ہفتہ 8 جمادی اولی 1446 - 9 نومبر 2024
اردو

بکریوں کو بجلی کے جھٹکے لگا کر غیر مسلموں کیلئے ذبح کرنے والے سلاٹر میں کام کرنے کا حکم

سوال

سوال: اطالوی جزیرے میں اسلامی مرکز کے سربراہ ہونے کے ناطے مجھ سے ایک سوال بار بار پوچھا جا رہا ہے، آپ اس کے بارے میں جواب دیں۔
سوال کی تفصیل درج ذیل ہے:
یہاں ایک مسلمان مذبح خانہ چلاتا ہے، اور اس کے تحت تقریباً 20 اطالوی غیر مسلم باشندے کام کرتے ہیں، جو کہ غیر مسلموں کے طریقہ کار کے مطابق جانور ذبح کرتے ہیں، اور انہیں پھر غیر مسلموں میں ہی فروخت کیا جاتا ہے، ذبح کرنے سے پہلے بجلی کا جھٹکا لگایا جاتا ہے، اور پھر شہ رگ کاٹ کر کھال اتاری جاتی ہے، لیکن کچھ مسلمان جو یہاں کام کرنا چاہتے ہیں ان کی طرف سے کچھ سوالات ہیں، مثلا کیا اس مذبح خانے میں کام کرنا جائز ہے؟ اور کیا مسلمان اس طریقے سے بکریوں کو قتل کر سکتے ہیں؟ اور کیا بکری کے مردہ ہونے کے بعد اسے صاف کر سکتے ہیں؟ ہاتھوں سے اٹھا کر گاڑی وغیرہ میں رکھ سکتے ہیں؟ مذبح خانے کی صفائی وغیرہ کا کام کر سکتے ہیں؟ ان بکریوں کے خون سے آلودہ کپڑوں میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟ براہِ مہربانی ہمیں ان تمام سوالات کے جوابات سے نوازیں ، اللہ تعالی آپ کے علم سے لوگوں کی تشنگی دور فرمائے۔ آمین

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس مذبح خانے میں بجلی کے جھٹکے لگا کر بکریوں کو مارا جاتا ہے اور شرعی انداز سے انہیں ذبح نہیں کیا جاتا تو وہاں پر کسی مسلمان کیلئے ملازمت اختیار کرنا جائز نہیں ہے، اس کی دو وجوہات ہیں:

1- یہ ملازمت حرام کام  یعنی مردار کھانے پر اعانت شمار ہوگی، اور شرعی طور پر یہ بات عیاں ہے کہ  کفار بھی شریعت  کے فرعی مسائل کے مخاطبین میں شامل ہیں، چنانچہ ان کیلئے بھی مردار کھانا ایسے ہی حرام ہوگا جیسے مسلمانوں کیلئے حرام ہے، چنانچہ اس کام کیلئے کسی قسم کا تعاون پیش کرنا بالکل بھی جائز نہیں ہے۔

2- اس سے جانور ضائع ہوگا، اور اس کی قدر و قیمت گر جائے گی۔

چنانچہ شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر ہم غیر مسلموں کا محاصرہ کریں اور ان کے گھوڑے  ہمارے قبضے میں آ جائیں تو ہم ان گھوڑوں کو اپنے قبضے میں محفوظ کر لیں گے۔۔۔ اور اگر ان کے ساتھ جتنے بھی مویشی ، شہد کی مکھیاں ، یا کوئی بھی جاندار ہو ،  تو مسلمانوں کیلئے حلال جانوروں میں سے کچھ بھی ذبح کیے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا، چنانچہ جانوروں کو مارنا یا کسی بھی انداز سے انہیں نقصان پہنچانا درست نہیں ہوگا، جیسے کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: "کسی بھی اونٹ یا بکری کو کھانے کیلئے کاٹو، اور شہد کی مکھیوں کو آگ لگا کر یا پانی میں ڈبو کر مت مارو"۔۔۔ اور میرے علم کے مطابق ابو بکر رضی اللہ عنہ کے جانداروں کے متعلق اس فرمان کے مقابلے میں کوئی قرآن و سنت کی کوئی دلیل نہیں ہے، اسی طرح کسی صحابی نے بھی آپ کے اس فرمان  کی مخالفت میں کوئی بیان نہیں دیا، چنانچہ اگر اس بارے میں صرف ابو بکر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہی ہمارے لیے قابل رہنمائی  ہو تو یہ بھی ہمارے لیے بطور دلیل کافی ہے، لیکن دوسری طرف احادیث مبارکہ میں غیر مسلموں کے جانوروں سے متعلق ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تائید موجود ہے۔۔۔
اگر کوئی یہ کہے کہ وہ حدیث کونسی ہے؟  تو ہم جواب میں کہیں گے: "ہمیں سفیان بن عیینہ نے انہوں نے عمرو بن دینار سے، انہوں نے صہیب  سے جو کہ بنی عامر کے غلام تھے، انہوں نے عبد اللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (جس شخص نے کسی چڑیا کو بغیر حق کے قتل کیا تو اللہ تعالی  چڑیا کے قتل کے بارے میں باز پرس فرمائے گا) کسی نے کہا: یا رسول اللہ! "چڑیا کا کیا حق ہے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (چڑیا کھانے کیلئے ذبح کرے، اور [بلا فائدہ]اس کا سر مت کاٹے)" اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  کسی بھی جانور کو باندھ کر اس پر نشانہ بازی کرنے سے بھی منع فرمایا ، اور غور فکر کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے کسی بھی ماکول اللحم جاندار کو قتل کرنے کے دو طریقے ذکر کیے ہیں: 1) اگر جانور آپ کے قبضے میں ہو تو اسے چھری سے ذبح کیا جائے 2) اور اگر قبضے میں نہ ہو تو تیر مار کر شکار کیا جائے۔
ان دو طریقوں کے علاوہ مجھے کہیں بھی کسی جاندار کو قتل کرنے کی اجازت نظر نہیں آئی، چنانچہ بلا فائدہ قتل کرنا  میرے نزدیک ممنوع ہے" انتہی
"الأم" (4/ 258)

کسی جانور کو باندھ کر قتل کرنے سے ممانعت کے بارے میں صحیح بخاری: (5513) مسلم: (1965) میں  حدیث ہے کہ: ہشام بن زید  کہتے ہیں میں انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ حکم بن ایوب  کے پاس گیا تو کچھ نو عمر لڑکوں نے مرغی کو باندھ کر نشانہ بازی شروع کی ہوئی تھی، یہ دیکھ کر انس رضی اللہ عنہ نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو باندھ کر [نشانہ بازی ]کرنے سے منع فرمایا"

اسی طرح صحیح مسلم: (1959) میں ہی ہے کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: "رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی جاندار کو باندھ کر [نشانہ بازی کر کے]قتل کرنے سے  منع فرمایا"

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو باندھ کر [نشانہ بازی ]کرنے سے منع فرمایا" اور اسی روایت کے الفاظ ایک اور جگہ کچھ یوں ہیں: (کسی ذی روح چیز کو   نشانہ مت بناؤ) علمائے کرام کا کہنا ہے کہ: باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ:  انہیں زندہ حالت میں کسی چیز کیساتھ باندھ کر ان پر نشانہ بازی نہ کی جائے، اور یہی مفہوم  " کسی ذی روح چیز کو   نشانہ مت بناؤ " کا ہے، یعنی کسی ذی روح چیز کو چمڑے کی بنی ہوئی اشیاء کی طرح نشانہ بازی کیلئے استعمال مت کرو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ ممانعت حرمت کیلئے ہے، یہی وجہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا عمل کرنے والے کے متعلق فرمایا: (ایسا کام کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہو) کیونکہ اس عمل سے جانور کو تکلیف پہنچتی ہے، اور جان ضائع جانے کا خدشہ رہتا ہے، اور اس کی قدر و قیمت  رائیگاں ہو جائے گی، چنانچہ اگر تو  نشانہ بازی والا جانور قابل  ذبح ہو تو نشانہ بازی کی وجہ سے ذبح نہیں ہو پائے گا، اور بصورت دیگر اس جانور سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا" انتہی

چنانچہ جانوروں کو ذبح کیے بغیر بجلی کے جھٹکے سے قتل کرنا  اس کی قدر گنوانے اور ذبح نہ کر کے اسے ضائع کرنے کے مترادف ہے، اس لیے بجلی کے جھٹکوں سے جانور مارنا یا اس پر تعاون پیش کرنا دونوں ہی نا جائز ہونگے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب