الحمد للہ.
اول:
سستى اور اور كوتاہى سے نماز ترك كرنے كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، ليكن صحيح قول يہى ہے كہ وہ كافر ہوگا، اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 2182 ) اور ( 5208 ) كے جوابات ميں ديكھ سكتے ہيں.
جب يہ طے ہو گيا كہ تارك نماز كافر ہے تو پھر اس كى جانب سے نہ تو صدقہ كرنا جائز ہے، اور نہ ہى روزے ركھنا اور نہ ہى حج كرنا.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا تارك نماز كى موت كے بعد اس كے ليے دعائے استغفار كرنا اور اس كى جانب سے صدقہ و خيرات كرنا صحيح ہے چاہے وہ بعض اوقات نماز كرتا اور بعض اوقات نماز چھوڑنے والا بھى ہو ؟
اور كيا اس كى نماز جنازہ ميں شريك ہونا صحيح ہو گا اور اسے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كرنا صحيح ہے يا نہيں؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
جس نے نماز كے وجوب كا انكار كرتے ہوئے نماز ترك كى تو مسلمانوں كے اجماع كے مطابق وہ كافر ہے، اور جس شخص نے سستى اور كاہلى كے ساتھ نماز ترك كى تو وہ بھى كافر ہے اس بنا پر جس شخص نے جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرتے ہوئے فوت ہوا تو اس كے ليے دعائے استغفار كرنا اور اس كى جانب سے صدقہ و خيرات كرنا جائز نہيں، اور اسى طرح اس كى نماز جنازہ ميں شريك ہونا اور اسے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كرنا بھى جائز نہيں ہے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان ( مشركوں اوركافروں ) كے درميان جو عہد ہے وہ نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى تو اس نے كفر كيا "
اسے امام احمد نے مسنداحمد اور اہل سنن نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بندے اور كفر و شرك كے مابين ( فاصلہ ) نماز ترك كرنا ہے "
اسے امام مسلم نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.
مستقل فتوى اور علمى ريسرچ كميٹى.
الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء
اور اگر آپ كا والد نماز كے وجوب سے جاہل تھا، يا پھر ان علماء كرام كى تقليد كرتا تھا جو سستى اور كاہلى سے ترك نماز ميں عدم كفر كا فتوى ديتے ہيں تو ہم اميد ركھتے ہيں كہ اللہ تعالى اسے معاف فرمائےگا، اور اس حالت ميں اس كى جانب سے دعائے استغفار كرنا اور اس كى جانب سے صدقہ و خيرات كرنا فائدہ مند ہوگا.
واللہ اعلم .