الحمد للہ.
اول:
ہم نے آپ كے سوال ميں حكمت كا مطالعہ كيا ہے، اس ليے ہم حسن سوال پر تعريف كيے بغير نہيں رہ سكتے، اور اسى طرح فكر بھى اچھى ہے، اور حسن تدبر پر جتنى تعريف كى جائے كم ہے ہميں محسوس ہوا ہے كہ قبول علم اور مسائل كا مطالعہ كرنے كى استعداد پائى جاتى ہے.
ہميں اس پر كوئى تعجب نہيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے آپ كو اس دين حنيف اور دين قيم جو كہ دين وسط ہے اور دين حنيف اور آسان دين ہے كى طرف ہدايت دى كہ اللہ اور اس كے سب رسولوں پر ايمان لائيں، اور اللہ كے رسولوں ميں سے كسى بھى رسول ميں فرق نہ كريں.
ان شاء اللہ آپ سمجھ سكيں گى كہ صحيح كيا ہے اور غلط كيا ہے، اور حق و باطل ميں تميز كر سكيں گى، ہم اميد ركھتے ہيں كہ آپ شرعى علم كا حصول جارى ركھيں، اور حصول علم كے ليے ہمت زيادہ كريں، كيونكہ يہ علم وہ نور ہے جس سے اللہ سبحانہ و تعالى صراط مستقيم كى طرف ہدايت ديتا ہے.
دوم:
رہى سوال ميں بيان كى گئى حديث كے متعلق تو وہ حديث عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" آدمى سے يہ نہيں پوچھا جائيگا كہ اس نے اپنى بيوى كو كس بنا پر مارا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2147 ) سنن نسائى الكبرى ( 5 / 372 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1987 ) مسند احمد ( 1 / 275 ) وغيرہ سب نے ہى درج ذيل طريق سے اسے روايت كيا ہے:
داود بن عبد اللہ الاودى عن عبد الرحمن المسلى عن الاشعث بن قيس عن عمر بن الخطاب رضى اللہ عنہ بہ.
ہم كہتے ہيں كہ اس كى سند عبد الرحمن بن المسلى كى بنا پر ضعيف ہے، كيونكہ اسے كسى بھى اہل علم نے ثقہ قرار نہيں ديا بلكہ ابن حجر رحمہ اللہ تھذيب التھذيب ( 6 / 304 ) ميں ابو الفتح الازدى سے بيان كيا ہے كہ انہوں نے اسے ضعفاء ميں ذكر كيا ہے، اور اس كے بارہ ميں كہا ہے كہ: فيہ نظر اور اس كے بعد يہ حديث ذكر كى ہے.
اس ليے علماء حديث نے اس حديث پر ضعف اور رد كا حكم لگايا ہے، ان علماء حديث ميں درج ذيل علماء شامل ہيں:
ابن قطان رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ صحيح نہيں " انتہى
ديكھيں: بيان الوھم و الايھام ( 5 / 524 ).
اور امام ذھبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ميں عبد الرحمن بن المسلى ہے جو كہ معروف نہيں " انتہى
ديكھيں: ميزان الاعتدال ( 2 / 602 ).
اور شيخ احمد شاكر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كى سند ضعيف ہے " انتہى
ديكھيں: مسند احمد ( 1 / 77 ).
اسى طرح مؤسسۃ الرسالۃ كے زير طبع نسخہ كے محققين نے بھى اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 7 / 98 ) ميں اسے ضعيف كہا ہے.
سوم:
بالفرض اگر حديث كو صحيح مان ليا جائے تو اس حديث ميں اہل علم كى شرح قبول اور صحيح ہوگى، جس كا حاصل يہ ہے كہ لوگوں كو ايسے امور ميں دخل نہيں دينا چاہيے جو ان كے متعلق نہيں ہے.
چنانچہ اگر كسى شخص كو پتہ چلے كہ كسى شخص اور اس كى بيوى كے مابين اختلافات پيدا ہو گئے ہيں اور اسے علم ہو كہ شديد اختلافات كے نتيجہ ميں خاوند نے بيوى كو مارا بھى ہے تو اس كے جائز نہيں كہ گھر كے راز اور بھيد تلاش كرتا پھرے.
اور اسے ان كے پوشيدہ رازوں پر اطلاع كى كوشش نہيں كرنى چاہيے، كيونكہ يہ سوء ادب اور قلت ذوق كہلاتا ہے، ليكن اگر آدمى اہل اصلاح ميں شامل ہوتا ہو، اور اس كے ظن غالب ميں ہو كہ وہ اختلاف كو ختم كرانے كے ليے مشورہ دے سكتا اور معاونت كر سكتا ہے، تو پھر اس وقت اسے مشكل اور اس كے اسباب كے بارہ ميں سوال كرنے كا حق حاصل ہے، ليكن اگر طرفين اس كے فيصلہ اور دخل اندازى كو قبول كريں تو پھر.
فقھاء كرام كے اقول اور شارحين حديث كى شرح اس معنى پر دلالت كرتى ہے:
ابن قدامہ رحمہ اللہ اس كى تعليل بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" كيونكہ ہو سكتا ہے كہ اس نے بيوى كوم باشرت كى بنا پر مارا ہو ـ يعنى: بيوى مباشرت سے انكار كرتى ہو ـ اور اگر وہ اس كے متعلق بتائے تو اسے شرم آتى ہے، اور اگر اس كے علاوہ كچھ اور بتائے تو يہ جھوٹ ہوگا " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 8 / 168 ).
اور مناوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يعنى: اسے اس سبب كے بارے ميں دريافت نہيں كيا جائيگا جس كى بنا پر اس نے بيوى كو مارا ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے اس كے بتانے سے بيوى كى ستر پوشى نہيں رہےگى، اور ہو سكتا ہے كہ اسے ايسى بنا پر مارا ہے جس كا بتانا قبيح معلوم ہو مثلا جماع و مباشرت، اور يہ ممانعت اس كے ساس ا ور سسر كو بھى شامل ہے " انتہى
ديكھيں: فيض القدير ( 6 / 515 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" فصل: بغير كسى ضرورت كے آدمى سے سوال كرنا كہ اس نے بيوى كو كيوں مارا يہ مكروہ ہے، ہم نے كتاب كے اول ميں " حفظ لسان " كے بارہ ميں احاديث روايت كى ہيں، اور جس ميں مصلحت ظاہر نہ ہو اس ميں خاموش رہنے ميں احاديث بيان كى ہيں، اور اسى طرح يہ صحيح حديث بھى ذكر كى ہے كہ:
" آدمى كے حسن اسلام ميں داخل ہے كہ وہ ايسى چيز كو چھوڑ دے جو اس كے متعلق نہيں ہے " انتہى
ديكھيں: الاذكار ( 374 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" حديث كا معنى يہ ہے كہ:
وہ شخص جو اللہ كا تقوى اختيار كرنے والا ہے جو ان تين مراتب كے آخر تك گيا جس كا اللہ تعالى نے اس فرمان ميں اشارہ كيا ہے:
اور جن عورتوں كى نافرمانى اور بددماغى كا تمہيں خوف ہو انہيں نصيحت كرو، اور انہيں الگ بستروں پر چھوڑ دو، اور انہيں مار كى سزا دو، پھر اگر وہ تابعدارى كريں تو ان پر كوئى راستہ تلاش نہ كرو، بے شك اللہ تعالى بڑى بلندى اور بڑائى والا ہے النساء ( 34 ).
چنانچہ مارنا آخرى درجہ اور مرتبہ ہے، ہو سكتا ہے آدمى اپنى بيوى كو كسى ايسے كام كى وجہ سے مارے جس كے بيان كرنے ميں وہ شرماتا ہو، اس ليے جب آدمى كے تقوى كا علم ہو جائے، اور اس نے اپنى بيوى كو مارا ہو تو پھر اسے اس كے بارہ ميں سوال نہيں كيا جائيگا.
يہ تو اس صورت ميں ہے جب حديث صحيح ہو، ليكن يہ حديث ضعيف ہے.
ليكن وہ شخص جو برى سيرت ركھتا ہو تو اس سے سوال كيا جائيگا كہ اس نے اپنى بيوى كو كيوں مارا؛ كيونكہ اس كے اندر تقوى نہيں ہے جو اسے بيوى پر ظلم كرنے سے اور مارنے سے روكے، جس ميں بيوى مار كى مستحق نہ تھى " انتہى
ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 1 / 512 ).
http://www.ibnothaimeen.com/all/books/article_18015.shtml
عزيز سوال كرنے والى بہن: جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے ہو سكتا ہے حديث كا وہ معنى نہ ہو جو پہلى بار اس سے سمجھا جاتا ہے، اور خاص كر جب اس موضوع كے بارہ ميں باقى احاديث كا علم موجود نہ ہو.
چنانچہ شريعت ميں تو آدمى كو حق يا باطل پر اپنى بيوى كو مارنے كى اجازت دينا بہت دور كى بات ہے، اور پھر اسے اس مرتبہ پر لايا جائے كہ اس سے اس بارہ ميں باز پرس ہى نہ ہو يہ نہيں ہو سكتا كہ اسے پورا حق اور طاقت حاصل ہے.
جيسا كہ اس سے يہى كچھ وہ شخص سمجھےگا جسے حديث كا مقصود اور مراد معلوم نہيں، يہ تو اس صورت ميں ہے جب اس حديث كو بالفرض صحيح تسليم كيا جائے، بلكہ ـ شرعى حدود ميں رہتے ہوئے ـ مارنا تو ايك ايسى حالت ميں ہے جس ميں بيوى ازداوجى زندگى ميں سركشى پر اتر آئے اور بات نہ مانے، بالكل اس كى حالت اس بيمارى كى ہو جائے جسے علاج كى ضرورت ہو، اور خاوند اس علاج كے بغير معاشرت نہ كر سكتا ہو، تو يہاں مرد كا دور شروع ہوتا ہے بالكل اسى طرح جيسے مريض كو تكليف دہ زخموں كى جراحت او رآپريشن كى ضرورت ہوتى ہے.
اياس بن عبد اللہ بن ابى ذباب بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ كى بنديوں كو مت مارو "!!
تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تشريف لائے اور عرض كرنے لگے:
" عورتيں اپنى خاوند سے سركشى كرنے لگي ہيں ؟!
چنانچہ انہيں مارنے كى اجازت دے دى گئى "
چنانچہ بہت سارى عورتيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے گھر جا كر اپنے خاوندوں كى شكايت كرنے لگيں ؟!
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بہت سارى عورتيں محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے گھر آ كر اپنے خاوندوں كى شكايت كر رہى ہيں، يہ لوگ تم ميں سے اچھے نہيں ہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2146 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
آپ ذرا غور كريں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مار كى اجازت كا علاج كس طريقہ سے كيا جو كہ گھروں ميں ايك معاشرتى مشكل تھى اس كا علاج كيا، بالكل اسى طرح جس طرح كسى دوسرى مشكل كا علاج كرتے ہيں !!
ہمارى اس ويب سائٹ پر بيان ہو چكا ہے كہ شريعت اسلاميہ نے بيوى كو مارنے كى جو اجازت دى ہے وہ غير مؤثر مار ہے جو يا تو مسواك كے ساتھ ہو اور جس سے كوئى درد وغيرہ نہ ہو، بلكہ اس مار كى صرف معنوى اور شعورى اور احساس كى درد ہونى چاہيے.
برائے مہربانى سوال نمبر ( 41199 ) اور ( 482 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
ہمارى عزيز بہن:
يہ دين كے ساتھ انصاف نہيں كہ آپ كيسى ايسى چيز سے دوچار ہوں جو آپ كے ايمان كو متزلزل كرے يا آپ كے دين كو خطرہ ميں ڈال دے.
جب بھى كوئى مشكل پيش آئے يا آپ دين كے بارہ ميں كوئى شبہ سنيں تو اپنے ايمان كو خطرے ميں مت ڈاليں، بلكہ آپ اللہ كا شكر كريں كہ اللہ نے آپ كو ايمان كى ہدايت دى اور آپ اپنے اوپر اللہ كے حق كو ديكھيں، كہ آپ كو اس نے اس نئے دين كے ساتھ كتنى عزت دى ہے.
آپ وقت كے ساتھ ساتھ علم بھى زيادہ پائيں گى اور اپنے دين كے بارہ ميں جو استفسار ہو گا اس كا جواب بھى آپ كو مل جائيگا.
اور اگر بالفرض آپ سے ايك يا دو چيزيں يا ايك دو مسئلے غائب بھى ہو جائيں تو يہ دين كے ساتھ انصاف نہيں كہ آپ اس چھوٹى سى غائب ہونے والى چيز سے اپنے دين كو متزلزل كر ديں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ كا شرح صدر كرے، اور آپ كے دل كو دين پر ثابت قدم ركھے، اور آپ كے ايمان و يقين اور ہدايت ميں اضافہ فرمائے.
واللہ اعلم .