الحمد للہ.
اول:
حج یا غیر حج ہر حالت میں مشت زنی حرام ہے ، تاہم احرام کی حالت میں اس جرم کی سنگینی مزید زیادہ ہے، جمہور فقہائے کرام کے ہاں اس سے حج فاسد نہیں ہو گا، مالکی فقہائے کرام کے ہاں فاسد ہو جائے گا۔
تاہم جمہور کے ہاں مشت زنی پر دم واجب ہو گا، اور یہ دم حنبلی فقہائے کرام کے ہاں اونٹ ہے، اور اگر یہ کہیں کہ مشت زنی سے حج فاسد ہو جاتا ہے تو پھر حج کو مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے اور آئندہ سال اس کی قضا واجب ہوتی ہے۔
مزید کے لئے دیکھیں: الموسوعة الفقهية (2/ 193) ، الإنصاف (3/ 224)
اس میں راجح موقف جمہور علمائے کرام کا ہے، وہ یہ کہ مشت زنی سے حج فاسد نہیں ہوتا؛ کیونکہ ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ مشت زنی سے حج فاسد ہو جاتا ہے، نیز مشت زنی کو جماع پر قیاس کرنا بہت کمزور ہے۔
دوم:
یہ آپ نے بہت بڑی غلطی کی کہ آپ نے حج مکمل نہیں کیا، چاہے آپ کے حج کو فاسد مان بھی لیں تو تب بھی آپ پر حج مکمل کرنا ضروری تھا، اگر آپ نے حج مکمل نہیں کیا تو ہر دو موقف [حج فاسد ہوا یا نہیں ہوا]کے مطابق آپ کا احرام اب بھی باقی ہے ۔
جیسے کہ دردیر رحمہ اللہ "الشرح الكبير مع الدسوقي" (2/ 68) میں کہتے ہیں:
"دونوں پر جماع اور جماع کے ابتدائی افعال بھی حرام ہیں۔۔۔جماع حج اور عمرے کو مطلقا فاسد کر دیتا ہے چاہے کوئی بھول کر جماع کرے یا کسی کے ساتھ جبر کیا گیا ہو، چاہے اس نے احرام باندھنے کے بعد افعال حج شروع کر لیے ہوں یا نہ کیے ہوں، وہ بالغ ہو یا نہ ہو، [عدم بلوغت کی صورت میں] جیسے کہ مشت زنی کرنا، تو یہ عمل حرام ہے اور اگر منی خارج ہو جائے تو حج فاسد ہو جائے گا۔"
پھر اس کے بعد مزید لکھتے ہیں:
"داود ظاہری کے علاوہ تمام علمائے کرام کے ہاں بلا اختلاف یہ واجب ہے کہ جس نے بھی وقوف عرفہ پانے کے بعد اپنا حج یا عمرہ فاسد کر لیا تو وہ اپنے حج یا عمرے کو اسی طرح مکمل کرے گا جیسے صحیح حج یا عمرہ کرنے والا کرتا ہے، اور اگر وقوف عرفات نہ کر سکا تھا تو پھر وہ عمرہ کر کے اپنا احرام کھول دے، اس کے لئے آئندہ سال تک احرام کی حالت میں باقی رہنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے فاسد احرام سے خلاصی پانے کا موقع ہے۔ اور اگر وہ فاسد حج یا عمرہ مکمل نہیں کرتا اور سمجھتا ہے کہ اس کے لئے درمیان میں احرام ختم کرنا جائز ہے یا ایسا نہیں سمجھتا تو ہر دو صورت میں حالت احرام میں باقی ہے، چاہے وہ اپنا احرام آئندہ سال سابقہ حج کی قضا یا نئے سرے سے حج کرنے کے لئے باندھے تب بھی اس کا سابقہ احرام باقی ہے آئندہ سال باندھا ہوا احرام لغو ہے، اور اگر وہ [حج یا عمرہ فاسد کر کے درمیان میں چھوڑ دینے والا ]شخص حالت احرام میں باقی ہے اور آئندہ سال قضا کی نیت سے دوبارہ احرام باندھے تو یہ قضا نہیں ہو گا؛ بلکہ سابقہ فاسد شدہ حج کی تکمیل ہو گی، اس کی قضا حج کی صورت میں آئندہ یعنی تیسرے سال ہو گی اور اگر عمرہ ہے تو تیسری بار احرام باندھنے پر ہو گی" ختم شد
اسی طرح "الشرح الصغير مع الصاوی" (2/ 95) میں ہے کہ:
"اگر جماع یا انزال کے ذریعے اپنا حج یا عمرہ فاسد کرنے والا شخص اس فاسد عمرے کو مکمل نہیں کرتا -چاہے وہ یہ سمجھے کہ حج یا عمرہ فاسد ہونے کی بنا پر توڑنا جائز ہے یا ایسا نہ سمجھے- تو وہ جب تک زندہ ہے حالت احرام میں ہی باقی ہے۔" ختم شد
سوم:
جمہور علمائے کرام کے موقف کے مطابق: آپ کا حج مشت زنی کی وجہ سے فاسد نہیں ہوا تھا، آپ پر لازمی تھا کہ آپ اپنا حج مکمل کرتے۔ اور اگر آپ نے طواف افاضہ نہیں کیا، یا آپ نے سعی نہیں کی یا طواف افاضہ اور سعی تو کی لیکن نیت کے بغیر کی تو آپ اب تک حالت احرام میں ہیں، اس دوران آپ نے عمرے کیے ہیں ان کی وجہ سے آپ حالت احرام سے نہیں نکلے، بلکہ جمہور علمائے کرام کے ہاں آپ کے عمرے لغو ہیں، یا پھر آپ کا حج ؛ حج افراد سے قران بن گیا ہے؛ کیونکہ آپ نے حج کے احرام کی حالت میں عمرہ کر لیا ہے، یہ حنفی فقہائے کرام کا موقف ہے۔
مزید کے لئے آپ الموسوعة الفقهية (2/ 140) ، الشرح الممتع (7/ 86) کا مطالعہ کریں۔
آپ پر لازمی ہے کہ مکہ جائیں اور طواف کے ساتھ سعی بھی کریں، اس طرح آپ اپنے حج کے احرام سے باہر آ جائیں گے۔
اور اگر آپ نے جمرات کو نیت کے بغیر کنکریاں ماریں تو اس پر آپ کے ذمے دم واجب ہے؛ کیونکہ بغیر نیت کے کنکریاں مارنا ایسے ہی ہے جیسے آپ نے کنکریاں ماری ہی نہیں۔
نیز حالت احرام باقی ہونے کی وجہ سے نکاح کا عقد کرنا بھی صحیح نہیں ہے، اس لیے احرام سے حلال ہونے کے بعد نکاح دوبارہ کرنا لازمی ہو گا۔
اس پوری مدت میں آپ سے جتنے بھی احرام میں ممنوع کام ہوئے ہیں انہیں معاف سمجھا جائے گا، اس میں تحلل اول حاصل ہونے کو نہیں دیکھیں گے، اور آپ کی لا علمی اور جہالت کو عذر بنائیں گے۔
چہارم:
آپ نے جو ذکر کیا کہ احرام باندھتے وقت شرط لگائی تھی یا نہیں، تو اس کے بارے میں یہ ہے کہ اگر آپ کو شرط لگانے کا پختہ یقین نہیں ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں؛ کیونکہ اصل یہ ہے کہ آپ نے شرط نہیں لگائی۔
بلکہ یہاں یہ محسوس ہوتا ہے کہ شرط لگانا مفید ہی نہیں ہے؛ کیونکہ یہاں کوئی ایسی رکاوٹ ہی موجود نہیں ہے جو حج کی تکمیل میں آپ کے لئے رکاوٹ بنے۔
آپ پر واجب ہے کہ آپ اللہ تعالی سے اپنے جرم اور گناہ کی توبہ کریں، پھر آپ نے اپنے بارے میں کسی سے پوچھا بھی نہیں اس میں بھی آپ نے کوتاہی کی، اور اپنی عبادت کے متعلق ضروری احکام نہیں سیکھے حالانکہ آپ پر ان چیزوں کا جاننا ضروری تھا۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہماری اور آپ کی عبادات قبول فرمائے۔
واللہ اعلم