الحمد للہ.
اول:
ازدواجى زندگى كى بہت سارى مشكلات ہيں، اگر تو يہ مشكلات خاوند كى جانب سے ہوں تو پھر ايك عقلمند عورت كو اس كا سبب تلاش كرنا چاہيے كہ خاوند كے اپنى بيوى كے ساتھ معاملات ميں تبديلى كيوں آئى ہے، اور اس كى زندگى ميں يہ مشكلات پيدا ہونے كے اسباب كيا ہيں، كيونكہ ہو سكتا ہے كہ اس كا سبب يہ ہو كہ وہ خاوند كى بات نہيں مانتى، اور تصرفات ميں عناد كا شكار ہوئى ہے، يا پھر خاوند كى اطاعت كرنے ميں كہيں كوتاہى سے تو كام نہيں لے رہى، يا پھر كہيں وہ گھر اور بچوں كى تربيت ميں تو سستى و كوتاہى كى مرتكب نہيں رہى، اس كے علاوہ دوسرے اسباب تلاش كرے.
يہ تو تصور نہيں كيا جا سكتا ہے كہ ازدواجى زندگى سعادت كے ساتھ بسر ہو رہى تھى، اور اچانك ہى بغير كسى سبب كے خاوند اپنى بيوى كو ناپسند كرنے لگا، اور گھر سے باہر راتيں بسر كرنے لگے، اور تمباكو نوشى كرنے لگے، اس كا ضرور كوئى سبب ہوگا، جس كى بنا پر خاوند ايسے كرنے لگا ہے، اور ضرور كوئى بات ہو گى جس نے اسے يہ غلط كام كرنے كى طرف لگا ديا.
اگرچہ ہميں علم ہے كہ اكثر طور پر ان اسباب ميں بيوى كا كوئى ہاتھ نہيں ہوتا؛ بلكہ ايك نيك و صالح شخص كا غلط راہ پر چل نكلنا ـ اللہ تعالى ہميں ثابت قدمى اور ہدايت نصيب فرمائے ـ يا تو برى صحبت اور سوسائٹى كى وجہ سے ہے جو اسے گھير كر صراط مستقيم سے گمراہ كر ديتى ہے، حتى كہ اس كى دنيا و آخرت كى مصلحت سے بھى دور ہٹا ديتى ہے، جيسا كہ ہمارے سامنے اس مشكل ميں ديكھنے كو مل رہا ہے.
جب بيوى كے سامنے واضح ہو جائے كہ خاوند ميں تبديلى آئى ہے اس ميں بيوى كا كوئى دخل نہيں تو پھر يہ اس كے ليے اللہ كى جانب سے آزمائش ہے، اس ليے اسے يا تو خاوند كى جانب سے حاصل ہونے والى تكليف پر صبر و تحمل كے ساتھ ساتھ خاوند كى اصلاح كے ليے دعا كرتے ہوئے اسے نصيحت بھى كرنى چاہيے.
يا پھر بيوى اگر اس كى اذيت و تكليف پر صبر نہيں كر سكتى يا اسے خدشہ ہو كہ اگر خاوند كے ساتھ رہى تو اسے اپنے آپ يا اپنے دين كا خطرہ ہو سكتا ہے يا پھر اولاد بگڑ جائيگى يا پھر خاوند كى معصيت و نافرمانى كفر تك پہنچ جائےـ اللہ اس سے محفوظ ركھے ـ تو اس حالت ميں بيوى اپنے خاوند سے عليحدگى طلب كر سكتى ہے.
دوم:
بيوى كو چاہيے كہ وہ اپنے خاوند كو وعظ و نصيحت كرنے ميں اچھے طريقہ سے جدوجھد كرے، اور اس كے ليے اپنى كلام ميں شدت اور سختى سے كام نہ لے، اور نہ ہى اس كے سامنے منہہ بسور كر اور تيورى چڑھا كر بات كرے.
بلكہ اسے اس سلسلہ ميں نرمى كا مظاہرہ كرنا چاہيے، اور وہ اپنے ماں باپ اور خاندان والوں كو اس سلسلہ ميں بتائے تا كہ وہ كسى ايسے شخص كو اس ميں دخل اندازى كرنے كا كہيں جو اس كے خاوند كو نصيحت كرے، اور اسے صحيح راہ كى راہنمائى كرے.
اس كے ساتھ ساتھ بيوى كو حرص كے ساتھ سجدہ ميں اور رات كے آخرى حصہ ميں اپنے خاوند كے ليے اللہ عزوجل سے اصلاح كى دعا كرنى چاہيے.
شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" خاوند كے ليے اپنى بيوى كے ساتھ برا سلوك كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو النساء ( 19 ).
اور عبد اللہ بن عمر بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اور آپ كى بيوى كا بھى آپ پر حق ہے "
اسے امام بخارى رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے.
جب خاوند اپنى بيوى كے ساتھ برا سلوك كرے تو بيوى كو چاہيے كہ وہ صبر و تحمل سے كام لے، اور اس كے ذمہ جو خاوند كے حقوق ہيں وہ ادا كرتى رہے تا كہ اسے اس كا اجروثواب حاصل ہو، ہو سكتا ہے جب خاوند اس كى جانب سے يہ سلوك ديكھے تو اسے ہدايت آ جائے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور نيكى و برائى برائى نہيں ہو سكتى، آپ برائى كو بھلائى سے دور كريں، تو وہ جس كے اور آپ كے درميان عداوت و دشمنى ہے وہ آپ كا دلى دوست بن جائيگا
اور يہ چيز تو انہيں ہى نصيب ہوتى ہے جو صبر كرنے والے ہيں، اور اسے سوائے بڑے نصيبے والوں كے كوئى اور نہيں پا سكتا فصلت ( 34 ـ 35 ).
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ فوزان ( 4 / 177 ).
اگر كوئى ايسى معاصى اور گناہ ہوں جس پر بيوى صبر كر سكتى ہے تو ٹھيك، ليكن ان ميں نماز ترك كرنا شامل نہيں ہے، كيونكہ نماز ترك كرنا كفر اور دين اسلام سے ارتداد ہے، اس ليے بيوى اپنے خاوند كو نزديك مت آنے دے، حتى كہ وہ نماز كى پابندى كرنے لگے.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك عورت كا خاوند كچھ كبيرہ گناہ مثلا نشہ وغيرہ كا ارتكاب كرتا ہے، اور يہ عورت اپنے خاوند سے تنگ ہے، عورت نيك و صالح اور ايمان والى ہے ـ ہم تو اسے ايسے ہى سمجھتے ہيں باقى اللہ ہى كو علم ہے ـ يہ عورت كيا كرے، اس نے كئى بار خاوند كو نصيحت بھى كى ہے كہ وہ اس حرام كام سے باز آ جائے، اور توبہ كر لے ليكن اس كا كوئى فائدہ نہيں ہوا، اس كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟
آيا يہ عورت ميكے چلى جائے، يا كہ صبر و تحمل سے كام لے ہو سكتا ہے اللہ تعالى اس شخص كو ہدايت نصيب كرے اسى طرح وہ اپنے بچوں كو بھى نماز ادا كرنے سے روكتا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" حرام كام كا ارتكاب كرنے والا يہ شخص نماز ادا كرتا ہے يا نہيں ؟
سائل:
نماز تو ادا كرتا ہے ليكن سستى كے ساتھ ادائيگى ہوتى ہے كبھى گھر ميں اور كبھى كام پر اور كبھى نماز ميں تاخير بھى ہو جاتى ہے.
جواب:
ميرى رائے تو يہ ہے كہ جب بيوى نے اسے نصيحت بھى كى اور اس سے كوئى فائدہ نہيں ہوا تو پھر بيوى كو فسخ نكاح كے مطالبہ كا حق حاصل ہے، وہ نكاح فسخ كر لے، ليكن بہر حال ان جيسے امور ميں ہو سكتا ہے فسخ نكاح كے ساتھ اسے كچھ اشياء حاصل نہ ہوں؛ كيونكہ اس كے ساتھ اولاد بھى ہے، اور فسخ نكاح ميں مشكل پيش آئيگى.
اس ليے اگر اس كى معصيت و نافرمانى كفر كى حد تك نہيں پہنچتى تو خراب اور فساد كے خوف كى بنا پر خاوند كے ساتھ رہنے ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن اگر يہ معصيت كفر كى حد تك پہنچ چكى ہو مثلا وہ نماز ادا نہيں كرتا تو پھر بيوى اس كے ساتھ ايك لمحہ بھى نہيں رہ سكتى "
ديكھيں: لقاء الباب المفتوح ( 13 ) سوال نمبر ( 18 ).
سوم:
خاوندوں پر واجب ہے كہ وہ اپنى بيويوں كے بارہ ميں اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كريں، اور يہ علم ميں ركھيں كہ اللہ تعالى نے انہيں اپنى بيويوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرنے كا حكم ديا ہے، اور انہيں حكم ديا ہے كہ وہ انہيں اچھے طريقہ سے ركھيں.
اور اللہ سبحانہ و تعالى نے انہيں بتايا ہے كہ ہو سكتا ہے ان ميں سے كوئى خاوند اپنى بيوى كو ناپسند كرتا ہو ليكن اللہ سبحانہ و تعالى اس ميں خير كثير پيدا كر دے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى ايسے ہى بيان كيا ہے كہ:
اگر وہ اس كے كسى اخلاق كو برا ديكھتا ہے تو پھر اس كے اخلاق حسنہ پر اسے راضى ہو جانا چاہيے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان ( بيويوں ) كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو، اور اگر تم انہيں ناپسند كرو تو ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو اور اللہ تعالى اس ميں خير كثير پيدا فرما دے النساء ( 19 ).
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كوئى مومن كسى مومنہ عورت سے بغض نہيں ركھتا، اگر وہ اس كے كسى اخلاق كو ناپسند كرتا ہے تو اس كے كسى دوسرے اخلاق سے راضى ہو جائيگا ـ يا فرمايا: ـ اس كے علاوہ كسى دوسرے اخلاق سے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1469 ).
ان خاوندوں كو يہ جاننا چاہيے كہ ان كے ليے قدوہ و نمونہ اور آئيڈيل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى بيويوں كے ليے سب سے بہتر خاوند تھے.
ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ:
عاشروھن بالمعروف:
يعنى ان كے ساتھ اچھى كلام كرو، اور اپنے افعال بھى اچھے كرو، اور اپنى شكل و صورت بھى اچھى بناؤ جتنى تم ميں استطاعت ہے، بالكل اسى طرح جس طرح تم اپنى بيوي سے چاہتے ہو تو پھر تم بھى اسى طرح كرو.
جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان عورتوں كے ليے بھى ويسے ہى حقوق ہيں جس طرح ان پر حق ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ البقرۃ ( 228 ).
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سب سے بہتر اور اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں كے ليے بہتر اور اچھا ہے، اور ميں اپنے گھر والوں كے ليے تم ميں سب سے بہتر اوراچھا ہوں "
سن ترمذى حديث نمبر ( 3892 ) امام ترمذى نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اخلاق تھا كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم حسن معاشرت كرتے، اور ہميشہ خوش رہتے اور اپنى بيويوں كے ساتھ ہنسى مذاق كرتے، اور ان سے نرم رويہ اختياركرتے، اور ان كے ليے اخراجات كھل كر كرتے، اور اپنى بيويوں كو ہنساتے.
حتى كہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے ساتھ دوڑ لگانے كا مقابلہ كر كے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے محبت و مودت كا مظاہرہ كرتے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميرے ساتھ دوڑ لگائى تو ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے آگے نكل گئى اور مقابلہ جيت ليا، يہ اس وقت ہوا جبكہ ابھى ميرا جسم فربہ نہيں ہوا تھا، ليكن جب ميں بھارے جسم والى ہو گئى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميرے ساتھ دوڑ لگائى اور آگے نكل گئے تو فرمانے لگے: يہ اس كا بدلہ ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2578 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جس بيوى كى بارى ہوتى رات كے وقت سارى بيويوں كو اس كے گھر روزانہ اكٹھے كرتے اور بعض اوقات ان سب كے ساتھ رات كا كھانا تناول فرماتے، پھر ہر بيوى اپنے اپنے گھر چلى جاتى، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم جس بيوى كى بارى ہوتے اس كے پاس رات بسر كرتے، ايك ہى بستر ميں سوتے، اور اپنى اوپر والى چادر اتار كر صرف تہہ بند ميں سوتے تھے.
جب عشاء كى نماز ادا كر ليتے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم گھر ميں آ كر اپنى بيوى كے ساتھ سونے سے قبل كچھ دير باتيں كرتے، تا كہ اس سے انس و محبت پيدا ہو.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يقينا تمہارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميں بہترين نمونہ ہے الاحزاب ( 21 ).
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 242 ).
لگتا ہے كہ آپ كے خاوند كا برى صحبت اور برى سوسائٹى سے دور ہونا ہى علاج ہے جس كى بنا پر وہ اپنے بيوى بچوں اور گھر اور دين سے مشغول ہو گيا ہے اور ان كا خيال نہيں كرتا، اس ليے اگر ممكن ہو سكے تو اس كے ليے نيك و صالح صحبت اور سوسائٹى اور ماحول بنائيں، اس كے ليے اس كے خاندان سے نيك و صالح افراد سے مدد و تعاون حاصل كريں، جو اس كے ليے برى صحبت اور برے دوستوں كى جگہ حاصل كريں جنہوں نے اس كى حالت كو خراب كر كے ركھ ديا ہے تو يہ بہتر رہےگا.
پھر آپ كو بھى چاہيے كہ آپ اس برى سوسائٹى كا نعم البدل دينے كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى سے مدد طلب كرتے ہوئے خاوند كو گھر ميں سكون اور محبت و مودت اور الفت ديں جو اسے اس برى صحبت سے نجات دلائے، اميد ہے كہ اللہ تعالى آپ اور آپ كے خاوند كے ليے اس آزمائش سے كوئى نكلنے كى راہ بنا دے.
ہمارى اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے وہ آپ كے خاوند كو ہدايت نصيب كرے، اور اسے ايسے كام كرنے كى توفيق دے جو اللہ كو راضى كرنے والے ہوں، اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع فرمائے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 45600 ) اور ( 9463 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
واللہ اعلم .