الحمد للہ.
يہ سوال مستقل فتوى كيمٹى كے سامنے پيش كيا گيا تو اس كا جواب تھا:
اگر تو اس كارڈ ( سامبا ويزا ) كا حال يہى ہے جيسا بيان كيا گيا ہے تو سودى كاروبار كرنے والوں كى جانب سے يہ ايك نئى پيشكش اور لوگوں كا ناحق اور حرام طريقہ سے مال كھانا اور انہيں گنہگار كرنا اور ان كى كمائى اور معاملات كو پراگندہ اور خراب كرنا ہے.
اور يہ دور جاہليت كے سود كے حكم سے خارج نہيں جو شريعت مطہرہ ميں حرام ہے ( يا تو آپ اس كى ادائيگى كريں يا پھر سود ) لہذا اس طرح كے كارڈ جارى كرنے اور ان كے ذريعہ لين كرنا جائز نہيں.
اور اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحتوں كا نزول فرمائے.
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے اس كے متعلق سوال كيا گيا تو ان كا كہناتھا:
الجواب:
اس طريقہ پر معاہدہ كرنا جائز نہيں، كيونكہ اس ميں سود ہے اور وہ ويزا كارڈ كى قيمت ہے، نيز اس ميں يہ بھى ہے كہ اگر ادائيگى ميں تاخير ہو گئى تو سود لازم كرديا جاتا ہے. اھـ
واللہ اعلم .