اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

رمضان کے آخری جمعہ کی شریعت میں کوئی خصوصی اہمیت نہیں ہے۔

203732

تاریخ اشاعت : 22-04-2022

مشاہدات : 4296

سوال

کیا رمضان کے آخری جمعہ کے بارے میں جمعۃ الوداع کہنا بدعت ہے؟ میں نے ایک بھائی کو درس میں یہ کہتے ہوئے سنا ہے، کیا اس جمعہ کے متعلق خاص احادیث نہیں ہیں؟ یہ بھی بتلائیں کہ صحیح ثابت بات کیا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

"جمعۃ الوداع" نامی اصطلاح شریعت میں نہیں ہے، یہ خود ساختہ اصطلاح ہے، چنانچہ اس سے متعلقہ مخصوص نمازیں اور اس دن کو منانے کا طریقہ سب کا سب ہی خود ساختہ اور بدعت ہو گا۔

کتاب و سنت اور سلف صالحین کے آثار میں جو چیز صحیح ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جو فرائض اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر نماز، روزہ وغیرہ کی صورت میں فرض کیے ہیں انہی کی پابندی کی جائے، اور اسی طرح ان نوافل کو بھی ادا کرنے کا استحبابی طور پر اہتمام کیا جائے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ادا کیا ہے۔

اس کے علاوہ لوگوں کی طرف سے بنائے گئے تمام نت نئے طریقے بدعت اور مسترد ہیں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (864 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم: اس نام سے متعلقہ بدعات کی شکلیں اور صورتیں مختلف ہیں، یا لوگوں نے اس کی مخصوص فضیلت بھی بنائی ہوئی ہے، ہر علاقے میں الگ الگ اس قسم کی چیزیں پائی جاتی ہیں، مثلاً:
اول: رمضان کے آخری جمعہ میں بہت سے عوام الناس اور بدعات میں ملوث لوگ مخصوص نماز ادا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس نماز کے ادا کرنے سے چھوٹ جانے والی فرض نمازوں کا گناہ مٹ جاتا ہے، تو ایسی نماز بے بنیاد اور بدعت ہے۔

سوم:

برصغیر کے بہت سے مسلمان "جمعۃ الوداع" کو بڑا اہمیت والا مذہبی اور دینی تہوار سمجھتے ہیں کہ اس دن میں اکٹھے ہوں اور آپس میں ملیں، اس کے لیے شہر کی بڑی بڑی مساجد میں جا کر نماز ادا کرتے ہیں اور اس جمعہ میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد جمعہ کے لیے جمع ہوتی ہے۔

ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اس جمعہ کی کوئی خاص فضیلت نہیں ہے، لہذا اگر کوئی شخص ایسا سمجھتا ہے یا عقیدہ رکھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے، حقیقت یہ ہے کہ صرف اسی جمعہ کو نہیں بلکہ جب بھی اذان ہو ہر جمعہ اور نماز با جماعت میں حاضر ہونا واجب ہے، با جماعت نماز سے وہی پیچھے رہ سکتا ہے جس کا کوئی عذر ہو۔

چہارم:

رمضان کے آخری جمعہ سے تعلق رکھنے والی خود ساختہ عبادات میں "صلاۃ الفائدہ" بھی شامل ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے صلاۃ الفائدہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ 100 رکعت نماز ہے، بعض کہتے ہیں کہ چار رکعت نماز ہے اسے رمضان کے آخری جمعہ میں پڑھا جاتا ہے، تو کیا یہ بات ٹھیک ہے؟ اور اس نماز کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"یہ بات صحیح نہیں ہے، صلاۃ الفائدہ نامی کوئی نماز نہیں ہے، ویسے تو ہر نماز میں ہی فائدہ ہو تا ہے، فرض نماز کی ادائیگی سے سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے؛ کیونکہ ایک عبادت کی فرض قسم اسی عبادت کی نفل قسم سے افضل ہوتی ہے۔

لیکن اس جمعہ کے لیے ساتھ خاص نماز صلاۃ الفائدہ کے بارے میں یہی ہے کہ یہ بدعت ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

انسان کو لوگوں میں عام ہو جانے والی بے اصل اور بے دلیل نمازوں اور اذکار سے دور رہنا چاہیے کہ یہ احادیث سے ثابت نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ عبادات میں بنیادی اصول ممانعت ہے، لہذا کسی کے لیے بھی اللہ تعالی کی عبادت کے لیے کوئی ایسا طریقہ اپنانے کی کوئی اجازت نہیں جو اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی سنت میں بیان نہ کیا ہو۔ انسان کو جب کسی عمل کے بارے میں شک ہو کہ یہ عبادت ہے یا نہیں؟ تو اصل یہی ہے کہ وہ عبادت نہیں ہے، تا آنکہ اس عمل کے عبادت ہونے کی دلیل مل جائے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (14/ 331)

پنجم:

کچھ لوگ "یتیم جمعہ" کے نام سے بھی ایک جمعہ مناتے ہیں شریعت میں اس کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے، نیز رمضان کے آخری جمعہ کی دیگر ایام کے مقابلے میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، نہ ہی "یتیم جمعہ" کے ساتھ بیماریوں سے شفا ملنے کا کوئی معاملہ تعلق رکھتا ہے۔ اور نہ ہی اس دن کوئی مخصوص عبادت ہے۔
مزید کے لیے دیکھیں: "البدع الحولية" (336)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات