الحمد للہ.
والدہ کی زندگی میں فوت ہو جانے والے بیٹے کی وراثت تقسیم ہونے سے پہلے والدہ فوت ہو جائے تو اس سے والدہ کا حق وراثت بیٹے کی وراثت میں سے ساقط نہیں ہوتا؛ کیونکہ بیٹے کی وراثت میں سے حصہ پانے کے لیے شرط یہ ہے کہ جس وقت میت فوت ہو اس وقت وارث زندہ ہونا چاہیے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (196671 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
چنانچہ اس بنا پر: پہلے فوت شدہ بیٹے کا ترکہ تقسیم کیا جائے گا اور پھر والدہ کو اس کا حصہ اسی طرح دیں گے جیسے ان کی زندگی میں انہیں دیا جاتا، یعنی کل ترکے کا چھٹا حصہ۔
پھر بیٹے کی وراثت میں سے ملنے والے حصے کو والدہ کے کل ترکے -اگر ہو تو-میں شامل کیا جائے گا، تو یہ والدہ کا مجموعی ترکہ ہو گا ، اب والدہ کے ترکہ کو مذکورہ وارثوں میں تقسیم کیا جائے : 3 بیٹے اور 2 بیٹیاں، اس تقسیم میں لڑکے کو 2 حصے اور لڑکی کو ایک حصہ ملے گا۔
جبکہ یہ مسئلہ کہ آپ نے پہلے اپنے بھتیجوں کے حق میں اپنے حصے سے دستبردار ہونے کی نیت کی اور پھر آپ نے نیت بدل لی تو اس میں آپ پر کوئی حرج اور گناہ نہیں ہے؛ کیونکہ زیادہ سے زیادہ اس میں یہ ہے کہ آپ نے صرف نیت کی تھی، اور جمہور اہل علم کے موقف کے مطابق ہبہ اسی وقت مکمل ہوتا ہے جب کوئی اسے قبول کر کے اپنے قبضے میں لے لے۔
واللہ اعلم