياد ہے جس ميں بيان ہوا ہے كہ:
" حد سے تجاوز كرنے والے تباہ و برباد ہو گئے "
يا كہ گندے كلمات استعمال نہ كرنے والا عام قاعدہ مذكورہ بالا رائے پر منبطق ہوتا ہے، اگر تو معاملہ ايسے ہى ہے تو پھر ميرا سوال يہ ہوگا كہ:
كيا آدمى بيوى كے ساتھ اعضاء تناسليہ كے ناموں كا تبادلہ كر سكتا ہے مثلا شرمگاہ يا وہ عام الفاظ جو لوگوں ميں معروف ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جواب :

الحمدللہ:

مسلمان كو اپنے سارے تصرفات ميں عفت و عصمت اختيار كرنى چاہيے چاہے ان كا تعلق افعال سے ہو يا پھر اقوال سے، ليكن اگر كسى مشروع چيز تك پہنچنے كے ليے ايسى چيز كا ذكر كيے بغير كوئى چارہ نہ رہے جسے عام طور پر بيان كرنے سے شرم كى جاتى ہے تو پھر اس ميں كوئى حرج نہيں جيسا كہ ماعز اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث كى كچھ روايات ميں ايسے الفاظ وارد ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسے الفاظ سے صراحت كى جن سے عام طور پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم صراحت نہيں كيا كرتے تھے.

ليكن اگر اس كى كوئى ضرورت نہ ہو اور نہ ہى وہ الفاظ حرام ہوں مثلا سب و شتم تو اس كى عدم صراحت بھى بہتر ہے، تو اس وقت يہ مكروہ ميں شمار ہونگے، اور اہل علم كے ہاں تھوڑى سى ضرورت كے وقت كراہت ختم ہو جاتى ہے، اس بنا پر سوال ميں جو بيان ہوا ہے اگر اولاد كى عدم موجودگى ميں خاوند اور بيوى آپس ميں الفاظ كا تبادلہ كر ليں تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

ماخذ: الشيخ عبد الكريم الخضير