سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کیا اخبار یا کیلنڈر میں درج تاریخ پر اعتماد کرتے ہوئے ایام بیض کے روزے رکھے جا سکتے ہیں ؟

180158

تاریخ اشاعت : 12-12-2016

مشاہدات : 5681

سوال

مجھے یہ تو اچھی طرح علم ہے کہ ایام بیض ہر ہجری ماہ کی 13،14اور 15تاریخ کو ہوتے ہیں ،اور اس کی تحدید چاند کی رؤیت کے اعتبار سے ہوتی ہے نہ کہ کیلنڈر کے حساب سے ؛لیکن میرا سوال یہ ہے کہ میں چاند کی رؤیت کے ذریعے شروع ہو نے پر عمل کیسے کروں جبکہ اس کا اعلان صرف رمضان اور حج کے موقع پر ہوتا ہے ؟ کیا میں اس تاریخ پر اعتماد کر سکتا ہوں جو آپ اپنی ویب سائٹ کے طغرے کے نیچے دیتے ہیں ؟ میں نے آپ کی بیان کردہ ہجری تاریخ کا موازنہ ام القری اور دیگر کیلنڈروں سے کیا تو میں نے تمام کیلنڈروں کو ایک دوسرے سے متفق پایا ،لیکن آپ کی ویب سائٹ ان سے ایک دن آگے تھی، میں نے سمجھا کہ آپ تاریخ شرعی رؤیت کے لحاظ سے دیتے ہیں نہ کہ کیلنڈروں کے اعتبار سے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ایام بیض ہجری مہینے کی 13،14اور 15 تاریخ کو کہتے ہیں ،اس بارے ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر تم مہینے میں کچھ روزے رکھو تو تیرہ ،چودہ اور پندرہ تاریخ کے رکھو)
ترمذی:  (761) ، نسائی : (2424 ) اور البانی نے  اسے صحیح الترغیب میں (1038) میں صحیح کہا ہے ۔

مہینے کے شروع ہونے کی معرفت چاند دیکھنے سے ہوتی ہے ،اگر ایسے آدمی سے سوال کرنا ممکن ہے جو ہر مہینے چاند دیکھنے کا اہتمام کرتا ہے ،تو یہ بہت ہی اچھا ہے ،یا بعض ایسے ممالک کی رؤیت پر اعتماد کیا جائے جو ہر مہینے رؤیت کا اعلان کرتے ہیں ؛ورنہ انسان غالب گمان پر عمل کرتے ہوئے کیلنڈر کے حساب سے ہی روزے رکھ لے ۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پو چھا گیا:
"جیسا کہ عالی جناب جانتے ہیں کہ عام مہینوں کے شروع ہونے کا لوگوں کو علم نہیں ہوتا، لہذا ہر مہینے ایام بیض کے روزے رکھنے کی صورت  کیا ہو گی ؟میرا مقصد یہ ہے کہ ان دونوں میں روزے رکھنے کیلیے انسان کو ان ایام کیسے پتا چلے گا ؟امید ہے کہ رہنمائی فرمائیں گے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔

انہوں نے جواب دیا:

"اس کے لیے ظن ِ غالب پر عمل کرتے ہوئے کیلنڈر کے حساب سے روزہ رکھنا جائز ہے، اگر ایام بیض کے علاوہ کسی اور دن میں روزے رکھے گئے تو اس کے لیے یہ بھی کافی ہے ؛کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مہینے ایام بیض کو خاص کئے بغیر تین روزے رکھنے کی رغبت دلائی ہے،  جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کو فرمایا: (ہر مہینے میں  تین روزے رکھو؛ کیونکہ ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر  ہوتی ہے۔ [اس طرح تین ] روزے رکھنا سارے سال کے روزے رکھنے کے برابر ہوں جائیں گے)

اور صحیحین میں ہی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں: (مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی : ہر مہینے تین روزے رکھوں، چاشت کی دو رکعت  ادا کروں، اور سونے سے قبل وتر ادا کرو)

اس بارے میں بہت سی احادیث ہیں؛ لہذا اسے اختیار حاصل  ہے  چاہے تو تینوں روزے جمع کر لے یا الگ الگ دنوں میں رکھے ؛کیونکہ احادیث میں لگاتار رکھنے کی شرط نہیں  ہے ۔اللہ ہی توفیق دینے والا ہے " انتہی
مجموع فتاوی ابن باز : (15/ 282)

اگر بالفرض ان دنوں میں سے کسی دن   کی تعیین میں غلطی ہو بھی جائے تو کوئی حرج والی بات نہیں ،بلکہ روزے دار کے لیے مکمل اجر کی امید ہے ؛کیونکہ اس کا عذر قابل قبول ہے اور اس نے اپنی استطاعت کے مطابق بھر پور کوشش کی ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہر مہینے تین روزے رکھنا سنت ہے ،اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ ہر مہینے تین روزے رکھنا سارا سال روزہ رکھنے کے برابر ہے ،لیکن افضل یہ ہے کہ ایام بیض یعنی تیرہ ،چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے رکھے ۔اگر اس کے لیے ممکن نہ ہو مثلاً:  عورت کے ایام مخصوصہ ان دنوں میں ہوں یا سفر کی ضرورت پیش آ گئی ، یا مہمان آگیا ، یا تھکاوٹ آڑے آ گئی، یا معمولی بیماری یا اس جیسی کوئی اور مجبوری پیش آ گئی تو ان تین دنوں کے علاوہ دیگر دنوں میں روزہ رکھنے والے کو بھی اجر حاصل ہو جائے گا ۔

عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:  (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے کے تین روزے رکھتے تھے  اور اس بات کا خیال نہیں کرتے تھے کہ مہینے کی ابتدا ، وسط یا آخر کب روزے رکھے ہیں)

چنانچہ اس بارے میں معاملہ وسعت والا ہے ،لہذا ہر مہینے کے تین روزے رکھنا سنت ہے، چاہے یہ روزے مہینے کے شروع میں رکھے ،درمیان میں یا آخر میں ،لیکن ایام بیض میں رکھنا افضل ہے ،اگر عذر یا ضرورت کی وجہ سے پابندی نہ ہو سکے  تو ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالی اس آدمی کے لیے اجر لکھ دیں گے جس کی ایام بیض کے روزے رکھنے کی عادت تھی لیکن وہ عذر کی وجہ سے ان دنوں میں روزہ نہیں رکھ پایا" انتہی
 ( فتاوی نور علی الدرب)

اور ہماری ویب سائٹ کی تاریخ رمضان اور ذوالحجہ کے علاوہ کیلنڈر کے حساب سے ہوتی ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب