جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

داڑھى كاٹ كر برابر كرنے والے كا حكم

13660

تاریخ اشاعت : 26-07-2008

مشاہدات : 5510

سوال

جو شخص اپنى داڑھى كو كاٹ كر برابر كرتا ہے اس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

داڑھى پورى اور گھنى ركھنا فرض ہے، اور داڑھى كا كوئى بال بھى كاٹنا جائز نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے فرمايا:

" مونچھيں كاٹو، اور داڑھى كو بڑھاؤ مشركوں كى مخالفت كرو"

متفق عليہ. يہ حديث ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے.

اور صحيح بخارى ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مونچھيں كاٹو، اور داڑھى پورى ركھو مشركوں كى مخالفت كرو "

اور صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مونچھيں پست كرو، اور داڑھى لمبى كرو مجوسيوں كى مخالفت كرو "

يہ سب احاديث داڑھى پورى اور گھنى اور اپنى حالت پر باقى ركھنے پر دلالت كرتى ہيں، اور مونچھوں كے كاٹنے كے وجوب پر دلالت كرتى ہيں، مشروع بھى يہى ہے، اور يہى واجب اور فرض ہے جس كى راہنمائى نبى كريم صلى اللہ عليہ نے فرمائى اور اس كا حكم بھى ديا.

اور پھر داڑھى پورى ركھنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى اور صحابہ كرام كى اقتدا اور مشركوں كى مخالفت، اور كفار اور عورتوں سے مشابہت بھى سے بھى دورى ہے.

ليكن ترمذى شريف ميں جو حديث مروى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى داڑھى كے طول و عرض سے كاٹا كرتے تھے "

اہل علم كے ہاں يہ خبر باطل ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، بعض لوگ اس كو دليل بناتے ہيں، حالانكہ يہ حديث ثابت ہى نہيں، كيونكہ اسكى سند ميں عمر بن ہارون بلخى ہے جو متہم بالكذب رواتى ہے.

لہذا مومن شخص كے ليے اس باطل حديث كو دليل بنانا جائز نہيں، اور نہ ہى اہل علم كے اقوال كے ساتھ رخصت حاصل كرنا جائز ہے، كيونكہ سنت نبويہ سب كے ليے حاكم ہے.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

جو كوئى شخص رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اطاعت كرتا ہے، اس نے اللہ تعالى كى اطاعت كى .

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

كہہ ديجئے كہ اللہ تعالى كا حكم مانو، اور رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اطاعت و فرمانبردارى پھر بھى اگر تم نے روگردانى كى تو رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كے ذمہ تو صرف وہى ہے جو اس پر لازم كر ديا گيا ہے، اور تم پر اس كى جوابدہى ہے جو تم پر ركھا گيا ہے، ہدايت تو تمہيں اسى وقت ملےگى جب تم رسول كى اطاعت كروگے سنو رسول كے ذمہ تو صرف صاف طور پر پہچا دينا ہے النور ( 54 ).

اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان اس طرح ہے:

اے ايمان والو! اللہ تعالى كى اطاعت كرو، اور رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى فرمانبردارى كرو، اور تم سے جو اختيار والے ان كى اطاعت كرو، اور اگر تم كسى چيز ميں اختلاف كرو تو اسے اللہ تعالى اور اس كے رسول كى طرف لوٹاؤ، اگر تمہيں اللہ تعالى اور قيامت كے دن پر ايمان ہے، يہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام كے بہت اچھا ہے النساء ( 59 ).

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

ماخذ: ديكھيں كتاب: مجموع فتاوى و مقالات المتنوعۃ فضيلۃ الشيخ علامہ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ ( 4 / 443 )