الحمد للہ.
آپ كى خالہ كے بيٹے نے جو نكاح پڑھايا ہے وہ صحيح ہے كيونكہ آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ كا ولي يعنى آپ كے والد اس نكاح ميں موجود تھے، اور آپ كى اس نكاح پر رضامندى بھى ثابت ہوتى ہے.
زوجيت كے ثبوت كے ليے يہى شرعى نكاح كافى ہے، اس كے ليے رسمى طور پر نكاح كا پڑھايا جانا يا نكاح رجسٹر كرانا شرط نہيں، بلكہ يہ سب كچھ تو حقوق كى حفاظت كے ليے كيا جاتا ہے.
اس بنا پر آپ اس وقت اس شخص كى بيوى ہيں، اور آپ كے ليے كسى دوسرے سے اس وقت تك شادى كرنا جائز نہيں جب تك پہلا شخص آپ كو طلاق نہ دے، اور اب جبكہ يہ واضح ہو چكا ہے كہ يہ خاوند شادى كے اخراجات مہر يا رہائش اور بيوى كے اخراجات ادا كرنے سےعاجز ہے تو ضرر اور نقصان سے بچنے كےليے اس شخص سے طلاق طلب كرنى جائز ہے.
اس صورت ميں طلاق كے حصول كے ليے اہل خير سے تعاون حاصل كريں جو آپ كو اس شخص سے طلاق دلوائيں، يا پھر آپ اپنى معاملہ شرعى عدالت ميں لے جائيں، يا پھر خاوند كى جانب سے ادا كردہ مال واپس كر كے خلع كا سہارا ليں اگر اس نے كچھ ديا ہے تو وہ واپس كر ديں، يا نہيں بھى ديا تو چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے كچھ دے كر جان چھڑائيں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى مدد فرمائے اور آپ كو صحيح راہ كى توفيق دے.
واللہ اعلم .