الحمد للہ.
انبیاء اللہ تعالی کی طرف سے اس کے بندوں کی طرف پیغمبر ہیں جو کہ انہیں اللہ تعالی کے احکام پہنچاتے اور اللہ تعالی نے ان کے لۓ جو نعمتیں تیار کر رکھی ہیں اگر وہ اس کی اطاعت کریں گے تو انہیں ان نعمتوں کی خوشخبری دیتے اور نافرمانی کرنے کی صورت میں ہمیشگی والے عذاب سے ڈراتے اور پہلی امتوں کو اللہ تعالی کی مخالفت کے سبب سے ان پر دنیا میں جو عذاب نازل ہوا اور سزا دی گئ اس کے قصے اور خبریں سناتے ہیں ۔
اللہ تعالی کے یہ احکام اور منہیات عقل کے لۓ ممکن نہیں کہ وہ اکیلی ہی ان کی معرفت کر سکے تو اسی کے لۓ اللہ تعالی نے شریعت بنائی اور اوامر اور نواہی کو فرض کیا تا کہ بنی نوع انسان کی عزت وتکریم اور اسے شرف دینے اور ان کی مصلحتوں کی حفاظت کرنے کے لۓ یہ سب کچھ کیا کیونکہ لوگ اپنی خواہشات کے پیچھے چلتے ہوئے اللہ تعالی کی محرمات کے توڑنے کا ارتکاب کرتے اور لوگوں پر زیادتی کرتے ہوئے ان کے حقوق سلب کرتے ، تو اللہ تعالی کی یہ حکمت بالغہ تھی کہ وقتا فوقتا ان میں رسول مبعوث ہوتے رہے جو کہ انہیں اللہ تعالی کے اوامر کی یاد دہانی کراتے اور انہیں معصیت میں پڑنے سے ڈراتے رہے اور ان پر نصیحت کی تلاوت کرتے اور انہیں پہلے لوگوں کی خبریں یاد دلاتے رہے-
کیونکہ عجیب خبریں جب کانوں میں پڑتی اور غریب قسم کے معانی ذہنوں کو جگاتے ہیں تو پھر عقلیں ان سے اخذ کرتی ہیں تو ان کا علم زیادہ اور سمجھ صحیح ہو جاتی ہے اور جو لوگ زیادہ سنتے ہیں وہ زیادہ تدبیر کے مالک ہوتے ہیں اور جو زیادہ تدبیر والے ہوں ان کی سوچ زیادہ ہوتی ہے جو زیادہ سوچ وبچار والے ہوں ان کا علم زیادہ ہوتا ہے تو جو زیادہ علم والے ہوں تو ان کا عمل بھی زیادہ ہوتا ہے تو رسولوں کی بعثت کا کوئی بدل اور نہ ہی اس میں کوئی تعدیل پائی جا سکتی ہے –
اعلام النبوہ : تالیف : علی بن محمد الماوردی ، صفحہ نمبر 33
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ - احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام ، جو کہ ابن تیمیہ کے نام سے مشہور ہیں ان کی پیدائش 661 ہجری اور وفات 728 ہجری میں ہوئی ان کا شمار کبار علماء اسلام میں ہوتا ہے اور ان کی بہت سی تصنیفات ہیں – ان کا قول ہے کہ :
بندے کی معیشت اور اس کی آخرت کی اصلاح کے لۓ رسالت بہت ضروری ہے تو جیسے اس کی آخرت کی اصلاح رسالت کی اتباع کے بغیر نہیں ہو سکتی ایسے ہی اس کی دنیا اور معیشت کی اصلاح رسالت کی اتباع کے بغیر ممکن نہیں تو انسان شریعت کا مضطر ہے کیونکہ یہ دو حرکتوں کے درمیان ہے- ایسی حرکت جو اس کے نفع اور نقصان کو کھینچ لاتی ہے تو یہ زمین میں اللہ تعالی کا نور اور اس کا اپنے بندوں کے درمیان عدل اور وہ قلعہ ہے کہ جو بھی اس میں داخل ہوا وہ امن میں رہے گا –
شریعت سے یہ مراد نہیں کہ اس سے نفع اور نقصان کے درمیان حسی طور پر تمییز ہوتی ہے کیونکہ یہ تو حیوانات اور جانوروں کو بھی حاصل ہے تو گدھا اور اونٹ جو اور مٹی کے درمیان تمییز اور فرق کر سکتے ہیں بلکہ ان افعال کے درمیان تمییز جو کہ انہیں زندگی اور آخرت میں نفع اور نقصان دہ ہیں تو وہ افعال جو کہ اسے زندگی اور آخرت میں نفع مند ہیں مثلا ایمان اور توحید اور عدل وانصاف اور نیکی اور احسان اور امانت وعفت اور شجاعت وبہادری اور علم وصبر اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور والدین سے نیکی اور پڑوسیوں سے احسان اور ان کے حقوق ادا کرنے اور اللہ تعالی کے لۓ عمل میں اخلاص اور اسی پر توکل اور اسی سے مدد طلب کرنا اور اس کی تقدیر پر راضی ہونا اور اس کے حکم کو تسلیم ، اور اس کی اور اس کے رسولوں کی ہر اس چیز میں تصدیق کرنا جو انہوں نے بتایا ہے اس کے علاوہ جس میں بندے کو اس کی دنیا وآخرت میں نفع ہے اور اس کی مخالف چیزوں میں بندے کی دنیا وآخرت میں اس کی بدبختی اور نقصان ہے ۔
اگر رسالت نہ ہوتی تو عقل معاش میں نفع اور نقصان کی تفصیل کو نہیں پہنچ سکتی تھی تو اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر سب سے بڑی نعمت اور احسان یہ ہے اس نے ان کی طرف اپنے رسول بھیجے اور ان پر اپنی کتابوں کو نازل فرمایا اور ان کے لۓ صراط مستقیم کو بیان کیا، تو اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو وہ جانوروں کی طرح بلکہ ان سے بھی برے حال میں ہوتے تو جو شخص اللہ تعالی کی رسالت کو مانتا ہے اور قبول کرنے کے بعد اس پر استقامت اختیار کرتا ہے وہ بہترین مخلوق ہے اور جو اسے رد کر دے اور اس سے نکل جائے تو وہ بدترین مخلوق اور اس کی حالت کتے اور خنزیر سے بھی بری اور حقیر سے حقیر تر ہے اہل زمین کے لۓ ان میں رسالت کے موجودہ آثار کے سوا بقا ہی نہیں اور جب زمین سے آثار رسالت مٹ جائیں اور انہیں ہدایت دکھانے والے نشانات ختم ہو جائیں تو اللہ تعالی اوپر والے اور نچلے عالم کو خراب کر کے قیامت قائم کر دے گا ۔
اہل زمین کو رسولوں کی ضرورت اس طرح نہیں کہ جس طرح انہیں سورج چاند اور بارش وہوا کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس طرح کی ضرورت کہ جس طرح انسان کو زندگی کی ضرورت ہے اور نہ ہی آنکھ کے لۓ روشنی کی اور جسم کی کھانے پینے کی ضرورت کی طرح بلکہ جو کہ کسی کے ذہن میں آسکتا اور کوئی اندازہ لگانے سے بھی اس کی زیادہ سخت ضرورت ہے ۔
رسول علیہم السلام اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان اس کے نواہی اور اوامر میں واسطے اور اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے درمیان سفیر ہیں تو ان سب میں خاتم الرسل اور انبیاء جو کہ ان کے سردار اپنے رب کے عزیز ترین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہیں اللہ تعالی نے رحمۃ العالمین اور سالکین اور ساری مخلوق کے لۓ حجت بنا کر مبعوث کیا اور بندوں پر ان کی محبت توقیر اور ان کی اطاعت واتباع اور ان کی مدد اور ان کے حقوق ادا کرنا فرض قرار دیا ۔
سب انبیاء ورسل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور ان کی اتباع کرنے کا عہد و میثاق اور وعدے لۓ اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ اپنی اتباع کرنے والے مومنوں سے بھی یہ وعدہ لیں اللہ تعالی نے انہیں قیامت سے پہلے خوشخبری دینے اور ڑرانے والا اور اللہ تعالی کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ، تو ان کے ساتھ رسالت کو ختم کیا اور گمراہی سے ہدایت دی نیز جہالت سے علم سکھایا اور ان کی رسالت کے ساتھ اندھوں کی آنکھیں اور بہروں کے کان کھولے اور دلوں کو پردوں سے نکالا تو اس رسالت سے اندھیری زمین روشن ہو گئ اور اختلاف میں پڑے ہوئے دل آپس میں مل گۓ اور ٹیڑھی ملت کو سیدھا کر دیا اور سفید راہ کو واضح کر دیا اس رسالت کے لۓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ کھول دیا اور ان سے بوجھ ختم کیا اور ان کا ذکر بلند کر دیا تو جو بھی ان کی مخالفت کرے گا اسے ذلیل ورسوا کر دیا انہیں اس وقت مبعوث کیا جب کہ رسولوں کے درمیان وقفہ پڑ چکا اور کتابیں پرانی ہو چکی اور کلمات میں تحریف کی جا چکی اور شریعتوں کو بدلا جا چکا اور ہر قوم اپنی غلط رائے پر عمل کر رہی اور اپنے فرسودہ نظاموں اور اپنی خواہشات کے ساتھ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان فیصلہ کر رہے تھے۔
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخلوق کو ہدایت نصیب، اور راہوں کی وضاحت فرمائی اور لوگوں کو اندھیرے سے نور کی طرف نکالا اور فاسقوں فاجروں اور کامیاب لوگوں کے درمیان تمییز اور فرق کیا تو جس نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو اپنایا وہ ہدایت یافتہ ہوا اور جو بھی ان کے راستے سے ادھر ادھر ہٹا وہ گمراہ ہوا اور سرکشی کی، اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سب رسولوں اور نبیوں پر اپنی رحمت نازل فرمائے –
قاعدہ فی جوب الاعتصام بالرسالۃ : تالیف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
مجموع الفتاوی جلد نمبر 19 صفحہ نمبر 99 – 102
اور لوامع الانوار البھیۃ جلد 2 صفحہ 216 – 236 بھی دیکھیں-
انسان کو رسالت کی ضرورت : اس کر تلخیص مندرجہ ذیل نقاط میں بیان کرنا ممکن ہے :
1- انسان ایک مخلوق اور غلام ہے تو ضروری ہے کہ اپنے خالق کو پہچانے اور یہ جانے وہ خالق اس سے کیا چاہتا اور اسے کس لۓ پیدا کیا ہے تو یہ سب کچھ انسان خود نہیں جان سکتا جب تک وہ انبیاء ورسل کو نہ پہچانے اور اس ہدایت ونور کو جسے وہ لے کر آۓ پہچانے بغیر ممکن نہیں –
2- بیشک انسان جسم اور روح سے مل کر بنا ہے اور جسم کی غذا جو بھی کھانا پینا میسر ہو اور روح کی غذا اس نے مقرر کی جس نے اسے پیدا فرمایا اور وہ دین صحیح ہے عمل صالح ہے انبیاء ورسل دین صحیح لاۓ ہیں اور انہوں نے ہی عمل صالح کی راہ دکھائی ہے –
3- انسان فطرتی طور پر ہی دین دار ہے تو ضروری ہے کہ کوئی ایسا دین ہو جسے اختیار کرے اور پھر اس دین کا صحیح ہونا بھی ضروری ہے تو صحیح دین تک پہنچنے کے لۓ انبیاء ورسل اور اس چیز پر جو کہ وہ لاۓ ہیں ایمان لانا ضروری ہے–
4- بیشک انسان ایسے راہ کا محتاج ہے جو کہ اسے دنیا میں اللہ تعالی کی رضا مندی اور آخرت میں جنت اور اس کی نعمتوں تک پہنچاۓ تو اس راہ کو بتانے اور دکھانے والا انبیاء اور رسل کے علاوہ کوئی نہیں –
5- یقینی طور پر انسان فی نفسہ کمزور اور اس کے دشمن بہت زیادہ ہیں جو کہ گھات لگائے بیٹھے ہیں کہیں تو شیطان اسے گمراہ کرنے کے چکروں میں اور کہیں اس کے رفقاء اسے گندی اور قبیح چیزیں مزین کر کے دکھانے کے چکروں میں ہیں اور ایسے ہی نفس امارہ بھی اس کا دشمن ہے تو اس لۓ انسان کو کسی ایسی چیز کی ضرورت ہے جو کہ اسے دشمن کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھے ، تو انبیاء ورسل ہی ہیں جنہوں نے اسے اچھی طرح بیان کیا اور وضاحت کی اور اس کی راہ دکھائی ہے –
6- انسان طبعی طور پر مہذب اور شہری ہے تو اس کا مخلوق کے ساتھ جمع ہونے اور بودوباش اختیار کرنے کے لۓ ضروری ہے کہ کوئی ایسی شرع اور قانون ہو جس کے ساتھ لوگ عدل وانصاف قائم کریں وگرنہ ان کی زندگی تو وحشیوں اور جنگلیوں کے مشابہ ہو گی – تو اس شرع اور قانون کے لیےضروری ہے کہ وہ ہر حقدار کے حق کو افراط وتفریط کے بغیر محفوظ رکھے تو ایسی مکمل شرع اور قانون سواۓ انبیاء اور رسولوں کے کوئی اور نہیں لا سکتا–
7- یقینی طور پر انسان اس بات کا محتاج ہے کہ اسے امن اور اطمینان نفس ہو اور اسے حقیقی سعادت کے اسباب کی راہ دکھائی جائے تو انبیاء اور رسول اسی کا راہ دکھاتے ہیں – .