جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

چھٹى كے دن خاوند سارى رات دوستوں كے ساتھ گھومتا رہتا ہے

148055

تاریخ اشاعت : 06-05-2011

مشاہدات : 6830

سوال

ايك عورت كا خاوند سارا ہفتہ كام پر رہتا ہے، اور ہفتہ كے آخر ميں چھٹى والے دن اور رات اپنے دوستوں كے ساتھ گھونے نكل جاتا ہے، اور بيوى كو اكيلے ہى چھوڑ ديتا ہے.
جب اس سے بات كى جائے تو دليل يہ ديتا ہے كہ يہ اس كا حق ہے، اور بيوى كو پورا ہفتہ حاصل ہے.
تو كيا بيوى كو اس پر اعتراض كرنے كا حق حاصل ہے كہ كيونكہ خاوند سارى رات نہيں آتا اور دوستوں كے ساتھ بسر كر ديتا ہے ليكن نماز ضائع نہيں كرتا، اور وہ اپنا وقت بات چيت اور حقہ وغيرہ پى كر اور لڈو وغيرہ كى كھيل ميں بسر كر ديتے ہيں ؟
اور يہ بتائيں كہ اگر اللہ كى اطاعت ميں رات بسر كى جائے نہ كہ دوستوں كے ساتھ كھيل تماشہ ميں تو كيا پھر بھى وہى حكم ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ازدواجى زندگى ميں امور كو سرانجام دينے كے ليے خاوند اور بيوى كو آپس ميں افہام و تفہيم سے كام لينا چاہيے، اور اس سلسلہ ميں محبت و مودت پيش نظر رہنى چاہيے، اور پھر ہر معاملہ ميں بات چيت كى فرصت اور موقع دينا چاہيے، اور آپس ميں خاوند اور بيوى تبادلہ خيال بھى كريں.

تا كہ ہر ايك كے دل اور سوچ ميں جو ہے وہ دوسرے كے سامنے آ سكے، اور اسى طرح خاوند اور بيوى دونوں ہى جن مشكلات سے دوچار ہيں وہ بھى دونوں كے سامنے آئيں، اور پھر ان مشكلات كو حل كرنے ميں دونوں تعاون كرنے كى كوشش كريں.

جو خاوند سارا ہفتہ كام كاج ميں مصروف رہتا ہے بلاشك و شبہ اسے اپنے راحت بھى چاہيے، اور اسى طرح اپنے دوست و احباب اور بھائيوں سے ملاقات كا موقع بھى، اور يہ چيز اسے ہفتہ وار چھٹى كے دن ہى حاصل ہو سكتى ہے.

اس ليے آدمى كے ليے اس ميں كوئى مانع نہيں كہ وہ اپنے دوست و احباب كے ساتھ ملے تا كہ محبت و انس ميں اضافہ ہو اور اسى طرح وہ آپس ميں مباح بات چيت بھى كر سكتے ہيں، ليكن يہاں ايك شرط ہے كہ اس اجتماع ميں كوئى برائى اور غلط بات اور معصيت نہ پائى جاتى ہو تو پھر كوئى حرج نہيں ليكن اگر معصيت و نافرمانى ہے تو پھر ايسا كرنا جائز نہيں.

اس اجتماع ميں اگر حقہ اور سگرٹ وغيرہ پيا جاتا ہے جيسا كہ سوال ميں بھى ذكر كيا گيا ہے تو اس كے ليے اس ميں شريك ہونا جائز نہيں، چاہے وہ خود نہ پيئے ليكن اس برائى ميں تو وہ ان كے ساتھ شريك ہوگا.

كيونكہ يہ جگہ برائى والى ہے جہاں اس كے ليے جانا جائز نہيں، پھر خطرہ ہے كہ وہ ان كے ساتھ بيٹھ كر اسے پينے كا عادى بن جائيگا.

اور اسى طرح يہ لڈو وغيرہ كا كھيل بھى كراہت اور حرمت كے درميان ہے، اور كم از كم حالت يہ ہے كہ اگر اس ميں جوا نہ لگايا گيا ہو تو يہ مكروہ ہے، ليكن اگر اس ميں جوا بھى ہو تو پھر بلاشك و شبہ حرام ہوگا.

دوم:

اصلا عشاء كے بعد جاگنا مكروہ ہے، كيونكہ اس سے نماز كى ادائيگى ميں تاخير لازم آتى ہے، اور پھر اسى طرح حقوق كے بھى ضياع كا باعث بنتا ہے.

اسى ليے امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں باب باندھتے ہوئے كہا ہے:

" عشاء كے بعد رات كو بيدار رہنے كى كراہت كا بيان "

امام ابن حجر رحمہ اللہ تعالى اس كى شرح كرتے ہوئے رقمطراز ہيں:

" يعنى نماز عشاء كے بعد جاگنا.....؛ اور ترجمہ ميں جو السمر كے الفاظ استعمال كيے گئے ہيں اس سے مراد مباح امر ہے كہ مباح كام كے ليے جاگا جائے، كيونكہ حرام كو تو كراہت كو عشاء كى نماز كے بعد كے ساتھ كوئى اختصاص حاصل نہيں ہے، بلكہ وہ تو ہر وقت ہى حرام ہے.

امام بخارى رحمہ اللہ نے ابو برزہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عشاء كى نماز ميں تاخير كرنا مستحب سمجھتے تھے، اور عشاء كى نماز سے قبل سونا اور نماز كے بعد باتيں كرنا مكروہ سمجھتے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 599 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 647 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كيونكہ عشاء سے پہلے سونے كے نتيجہ ميں ہو سكتا ہے عشاء كى نماز كا وقت ہى نكل جائے، يا پھر اس كا مختار وقت يعنى افضل وقت بھى نكل جائے، اور عشاء كے بعد جاگنے كے نتيجہ ميں ہو سكتا ہے كہ صبح كى نماز بھى جاتى رہے يا پھر رات كا قيام بھى نہ كر سكے.

اور پھر عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ تو ايسا كرنے والوں كو سزا ديا كرتے اور فرماتے:

كيا رات كے ابتدائى حصہ ميں بيدار رہتے ہو اور رات كے آخر ميں سوئے رہتے ہو ؟

جب يہ فيصلہ ہو گيا تو پھر اس كى علت يہى ہے " انتہى

سوم:

جيسا كہ ہم بتا چكے ہيں كہ عشاء كے بعد بيدار رہنا اصلا مكروہ ہے، اور اگر اس ميں كوئى حرام چيز بھى شامل ہو جائے تو پھر بلاشك و شبہ حرام ہو گا، اور خاص كر جب اس كے نتيجہ ميں نماز ضائع ہونے كا يا پھر وقت نكل جانے كا باعث بنے.

ليكن اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى ميں عشاء كے بعد بيدار رہنا مثلا كوئى نماز كے ليے بيدار رہتا ہے، يا پھر تلاوت قرآن كے ليے يا پھر نفع مند علم كے حصول كے ليے يا اس طرح كے دوسرے شرعى مقاصد كے ليے تو يہ چيز مطلوب و محبوب ہے.

ليكن اس ميں ايك شرط ہے كہ ايسا كرنے سے اس سے بھى بہتر اور اولى اطاعت و فرمانبردارى كے ضائع ہونے كا خدشہ نہ ہو؛ دوسرے معنوں ميں يہ كہ وہ رات كو تو طلب علم يا پھر تلاوت قرآن كے ليے جاگتا رہے ليكن فجر كى نماز سے سو جائے، بلكہ وہ اس اطاعت كے ليے بيدار ہو جس كے ليے بيدار رہنے كى ضبرورت ہو، اور اس ميں بھى شرط يہ ہے كہ نماز ضائع نہ ہو، اور اسى طرح نہ ہى گھر والوں اور مہمان كے حق ميں كمى و كوتاہى وغيرہ نہ ہو.

اس ليے امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں باب قائم كرتے ہوئے فرمايا ہے:

" طلب علم كے ليے رات كو بيدار رہنے كا باب "

اور پھر اس پر دلالت كرنے والى چند ايك احاديث ذكر كي ہيں.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عمر رضى اللہ تعالى عنہ ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ مذاكرہ كرنے كے ليے رات بيدار رہے، تو ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

نماز ؟

تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا: ہم نماز ميں ہى ہيں " انتہى

ماخوذ از: فتح البارى.

امام احمد رحمہ اللہ نے مسند احمد ميں عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" روزے اور قرآن روز قيامت بندے كى سفارش كرينگے، روزے كہينگے: يا رب ميں نے اسے دن كے وقت كھانے پينے اور شہوت سے روكے ركھا، لہذا ميرى اس كے بارہ ميں سفارش قبول فرما.

اور قرآن كہےگا: ميں نے اسے رات كو سونے سے روكے ركھا اس ليے اس كے متعلق ميرى سفارش قبول فرما، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

چنانچہ ان كى سفارش قبول كى جائيگى "

مسند احمد حديث نمبر ( 6589 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

خلاصہ يہ ہوا كہ:

اصل ميں عشاء كى نماز كے بعد رات كو بيدار رہنے كى عادت بنانا مكروہ ہے، اور اگر اس كے ساتھ حرام كام بھى مل جائے تو اس كى حرمت ميں كوئى شك و شبہ نہيں ہے.

اور اگر يہ اطاعت و فرمانبردارى ميں ہو تو يہ حسب حالت مباح يا مطلوب ہے.

آپ كے خاوند كے ليے بعض اوقات اپنے دوست و احباب كے ساتھ رات بيدار رہنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ اپنى بيوى كے حقوق كے ضياع نہ بنے، اور نہ ہى اس شب بيدار ميں حرام قول و فعل شامل ہو.

ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اپنے خاوند سے اس موضوع ميں افہام و تفہيم سے اور نرم رويہ ميں بات كريں، اور نصيحت ميں شفقت و نرمى كا پہلو سامنے ركھتے ہوئے جو كچھ وہ كر رہا ہے اس ميں تبديلى كرنے كا مطالبہ كريں.

مزيد آپ سوال نمبر ( 9497 ) اور ( 10680 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب