الحمد للہ.
اول:
عقد نكاح كے بعد خاوند كے ليے بيوى سے استمتاع كرنا جائز ہے، ليكن وہ عرف عام كا خيال كرتے ہوئے اس سے دخول مت كرے، اس ليے كہ ايسا كرنے سے خرابياں پيدا ہو سكتى ہيں، مثلا وہ اس جماع سے حاملہ ہو جائے، اور رخصتى كے مقرر كردہ وقت سے يا پھر رخصتى كے بعد وقت سے قبل ہى ولادت ہو جائے تو عورت پر تہمت لگ جائيگى، يا پھر خاوند سے طلاق ہو سكتى ہے، يا خاوند فوت ہو سكتا ہے، تو اس طرح گمان كيا جائيگا كہ عورت كنوارى ہے حالانكہ وہ كنوارى نہيں رہى.
دوم:
جب جماع كر ليا جائے تو پھر بيوى كنوارى نہيں رہتى چاہے پردہ بكارت پھٹ جائے يا نہ پھٹے.
آپ نے اسے جو طلاق دى ہے وہ طلاق صحيح ہے، اور اس ميں نكاح خوان كا طلاق كے اسٹام ميں كنوارى لكھنا كوئى مؤثر نہيں ہوگا، بلكہ كنوارى ہونے يا كنوارى نہ ہونے پر تو مہر كا مسئلہ كھڑا ہوتا ہے، اس ليے جسے كنوارى ہونے كى صورت ميں ـ يعنى يہ طلاق دخول سے قبل ہوئى ہو ـ اور اس كو نصف مہر ديا جائيگا، اور جسے دخول كے بعد طلاق ہوئى ہو اسے پورا مہر ديا جائيگا.
صحيح يہ ہے كہ اگر عورت سے خلوت كے بعد طلاق ہو تو اسے پورا مہر ديا جائيگا چاہے دخول نہ بھى ہوا ہو.
مزيد آپ سوال نمبر ( 97229 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
سوم:
جب آپ اپنى بيوى سے رجوع كرنا اور اسے واپس اپنى عصمت ميں لانا چاہيں اور آپ نے بغير عوض اسے ايك طلاق دى ہو تو آپ كے ليے دوران عدت بغير عقد نكاح كے رجوع كرنا جائز ہے، كيونكہ رجعى طلاق والى عورت بيوى كے حكم ميں ہوتى ہے جب تك وہ عدت ميں ہو، اس ليے آپ اس سے رجوع كر سكتے ہيں چاہے وہ راضى نہ بھى ہو.
اور اگر طلاق عوض ميں ہوئى ہے، يعنى اس نے آپ كو مال دے كر يا پھر اپنے مہر سے دستبردار ہو كر آپ سے طلاق لى ہے يہ خلع شمار ہوتا ہے، اور آپ كى عصمت ميں اسى صورت ميں واپس آ سكتى ہے كہ آپ اس سے نيا نكاح كريں.
واللہ اعلم .