جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

برہانى مسلك ركھنے والے والد كا عقد نكاح ميں ولى بننا

158662

تاریخ اشاعت : 09-02-2012

مشاہدات : 3569

سوال

ايك عورت سلفى منہج ركھتى ہے اور اس والد صوفى ہے جو برہانيہ مسلك كى طرف منسوب ہے اگر والد اس كى شادى كر دے تو يہ نكاح صحيح ہو گا يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

برہانيہ ايك صوفى سلسلہ ہے جس كا مؤسس ايك سوڈانى شخص محمد عثمان عبدہ البرھانى ہے، يہ سلسلہ بہت سارى ضلالت و گمراہى اور منحرف اشياء پر مشتملہے جس ميں سے چند ايك ذيل ميں پيش كى جاتى ہيں:

اول:

اس سلسلہ كے قائد و مؤسس محمد عثمان برہانى كا خيال ہے كہ اسے ملك الموت يعنى موت كے فرشتے نے كہا ہے: جس نے برہانى طريقہ كا " حزب السيفى " ورد وظيفہ پڑھا وہ اس كى روح قبض نہيں كريگا.!

دوم:

محمد برہانى كا گمان ہے كہ اس كے ايك مريد على مير غنى كى روح قبض كر لى گئى تو اس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موجودگى ميں اس كى روح كو واپس كر كے اسے زندہ كر ديا!

سوم:

محمد برہانى كہتا ہے كہ: ابراہيم دسوقى نے عالم ارواح ميں اللہ سبحانہ و تعالى سے كلام كر كے مطالبہ كيا كہ اس كا جسم اتنا بڑا كر ديا جائے كہ وہ آگ كو يعنى جہنم كو بھر دے اور كوئى دوسرا اس ميں داخل نہ ہو!

چہارم:

تعويذ گنڈے اور جھاڑ پھونك اور زائچے وغيرہ كا اعتقاد ركھتا ہے.

جيسا كہ اس كى كتاب " قبس من نور ( 86 - 87 ) ميں درج ہے.

پنجم:

يہ سلسلہ شيطانى ورد وظيفہ پر مشتمل ہے اس ميں درج ذيل اشياء شامل ہيں:

محمد برہانى كا كہنا ہے:

وظيفہ اور ذكر كرنے والا يہ ذكر كرے اور كہے: وكان اللہ قويا عزيزا بھا بھا بھا بھيا بھيا بھيا بھيات بھيات بھيات القديم الازلى!

اور يہ بھى كہتا ہے كہ:

برہانى ذكر كرنے والا يہ وظيفہ كرے:

و كرب كدٍ كدٍ كردد كردد كردہ كردہ دہ دہ اللہ !

ان سب كو ديكھنے كے ليے آپ سلسلہ برھانيۃ كے ورد وظيفوں كى كتاب " مجموعۃ اوراد الطريقہ البرھانيۃ ( 26 - 28 ) كا مطالعہ كريں.

شيخ محمد مصطفى عبد القادر نے ان مخالفات كو بيان اور رد كيا ہے آپ اس كا مطالعہ كرنے كے ليے درج ذيل لنك ديكھيں:

http://www.saaid.net/feraq/sufyah/t/4.htm

ازھر شريف ميں ازہر يونورسٹى كے وكيل ڈاكٹر محمد عبد الرحمن بيصار كى سربراہى ميں اس وقت يعنى دسمبر 1975 كو ايك كميٹى تشكيل دى گئى جس ميں كئى ايك علماء كرام شريك ہوئے جن ميں اسلامى بحوث اكيڈى كے سابق جنرل سيكٹرى ڈاكٹر عبد الفتاح بركہ شريك ہوئے اور يہ فيصلہ كيا گيا كہ:

اس سلسلہ ميں ايسے افكار پائے جاتے ہيں جو كفر صريح كى حد تك جا پہنچتے ہيں، جن ميں آيات قرآنى كى تاويلات اور ظاہر نص قرآنى كى تعطيل پائى جاتى ہے، اور يہ اشارہ ہے كہ اس سلسلہ كے قائد و مؤسس كو وحى آتى ہے، اور وہ دوسرے سے قرآن مجيد كے سرائر و رموز افضل طريقہ سے سمجھتا ہے.

اور يہ كہ تبليغ دين ميں وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نائب اور دنيا ميں اللہ كا مظھر ہے، اس كے علاوہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور وحى اور اسراء و معراج اور بعض غيبى اشياء اور شرعى احكام و تكاليف كے حق ميں بھى بدزبانى اور گستاخى پائى جاتى ہے.

اس كا مطالعہ كرنے كے ليے آپ درج ذيل لنك ديكھ سكتے ہيں:

http://www.islamweb.net.qa/ver2/archive/readArt.php?lanhg=A&id=12230

ليكن اس يہ معنى نہيں كہ اس سلسلہ كى طرف ہر منسوب شخص كافر ہے، بلكہ ہو سكتا ہے وہ جاہل ہو يا پھر تاويل كر رہا ہو، يا وہ يہ كفريہ اعقادات نہ ركھتا ہو، بلكہ وہ صرف بعض بدعات ميں ان كا موافق ہو.

اس ليے كسى مسلمان پر كفر كا حكم نہيں لگايا جا سكتا بلكہ كفر كا حكم اسى صورت ميں لگےگا جب وہ اتمام حجت كے بعد بھى كفريہ اعتقاد ركھتا ہو يا پھر كفريہ كلمات كہے يا كفريہ اعمال كرے.

اس بنا پر اصل ميں يہ نكاح صحيح ہوگا اور اس پر باطل كا حكم نہيں لگايا جائيگا.

شيخ الاسلام ابن تيميہ كا كہنا ہے كہ:

" اگر كافر والد اپنى مسلمان بيٹى كا نكاح كرے تو يہ نكاح صحيح ہوگا.

ان كا كہنا ہے كہ: عقد نكاح باطل ہونا ظاہر نہيں ہوتا كيونكہ اس كے باطل ہونے كى كوئى شرعى دليل نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: الاختيارات ( 298 ).

اس طرح كے معاملہ ميں يعنى جس كا ولى كسى گمراہ فرقے كى طرف منسوب ہو كى مشكل ميں پھنسے ہوئے كے ليے اس قول ميں وسعت اور مخرج پايا جاتا ہے، چاہے اس كے كفر كا حكم لگايا جائے يا اسے بدعتى كہا گيا جب وہ اپنى ولايت ميں عورت كا نكاح كرے تو يہ نكاح صحيح ہوگا.

اور اگر ممكن ہو سكے تو وہ نكاح ميں عورت كے كسى اچھے عقيدہ ركھنے والے كو ولى بنائے تو يہ زيادہ بہتر اور افضل و اولى ہے، اور اسے واجب كہنا بعيد نہيں ليكن شرط يہ ہے كہ شر و برائى اور فتنہ اور قطع رحمى كا ڈر نہ ہو، اور چاہے وہ باپ كے عقد نكاح سے قبل يا بعد ميں كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب