الحمد للہ.
فطرانہ ہر مسلمان پر واجب ہے، اور اسے ان لوگوں کی طرف سے بھی ادا کرنےپڑے گا جن کا نان و نفقہ اسکے ذمہ ہے، اور یہ عید کے دن یا عید کی رات [چاند رات] میں اپنی اور اہل خانہ کی ضروریات سے فاضل ہونے والے اناج میں سے ہر فرد کی طرف سے ایک صاع دیا جائے گا اسکی دلیل ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ:" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں ایک صاع کھجور کا ، یا جوکا فطرانہ واجب کیا ہے ہر مسلمان آزاد، غلام، مرد ،اور عورت پر "اسے بخاری (1503)اور مسلم (984)نے روایت کیا ہے۔
نووی رحمہ اللہ "المجموع"(6/62) میں کہتے ہیں:
"بیہقی رحمہ اللہ نے کہا: سب علمائے کرام کا فطرانہ واجب ہونے کے بارے میں اجماع ہے" اسی طرح ابن المنذر نے بھی "الاشراف" میں اس پر اجماع نقل کیا ہے" انتہی
اور "نيل الأوطار" (4/218) میں ہے کہ:
"فطرانے کو عید کے دن سے مؤخر کرنے کے بارے میں ابن رسلان کہتے ہیں کہ: یہ کام بالاتفاق حرام ہے؛ کیونکہ فطرانہ واجب ہے، اس لئے واجب کی تاخیر میں گناہ پایا جانا ضروری ہے، جیسے نماز کو اس کے وقت سے نکالنے پر گناہ ملتا ہے"انتہی
اس لئے جس شخص نے پہلے سے فطرانہ ادا نہیں کیا تو گذشتہ تمام سالوں کا فطرانہ ادا کرے، اور ساتھ توبہ استغفار بھی کرے، کیونکہ یہ فقراء اور مساکین کا حق ہے، اس لئے مساکین تک انکا حق پہنچنے سے ہی ادا ہوگا۔
اس موقف پر ائمہ اربعہ متفق ہیں۔
چنانچہ احناف میں سے عبادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر فطرانہ عید کے دن سے بھی مؤخر کردیں تو فطرانہ ساقط نہیں ہوگا، انہیں ادا کرنا ہی پڑے گا۔۔۔ چاہے [عدم ادائیگی کی مدت] کتنی ہی لمبی ہوجائے" انتہی
"الجوهرة النيرة" (1/135)
اسی طرح [مالکی فقہ کی کتاب] "مواهب الجليل شرح مختصر خليل" (2/376) میں ہے کہ:
"وقت گزرنے سے فطرانہ ساقط نہیں ہوتا، اور کتاب: "المدوّنہ" میں ہے کہ: اگر صاحب استطاعت فطرانہ کی ادئیگی مؤخر کردے تو اسے گذشتہ [عدم ادائیگی والے] سالوں کی بھی ادائیگی کرنی ہوگی"انتہی
اور [فقہ شافعی کی کتاب] "مغنی المحتاج" (2/112) میں ہے کہ:
"بلا عذر عید کے دن سے فطرانہ مؤخر کرنا جائز نہیں ہے، [اور عذر یہ ہے کہ] مال فی الحال موجود نہ ہو، یا مستحقین افراد نہ ملیں، [مؤخر نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تاخیر سے]فطرانے کی حکمت ہی فوت ہوجائے گی، اور وہ یہ ہے کہ خوشی کے دن فقراء کو گداگری و مانگنے کا موقع ہی نہ دیا جائے، چنانچہ اگر کوئی بنا عذر مؤخر کریگا ، گناہگار ہوگا، اور فطرانہ قضا بھی دینا ہوگا"انتہی
اور [حنبلی فقیہ] مرداوی "الإنصاف" (3/177) میں کہتے ہیں کہ:
" چاہے کوئی فوت بھی ہوجائے فطرانہ واجب ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوتا ، میرے علم میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے"انتہی
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو استطاعت کے باوجود فطرانہ ادا نہیں کرتا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
جس شخص نے فطرانہ ادا نہیں کیا اسے چاہئے کہ اللہ تعالی سے توبہ استغفار کرے؛ کیونکہ فطرانہ کی عدم ادائیگی سے وہ گناہگار ہوچکا ہے، اور اب مستحقین کو فطرانہ پہنچائے، اور فطرانہ عید کی نماز کے بعد عام صدقات کی طرح ایک صدقہ شمار کیا جائےگا"انتہی
واللہ اعلم .