الحمد للہ.
سلف صالحین کا دستر خوان کے نازل ہونے کے متعلق اختلاف ہے کہ اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کے ساتھیوں پر یہ مائدہ نازل کیا تھا یا نہیں؟ یا وہ اللہ تعالی کے فرمان: فَمَنْ يَكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ ترجمہ: چنانچہ اس کے بعد جو کوئی تم میں سے کفر کرے گا تو میں اسے یقیناً ایسا عذاب دوں گا کہ اس جیسا عذاب کسی کو بھی جہانوں میں سے نہیں دوں گا۔[المائدۃ: 115] سے ڈر گئے تھے اور پھر ان پر مائدہ نازل نہیں کیا گیا۔
تو سلف صالحین میں سے جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالی نے ان پر مائدہ نازل کیا تھا؛ کیونکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے وعدہ شدہ تھا: إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ترجمہ: یقیناً میں دستر خوان کو تم پر نازل کرنے والا ہوں۔ [المائدۃ: 115] اور اللہ تعالی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں فرماتا ۔
یہی موقف سیدنا سلمان فارسی، عمار بن یاسر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین سے منقول ہے، اور تابعین میں سے اسحاق بن عبد اللہ، وہب بن منبہ، سعید بن جبیر، عکرمہ، قتادہ، عطیہ عوفی، ابو عبد الرحمن سلمی، عطاء بن سائب اور دیگر اہل علم سے منقول ہے۔
جبکہ مجاہد اور حسن کہتے ہیں: یہ دستر خوان اللہ تعالی نے نازل نہیں کیا تھا۔
اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ: جب اللہ تعالی نے دستر خوان نازل ہو جانے کے بعد بھی کفر کرنے پر دھمکی دی تو بنی اسرائیل ڈر گئے کہ کہیں کوئی کفر نہ کر دے، اس لیے انہوں نے اپنے مطالبے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا، تو اس اعتبار سے تقدیری عبارت یوں ہو گی کہ: میں تم پر اسے نازل کرنے والا ہوں، اگر تم اس کا مطالبہ کرو گے۔ لیکن انہوں نے اپنے مطالبے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا، اور پھر مائدہ نازل نہیں کیا گیا۔
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حوالے سے ہمارے ہاں صحیح موقف یہ ہے کہ: اللہ نے عیسی علیہ السلام کے ذریعے اللہ تعالی سے مائدہ کا مطالبہ کرنے والوں پر مائدہ نازل کیا تھا۔ کیونکہ اللہ تعالی اپنے کسی وعدے کی خلاف ورزی نہیں فرماتا، نہ ہی اللہ تعالی کی دی ہوئی خبر میں کوئی حقیقت کے منافی چیز ہوتی ہے، کیونکہ جب حواریوں نے عیسی علیہ السلام کے ذریعے اللہ تعالی سے دستر خوان نازل کرنے کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں عیسی علیہ السلام کی دعا قبول کرتے ہوئے خبر دی : إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ترجمہ: یقیناً میں دستر خوان کو تم پر نازل کرنے والا ہوں۔ [المائدۃ: 115] اور یہ نہیں ہو سکتا کہ پہلے اللہ تعالی دستر خوان کو نازل کرنے کا کہہ دے پھر نازل نہ فرمائے؛ کیونکہ یہ تو اللہ تعالی نے اپنے بارے میں خبر دی ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے خلافِ واقعہ کوئی خبر نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو پھر إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ترجمہ: یقیناً میں دستر خوان کو تم پر نازل کرنے والا ہوں۔ [المائدۃ: 115] کہہ کر بھی اللہ تعالی ان پر مائدہ نازل نہ فرماتا، اور یہ بھی ممکن ہوتا کہ اللہ تعالی فَمَنْ يَكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ ترجمہ: چنانچہ اس کے بعد جو کوئی تم میں سے کفر کرے گا تو میں اسے یقیناً ایسا عذاب دوں گا کہ اس جیسا عذاب کسی کو بھی جہانوں میں سے نہیں دوں گا۔[المائدۃ: 115] فرما کر بھی ان میں سے کفر کرنے والوں کو عذاب نہ دے۔ اور اللہ تعالی کے وعدوں اور وعیدوں میں کوئی حقیقت نہ رہ جاتی۔ اس بنا پر یہ درست نہیں ہے کہ اللہ تعالی کی طرف ایسی چیز کی نسبت بھی کی جائے۔" ختم شد
"تفسير الطبري" (11/ 232)
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ تمام آثار اس بات کی دلیل ہیں کہ عیسی بن مریم کی دعا کی قبولیت کے نیتجے میں مائدہ بنی اسرائیل پر اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوا تھا، یہی چیز قرآن کریم کے سیاق و سباق سے بھی ثابت ہوتی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: قَالَ اللهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ترجمہ: اللہ نے فرمایا: یقیناً میں دستر خوان کو تم پر نازل کرنے والا ہوں۔ [المائدۃ: 115]
کچھ کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ : دستر خوان نازل نہیں ہوا تھا، ان کا یہ موقف اس اعتبار سے تھوڑا مضبوط ہو جاتا ہے کہ عیسائیوں کو اس دستر خوان کا علم نہیں ہے، نہ ہی ان کی کتاب میں اس کا تذکرہ ہے، اور اگر یہ نازل ہوا ہوتا تو اس کے نقل کیے جانے کے اسباب تو موجود تھے اور اسے تواتر کے ساتھ ان کی کتابوں میں ذکر کیا جاتا، یا کم از کم تواتر نہ سہی اکا دکا جگہ ہی بیان ہو جاتا۔ واللہ اعلم
لیکن جمہور اہل علم کا موقف یہ ہے کہ دستر خوان نازل ہوا تھا، یہی موقف ابن جریر نے اپنایا ہے، اور -واللہ اعلم – یہی موقف درست بھی ہے، سلف صالحین کے اقوال اور آثار سمیت دیگر اخبار بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں۔" ختم شد
"تفسير ابن كثير" (3/230-231)
تو اس بارے میں صحیح موقف یہ ہے کہ:
مائدہ حقیقی طور پر نازل ہوا تھا، یہی موقف جمہور اہل علم کا ہے، اسی کو ابن الجوزی، سمعانی، ابو جعفر نحاس، ابن جزی، قرطبی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن عاشور اور شوکانی وغیرہ سمیت دیگر اہل علم نے اختیار کیا ہے۔
مزید کے لیے دیکھیں: "تفسیر البغوی" (3/118) ، "زاد المسیر" (2/462) ، "معانی القرآن" (2/387) ، "التسہیل" (1/342) ، تفسیر القرطبی" (6/369)"التحریر والتنویر" (ص1236) ، "فتح القدیر" (2/136) "الجواب الصحیح" (3/ 127)۔
الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس میں اللہ تعالی کی قدرت کا بیان ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی بلندیوں میں ہے؛ کیونکہ کسی چیز کا نزول بلندی سے نیچے کی طرف کیا جاتا ہے۔
چنانچہ مائدہ نازل کرنا، اور مائدہ نازل کرنے کا مطالبہ کرنا دونوں ہی اس بات کی دلیل ہیں کہ ساری بنی اسرائیل قوم کو علم تھا کہ اللہ تعالی بلندیوں میں ہے، لہذا یہ لوگ اللہ تعالی کی صفت علو کے حوالے سے جہمی لوگوں سے زیادہ سمجھ دار تھے جو کہ اللہ تعالی کی صفت علو کے منکر ہیں۔
کیونکہ حواریوں نے مائدہ نازل کرنے کا مطالبہ کیا جو کہ صرف بلندی سے ہی ممکن ہے، پھر سیدنا عیسی علیہ السلام نے انہیں واضح کیا، اور پھر اللہ تعالی نے بھی اس کی وضاحت کر دی، اسی لیے تو فرمایا تھا: إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ترجمہ: یقیناً میں دستر خوان کو تم پر نازل کرنے والا ہوں۔ [المائدۃ: 115] تو اس سب سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی سے دعا مانگنی ہو تو بلند ذات سے مانگیں، اللہ سبحانہ و تعالی آسمانوں ، تمام مخلوقات، اور عرش سے بھی اوپر ہے، اور عرش پر اللہ تعالی کی ذات مستوی ہے جیسے اس کی شان اور جلالت کے لائق ہے، اللہ تعالی کی اس صفت میں کوئی مخلوق اس کی مشابہت نہیں رکھتی۔" ختم شد
مجموع فتاوى ابن باز" (2/56-57)
واللہ اعلم